Daily Roshni News

فتنہ دجال۔۔۔تحریر۔۔۔ ڈاکٹر عبدالرؤف۔۔۔(قسط نمبر23)

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔موضوع ۔۔۔دجال کون ہے ۔۔۔تحریر۔۔۔ڈاکٹر عبدلروف ۔۔۔ ​  قسط نمبر 23) دجال: احادیث کی نظر میں“الدجالون الکذابون “پچھلی قسط میں دوسری صدی کے جھوٹے دجال،مہدی ء موعود کے دعویدار، جھوٹے مدعیء نبوت، کذاب حارث بن عبد الرحمن بن سعید دمشقی کے بارے میں پڑھ چکے ہیں ۔ اموی خلافت کے اسی دور میں ایک اور شیطان بھی نبوت کا دعوے دار ہوا ۔
اس کا نام بیان بن سمعان تمیمی تھا ۔ قبیلہ بنی تمیم سے تعلق رکھنے والا یہ جھوٹا دجال مغیرہ بن سعید عجلی کا ہم عصر تھا۔ یہ فرقہ بیانیہ کا بانی ہوا جو غالیء روافض کی ایک شاخ ہےجو اہل تشیع کی ایک شاخ مانی جاتی ھے۔ بیان اس گروہ کا پیرو کار تھا ۔
بیان نبوت کا دعویٰ کرنے کے ساتھ ساتھ خدا ھونے ،معبود برحق ہونے کا بھی دعوے دار تھا
یہ شخص فرقہ غالیہ کے عقائد رکھنے کے ساتھ ساتھ کچھ ھندوانہ عقائد بھی رکھتا تھا

بیان ہندوؤں کی طرح تناسخ و رجعت اور حلول کا قائل تھا۔

عقیدہ تناسخ و حلول یہ ہے کہ
کوئی شخص یہ سمجھے کہ مرنے کے بعد روح کسی دوسرے بدن میں چلی جاتی ہے خواہ وہ کسی آدمی کا بدن ہو یا کسی جانور کا جس کو فلاسفر تناسخ اور ہندو آواگون کہتے ہیں ۔ نئے جنم اور روحوں کے بھٹکنے جیسے باطل تصورات اسی بد عقیدہ کی پیداوار ہیں ایسا عقیدہ بالکل ہی باطل اور اس کا ماننا کفر ہے”۔
بیان بن سمعان بڑا شاطر چالاک ، اور استدلال کا ماہر تھا اس کا دعوی تھا کہ میرے جسم میں خدا کی روح حلول کر گئی ہے اور اس کے متبعین اس کو اسی طرح خدا کا اوتار یقین کرتے تھے جس طرح ہنود رام چندر جی اور کرشن جی کو خدائے بر تر کا اوتار خیال کرتے ہیں۔ بیان اپنے اس دعوی کے اثبات میں کہ ذات خداوندی ہر چیز میں حلول کرسکتی ہے۔ قرآن پاک کی متعدد آیتیں پیش کر تا تھا لیکن ظاہر ہے کہ آیات قرآنی سے اس قسم کا استدلال انوکھا اور عجیب و غریب ہے۔ یہ قرآن مجید کی منگھڑت اور باطل تشریح کر کہ شاطرانہ انداز میں اپنے عقیدے پر لوگوں کو قائل کرتا تھا۔

بیان کا دعوی تھا کہ مجھے قرآن بھی سمجھایا گیا ہے۔ قرآنی آیات کا جو مفہوم مجھے سمجھایا گیا ہے وہ مطلب و مفهوم دوسرے نہیں سمجھتے ۔

فرقہ بیانیہ کا خیال ہے کہ امامت محمد بن حنفیہ سے ان کے فرزند ابو ہاشم سے ایک وصیت کی بنا پر بیان بن سمعان کی طرف منتقل ہو گئی۔
یاد رہے کہ یہ فرقہ ائمہ کی معصومیت اور انبیاء پر افضلیت کا قائل ہے ۔
فرقہ قادیانی کی طرح فرقہ بیانیہ بھی اپنے پیشوا بیان بن سمعان کے بارے مختلف آراء کا شکار ہیں۔ بعض اس کو نبی مانتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ بیان نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کا ایک حصہ منسوخ کر دیا ہے اور بعض اسے نعوذ باللہ ۔ خدا یعنی معبود بر حق خیال کرتے ہیں۔ اس لیے کہ بیان نے ان سے کہہ رکھا تھا کہ خدا کی روح انبیا اور ائمہ کے اجسداد میں منتقل ہوتی ہے اور اسی طرح میرے اندر بھی حلول کر گئی ہے ۔ یعنی حلولی مذہب کا یہ موجب خود اپنی ربوبیت کا بھی مدعی تھا۔ اس کے پیروکاروں کا خیال ہے کہ قرآن کی یہ آیت نعوذ باللہ اس دجال کذاب بیان ہی کی شان میں وارد ہوئی ہے۔
ھذا بیان للناس وھدی و موعظۃ للمتقین ۔
ترجمہ : یہ لوگوں کے لیے بیان اور متقین کے لیے ہدایت و نصیحت ہے ”
اس ملعون بیان بن سمعان کا دعوی تھا کہ قرآن کی اس آیت میں بیان کے لفظ سے مراد میں ہی بیان ہوں اور میں ہی ہدایت و موعظت ہوں( نعوذ باللہ )

یہ جھوٹا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدائی کا قائل بھی تھا ۔
حلولی نظریہ سے استدلال کرتے ہوئے بیان حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدائی کا اعتقاد رکھتا تھا ،اور من گھڑت جھوٹی کہانی بیان کرتا تھا کہ اللہ تعالی کا ایک جزو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے جسد مباد ک میں حلول کر کے ان سے متحد ہو گیا ہے۔ چنانچہ ان کے اندر وہی قوت الہی تھی جس کی بدولت انہوں نے دره خیبر اکھاڑ دیا تھا۔ حضرت علی کی شہادت کے بعد وہ جزو الہی جناب محمد بن حنفیہ کی ذات میں پیوست ہوا۔ ان کے بعد ابو ہاشم عبد اللہ بن محمد کے جسم میں آیا ۔ جب وہ بھی فوت ہوئے تو وہ یہ خدائی عنصر بیان بن سمعان یعنی خود اس کی ذات میں حلول کر گیا ہے ۔ بیان یہ بھی کہا کرتا تھا کہ آسمان اور زمین کے معبود الگ الگ ہیں۔
بیان حضرت امام زین العابدین کو سب و شتم کرتا تھا اس نے حضرت امام محمد باقر جیسی جلیل القدر ہستی کو بھی اپنی خود ساختہ نبوت کی دعوت دے ڈالی ۔ اور لکھا کہ تم میری نبوت پر ایمان لاؤ تو سلامت رہو گئے اور ترقی کرو گے۔ تم نہیں جانتے کہ خدا کس کو نبی بناتا ہے۔

جب خالد بن عبد اللہ قسری عامل کوفہ نے اپنے سابقہ غلام مغیرہ بن سعید عجلی کو گرفتار کیا تو اسی کے ساتھ 119ھ میں ہی بیان بھی اس وقت گرفتار کر کے کوفہ خالد کے دربار میں لایا گیا تھا۔ جب مغیرہ جل کر خاک ہو گیا (جس کا تفصیلی تذکرہ پچھلی قسط میں ہوا) تو خالد نے بیان کو حکم دیا کہ خشک جھاڑیوں کا ایک گٹھا تو بھی اپنے گرد لپیٹ لے ۔ سمعان نے فورا اپنے گرد جھاڑیاں لپیٹ لیں ۔ یہ دیکھ کر خالد نے کہا تم پر افسوس ہے کہ تم ہر کام میں حماقت اور جلدی سے کام لیتےہو۔ کیا تم نے مغیرہ کو جلتے نہیں دیکھا؟ اس کے بعد خالد کہنے لگا کہ تمہارا دعوی ہے کہ تم اسم اعظم کے ساتھ لشکروں کو شکست دیتے ہو۔ اب یہ کام کرو کہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو جو تجھے قتل کرنے کے در پے ہیں شکست دے کر اپنے آپ کو بچالو مگر یہ کذاب جھوٹا تھا کچھ بول نہ سکا۔ اس کے بعد خالد تیل چھڑک کر مغیرہ کی طرح اس بد بخت کو بھی زنده جلا کر ہلاک کر دیا ۔
جاری ہے

Loading