Daily Roshni News

فتنہ دجال۔۔۔تحریر۔۔۔ ڈاکٹر عبدالرؤف۔۔۔(قسط نمبر25)

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔موضوع ۔۔۔دجال کون ہے ۔۔۔تحریر۔۔۔ڈاکٹر عبدلروف ۔۔۔ ​  قسط نمبر 25) “الدجالون الکذابون”…کذاب اسحاق اخرس…گزشتہ سے پیوستہ…پچھلی قسط میں اسحاق اخرس کے متعلق بتایا گیا کہ وہ دوسری صدی میں شمالی افریقہ سے اٹھنے والا بہت بڑا جھوٹا دجال تھا ۔ جو بیک وقت بہت بڑا عالم ، ماہر الہیات ، کیمیا دان اور تورات، زبور ، انجیل اور قرآن کا بڑا علم رکھتا تھا ۔ اس جیسا شعبدہ باز ،شاطر اور مکار انسان دنیا نے نہیں دیکھا ۔

گونگا پن اور زباں بندی کا ناٹک

روایات میں ھے کہ یہ شخص زمانہ طالب علمی میں اصفہان ہی کے ایک مدرسے میں دوران تعلیم دس سال ٹھہرا رہا ۔ اور یہیں اس نے اپنی زبان پر ایسی مہر سکوت لگائے رکھی کہ ہر عام و خاص شخص دس سال اسے گونگا ہی سمجھتا رہا۔ اور اس زبان بندی کا ناٹک کرنے پر لوگوں میں “اسحاق اخرس” یعنی گونگا اسحاق کے نام سے مشہور ھو گیا ۔ وہ اشاروں میں بات کرتا مگر پھر بھی ہر شخص سے اس کی شناسائی تھی ۔ اس نے پارسائی اور للہیت کا بھی خوب لبادہ اوڑھا رہا ۔ ہر شخص کے دل میں اسحاق کے لیے ترس، علمی اعتراف ، عقیدت اور محبت تھی۔

اخرس کا معجزہ

آخر ایک دن اس نے لوگوں کو اپنا جھوٹا معجزہ دکھا دیا اور چُپ توڑ دی۔اور اس بات کو اپنا معجزہ بنا کر پیش کیا ۔ تاکہ لوگوں کے سامنے اپنی نبوت کا جھوٹا دعویٰ کر سکے ۔
کیمیا گر ہونے کی وجہ سے اس نے دس سالوں میں کمال رازداری کے ساتھ ایک ایسا کیمیکل بھی بنا لیا تھا کہ ایک رات جب تمام لوگ بستروں پر سو رہے تھے، اس نے اس کیمیکل کو اپنے ہاتھوں ، منہ اور بدن پر ملا جس کے بعد اس کا جسم چمکنے لگا اور اس سے نورانی کرنیں پھوٹنے لگیں ۔ شمعیں جلا کر سامنے رکھ دیں۔ اور لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے ایک ہولناک چیخ ماری جس کی وجہ سے مدرسے کے تمام لوگ جاگ اٹھے۔ جب لوگ ارگرد جمع ہوئے تو اس نے اٹھ کر نماز پڑھنا شروع کر دی اور ایسی خوش الحانی، فصاحت اور تجوید و قرات کے ساتھ بہ آواز قرآن پڑھنے لگا کہ بڑے بڑے قاری بھی دھنگ رہ گئے۔ جیسے یہ کبھی گونگا رہا ھی نہ ہو ۔
جب مدرسے کے لوگوں نے دیکھا کہ پیدائشی گونگا باتیں کر رہا ہے ۔ گونگا پن نہ صرف ختم ھو گیا ہے بلکہ اسے قوت گویائی بھی اعلیٰ اور بے مثال درجے کی مل گئی ہے۔ فصاحت، حفظ قرآن ، تجوید اور الحان کا کمال بھی بخشا گیا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ اس کا چہرہ ایسا روشن اور درخشندہ ہے کہ لوگوں کی عقل سخت حیرت زدہ ہے۔
مدرسے کے لوگوں نے اسے کرشمہ خداوندی ، اللہ کی ایک نشانی سمجھا اور کہنے لگے کہ سارے شہر کو خدا کے اس کرشمۂ قدرت کا مشاہدہ کرنا چاہئے ان لوگوں نے اسحاق اخرس کو گلی گلی ، قریہ قریہ ، اور گاؤں گاؤں گھمایا اور ہزاروں لوگوں کو اللہ کا یہ کرشمہ دکھایا ۔
المختصر لوگوں نے اسے خوب مشہور کیا ۔ ملک کے مردو زن ،پیر و جواں ، عمائدین ، بادشاہ و رعایا ، زاہد و رند اور حکومتی عہدے دار اور قاضی القضا ۃ تک اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ۔
اسحاق اخرس اپنے شیطانی دماغ اور شیطان من الجن کی سرپرستی سے بے شمار ان ھونے کام کرنے لگا ۔ ملک کا چیف جسٹس جب کچھ حکومتی ارکان کے ساتھ اسحاق اخرس کی رہائش گاہ پر گیا تو دروازے کو تالا لگا ہوا تھا ۔ اس نے اسحاق سے درخواست کی کہ وہ کرامت کے ذریعے تالا کھول دے تو ایسا ھی ہوا اور تالا بغیر ہاتھ لگائے کھل گیا ۔
دروازہ کھلنے کا یہ کرشمہ دیکھ کر سب لوگ اسحاق کے روبرو نہایت مؤدب ہو کر جا بیٹھے۔اور اسحاق سے اس معجزے کے بارے میں استفسار کرنے لگے ۔

اسحاق کا دعویٰء نبوت

اسحاق کو اسی لمحے کا انتظار تھا ۔ اسحاق نے فورا کہا کہ ” مجھے اس معجزے کے رونما ہونے سے چالیس روز پہلے ہی وجدان سے کچھ آثار نظر آنے لگے تھے آخر دن بہ دن القائے ربانی کا سر چشمہ دل میں ابلنے لگا حتیٰ کہ آج رات خدا تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے مجھ پر علم و الہام کی وہ راہیں کھول دیں کہ مجھ سے پہلے لاکھوں لوگ اس کے خیال اور تصور سے بھی محروم رہے اور مجھ پر وہ اسرار و حقائق منکشف فرمائے کہ جن کا زبان پر لانا مذہب طریقت میں ممنوع ہے البتہ مختصراً اتنا کہنے کا مجاز ہوں کہ آج رات دو فرشتے حوض کوثر کا پانی لے کر میرے پاس آئے اور مجھے اپنے ہاتھ سے غسل دیا اور کہنے لگے السلام علیک یا نبی اللہ!( نعوذ باللہ) مجھے جواب میں تامل ہوا اور گھبرایا کہ اے اللہ ! یہ کیا امتحان ہے؟
فرشتہ کہنے لگا : اے اللہ کے نبی بسم اللہ کہ کر ذرا منہ تو کھولیے میں نے منہ کھول دیا اور دل میں بسم اللہ کا ورد کرتا رہا فرشتے نے نہایت لذیذ چیز منہ میں رکھ دی یہ تو معلوم نہیں کہ وہ چیز کیا تھی؟ البتہ اتنا جانتا ہوں کہ وہ شہد سے زیادہ شیریں، مشک سے زیادہ خوشبودار اور برف سے زیادہ سرد تھی اس چیز کا حلق سے نیچے اترنا تھا کہ میری زبان بولنے لگی اور میرے منہ سے یہ کلمہ نکلا : اَشہَدُ اَن لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَشہَدُ اَنَّ مُحَمَّدَا رَّسُولُ اللّٰہِ یہ سن کر فرشتوں نے کہا ( معاذ اللہ نقل۔کفر ، گفت نہ باشد ) کہ محمد ﷺ کی طرح تم بھی اللہ کے رسول ہو ( نعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم)میں نے کہا ۔ اے فرشتو ! تم یہ کیسی بات کہہ رہے ہو مجھے اس سے سخت حیرت ہے بلکہ میں تو شرمندگی میں ڈوبا جاتا ہوں فرشتے کہنے لگے کہ اللہ تعالی نے تمہیں اس قوم کے لیے نبی مبعوث فرمایا ہے میں نے کہا کہ خدا نے تو سیدنا محمد علیہ الصلوۃ والسلام کو خاتم الانبیا قرار دیا ہے اور آپ کی ذات اقدس پر نبوت کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا اب میری نبوت کیا معنی رکھتی ہے؟ کہنے لگے درست مگر محمد صلى اللہ عليہ وسلم کی نبوت مستقل حیثیت رکھتی ہے اور تمہاری نبوت ظلی و بروزی ہے۔“
اسحاق کی تقریر سن کر عوام کا پائے ایمان ڈگمگا گیا اور لاکھوں لوگ اس جھوٹے دجال کے پیروکار بن بیٹھے اور جن لوگوں کا دل نور ایمان سے متجلٰی تھا وہ بیزار ہو کر چلے گئے حاملین شریعت نے بھولی عوام کو لاکھ سمجھایا کہ اسحاق گونگا دجال کذاب اور دین و ایمان کا ڈاکو ہے۔ لیکن عقیدت مندوں کی خوش اعتقادی میں ذرا فرق نہ آیا بلکہ جوں جوں علماء انہیں راہ راست پر لانے کی کوشش کرتے تھے ان کا جنون خوش اعتقادی اور زیادہ بڑھتا چلا جاتا تھا۔ آخر اس شخص کی قوت اور جمعیت اس قدر بڑھ گئی کہ اس نے خلافت پر حملہ کرکے خود خلیفہ بننے کا فیصلہ کیا چنانچہ عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور کو شکست دے کر اس نے بصرہ و عمان کے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ کئی معرکوں کے بعد خلافت عباسیہ کو فتح نصیب ہوئی اور اسحاق اخرس کو قتل کر دیا گیا۔ اس کے کچھ پیروکار اب بھی عمان میں ہیں،

جاری ہے

Loading