Daily Roshni News

فتنہ دجال۔۔۔قسط نمبر11

مسیح الدجال
دجال کون ؟؟
تحریر : ڈاکٹر عبدالروف
تاریخ 6 اگست 2022
دجال : احادیث کی نظر میں

پچھلی قسط نمبر 10 میں ہم دجال کے ظہور اور اس کی چند نشانیوں کے متعلق حضرت مغیرہ بن شعبہ اور حضرت فاطمہ بنت قیس، رضوان اللہ علیہم سے مروی احادیث نقل کر چکے ہیں۔ جس میں حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ کے واقعہ کا ذکر بھی تفصیل سے ہو چکا۔ کہ جس میں ایک شخص نے ایک جزیرے پر دجال کو دیکھا اور اس کے ساتھ سوالاً جواباً کچھ گفتگو بھی ذکر ہوئی۔ (ملاحظہ ہو قسط نمبر 10 )

اب ھم ان احادیث کو نقل کرتے ہیں جن میں دجال کے ظہور کے مختلف علاقوں کا اشارہ ملتا ھے

احادیث کے مطالعے سے ہمیں اس ضمن میں 4 مقامات کا ذکر ملتا ہے ۔

1. وہ شام اور عراق کے درمیان ایک راستہ پر نمودار ہوگا۔
(ترمذی 2240)

2. خوزوکِرمان(خراسان کی طرف کے علاقے)۔
(مسند ابی یعلیٰ موصلی 5976)
(الفتن: لنعیم بن حماد 1913)

3. خراسان ۔
(ترمذی2237)

4. اصفہان کے مقام یہودیہ ۔
(مستدرک حاکم 8611)
خروج دجال کے علاقوں میں بظاہر تضاد معلوم ہوتا ہے ۔
عین ممکن ہے ان علاقوں سے مراد چاروں اطراف عرب ہوں ۔ یا پھر ممکن ہے یہ علاقے فتنہ دجال کے مراکز ہوں جہاں سے وہ دجل کو دنیا بھر میں پھلائے گا۔ اس تضاد کو دور کرنے کے یے بعض نے اس کی تطبیق کی کوشش کی ہے ۔ مثلا ملاحظہ ہو ۔ کتاب تحفۃ الالمعی: (اردو شرع ترمذی از مفتی سعید احمد پالنپوری ۔)
“دجال کا خروج سب سے پہلے شام اور عراق کے درمیان کی گھاٹی سے ہوگا، مگر اس وقت اس کی شہرت نہیں ہوگی، اس کے اعوان و انصار (مدد گار) یہودیہ گاؤں میں اس کے منتظر ہوں گے، وہ وہاں جائے گا اور ان کو ساتھ لے کر پہلا پڑاؤ خوز و کرمان میں کرے گا، پھر مسلمانوں کے خلاف اس کا خروج خراسان سے ہوگا۔”
بہر حال یہ تطبیق بھی قیاس پر مبنی ہے ۔ اور دجال۔کو محدود کرتی ہے ۔
ثابت یہ ہوا کہ احادیث میں جس طرح دجال کے ظہور کے کسی خاص وقت کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اسی طرح کسی خاص جگہ کو بھی دجال کے ظہور کے لیے مختص نہیں کیا گیا ہے۔
میرے نزدیک اس کی بہت ساری وجوہات ہو سکتی ہیں۔
1. شاید مختلف دجال مختلف ادوار میں ان مختلف جگہوں پر ظاہر ہوں ۔
2. ہو سکتا ھے دجال ایک شخص کی بجائے ایک وسیع و عریض فتنہ ہو جو دنیا کے مختلف حصوں سے باہم مشترک خصوصیات کے ساتھ ابھرے ۔ اور احادیث میں مذکور یہ چند مقامات اس کا مرکز ہوں۔
3. شاید اس کے ظہور کے وقت اور مخصوص علاقے کو خفیہ رکھنے میں یہ حکمت ہو کہ قیامت تک کے انسان اس سے بے خوف نہ ہو سکیں اور اس فتنہ دجل کی متعدد مذکور نشانیوں کو اپنے اپنے دور میں دیکھ کر ان کو پہچان لیں اور دجال سے ڈریں اور اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو فتنہ دجال کے خلاف مسلسل مستعد اور تیار رکھ سکیں ۔
4. اگر اس کے ظہور کی کوئی خاص جگہ یا وقت متعین ھو جاتا تو صرف اسی علاقے اور اسی دور کے لوگ اس فتنے سے ڈرتے اور باقی لوگ بے خوف رہتے اس طرح فتنہ دجال کی وہ آفاقیت اور ہولناکی ختم ھو جاتی جس کو قائم رکھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود تھا ۔
عدم تصریح کی وجہ چاہیے کچھ بھی ہو لیکن دجال کی مخصوص جائے ظہور اور وقت کا تعین احادیث میں نہیں ملتا۔
اور اس میں کوئی بات محیر العقول بھی نہیں، بلکہ اسلام میں یہ اسلوب اور بھی بہت سی صورتوں میں ملتا ھے ۔
مثلا : کسی فرد کے ایمان کی حالت کی دوسروں پر پوشیدگی ، رمضان میں لیلۃ القدر کی تخصیص نہ کرنا لیکن اس کی تلاش پر زور دینا ، قیامت کے درست وقت اور دن کا عدم تعین، اور کسی شخص کی موت کے وقت کا عدم تعین وغیرہ ۔ اور ان سب کا مقصد یہ ہو سکتا ہے کہ ان کا خیال ہمہ وقت انسان کے ذہن میں رہے اور وہ اس خیال کے زیر اثر اپنی حیثیت کو پہچانے ، اطاعت کو اپنائے، اپنا مقصد زندگی پہچانے، اپنے عمل کا درست رخ متعین کرے اور اس مقصد کی روشنی میں اپنی زندگی میں آرائش کردار کرے ۔
جاری ہے

Loading