Daily Roshni News

فتنہ دجال۔۔۔تحریر۔۔۔ ڈاکٹر عبدالرؤف۔۔۔(قسط نمبر24)

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔موضوع ۔۔۔دجال کون ہے ۔۔۔تحریر۔۔۔ڈاکٹر عبدلروف ۔۔۔ ​  قسط نمبر 24) دجال: احادیث کی نظر میں ۔۔۔“الدجالون الکذابون “پچھلی اقساط میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مبارکہ “قیامت سے پہلے میری امت میں تیس جھوٹے دجال آئیں گے جن میں ہر ایک نبی ہونے کا دعویٰ کرے گا ” کے مصداق کچھ جھوٹے مدعیان نبوت کا ذکر کر چکے ہیں ۔ اور یہ وضاحت بھی کر چکے ہیں دجال اکبر ایک فرد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک فتنے کا نام بھی ہے ۔ جو دنیا میں سب سے بڑا فتنہ ہو گا ۔ دجال کا فتنہ، دجالِ مجسم سے کئی صدیوں پہلے رونما ھو گا ۔ اور جوں جوں دور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے بعید تر اور محشر کے دن سے قریب تر ہوتا جا رہا ھے فتنہ دجال بھی نت نئی چالوں ، اور نت نئے ہتھیاروں کے ساتھ شدت اختیار کر رہا ھے ۔ یہ وضاحت بھی ہو چکی کہ دجال کا حملہ مسلمانوں کے ایمان پر ضرب کاری ہو گا۔ وہ توحید اور رسالت کو مشکوک اور مکدر کرے گا۔ اسی اعتبار سے حدیث مبارکہ کے اندر جھوٹے مدعیان نبوت کو بھی الدجالون الکذابون سے موسوم کیا گیا ھے۔ ان میں سے چند جھوٹے مدعیان نبوت کا ھم ذکر بھی کر چکے ہیں ۔ جن میں
کذابِ یمامہ مسیلمہ کذاب، عبہلہ بن كعب بن غوث العنسی (اسود العنسی) ، حارث دمشقی، مغیرہ بن سعید اور بیان بن سمعان شامل ہیں ۔ یہ سب ملعون پہلی صدی ہجری کے ہیں اور ان میں سے پہلے دو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں ہی دعویٰ نبوت کی جسارت کر چکے تھے ۔

صالح بن طریف :

مذکورہ جھوٹے دجالوں کے بعد صالح بن طریف برغواطی کا نام ہے جس نے دوسری صدی کے پہلے ربع میں نبی ھونے کا دعویٰ کیا ۔
اس نے اندلس کے ایک قلعہ میں جنم لیا ۔ عبید اللہ معتزلہ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔ اس لیے اس پر معتزلہ کے عقائد کی بھی چھاپ تھی۔ تاریخ کے مطابق یہودی الاصل تھا ۔ زندگی کے ابتدائی دور میں سخت تنگدستی اور غربت کا زمانہ دیکھا ۔ سیر و سیاحت یا روزگار کی تلاش یا پھر حصول علم کے لیے مغرب کے ایک علاقے تانتا جا پہنچا جہاں اس نے بربر قبائل دیکھے جو انتھائی جاہل اور وحشی لوگ تھے ۔ اس کے لیے یہ ماحول آئیڈیل تھا اس نے وہیں رہنا شروع کر دیا۔ وہیں کا بود و باش اپنایا اور بربر قبائل کی مختلف زبانیں بھی سیکھ لیں اور ان لوگوں کو اپنے سحر ، شعبدہ بازیوں ، کرامتوں اور ان ھونیوں سے اپنا گرویدہ کر لیا ۔ یہاں اس کا دجل خوب پھیلا اور اسے خوب ترقی ملی۔ لوگ اس کے مرید ھو گئے اور اس کے آگے پیچھے پروانہ وار قربان ہونے لگے ۔ وہاں یہ دجال لوگوں کی حمایت سے حکومت کے مرکزی عہدوں سے ہوتا ھوا بہت جلد وہاں کا فرماں روا ھو گیا ۔
125ھ یا 127ھ میں اس نے دعوٰیء نبوت کر دیا۔ اس وقت خلیفہ ہشام بن عبد الملک اسلامی ممالک کا خلیفہ تھا۔ تھوڑے ہی عرصہ میں صالح کی حکومت کو ایسی ترقی ملی کہ شمالی افریقہ میں اس کے کسی اور ہم عصر بادشاہ کو وہ عظمت و شوکت حاصل نہ ھوئی ۔ دعویٰ ء نبوت کے علاوہ اس کا یہ بھی دعوی تھا کہ “میں ہی وہ مہدی بھی ہوں جو قرب قیامت کو ظاہر ہو کر حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام کا ساتھ اختیار کریں گے اور حضرت مسیح علیہ السلام جس شخص کے پیچھے نماز پڑھیں گے وہ میں ھی ہوں ۔

اسحاق اخرس۔ (گونگا اسحاق )

اس کذاب کا اصل نام اسحق اور اخرس اس کا لقب تھا ۔ جو لوگوں نے اسے دے رکھا تھا ۔ یہ بلاد مغرب کا رہنے والا تھا۔ اہل عرب کی اصطلاح میں مغرب شمالی افریقہ کے اس حصہ کا نام ہے جو مراکش، تیونس، الجزائر اور اس کے قرب و جوار کے ممالک پر مشتمل ہے۔ اسحق 135ھ میں اصفہان میں پیدا ھوا ۔
اسحاق اخرس بھی جھوٹے انبیاء میں سے ایک تھا۔ یہ بھی اسی زمانے سے تعلق رکھتا ھے جس زمانے اس کے پہلے پیش رو بیان بن سمعان اور صالح بن طریف تھا ۔ اس کا دعویٰ نبوت ان کذابین کے دعوے کے معاً بعد تھا ۔
اس وقت مشرقی اسلامی ممالک پر عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور کی حکومت تھی۔
یہ کذاب علوم مشرق و مغرب کا بہت بڑا عالم، کیمیا دان ، مورخ ، زبان دان اور ادب کا ماہر تھا ۔ اس نے سب سے پہلے مدرسے سے تمام آسمانی کتب تورات، انجیل زبور اور قرآن کی تعلیم حاصل کی۔ پھر تقریبا سب مروجہ علوم دینوی کی تکمیل کی۔اسے نہ صرف مذہبی معلومات پر بھی دسترس تھی بلکہ اس نے کئی زبانیں بھی سیکھ رکھی تھیں۔ اس کے علاوہ دیگر علوم و فنون میں بھی کمال حاصل تھا۔ کہتے ہیں کہ وہ کمال کا کیمیا گر بھی تھا۔ ان علوم اور اس کیمیاگری نے اس کو اپنے دجل کو پھیلانے اور لوگوں اپنا حلقہ بگوش بنانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ ماہر الہیات ہونے کی وجہ سے اسے مذاہب کے متعلق بھی بہت معلومات تھیں ۔ ان صلاحیتوں نے اس کذاب کو لوگوں کے سامنے بہت پزیرائی دی تھی۔ کمال کا شعبہ باز اور مقرر تھا ۔
————————————
کذاب اخرس کے متعلق باقی آئیندہ قسط میں

Loading