فلسطین”””نثر اور سخن کے آئینے میں۔۔۔
تحریر۔۔۔۔سید قمر ہمدانی
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوزانٹرنیشنل ۔۔۔ فلسطین”””نثر اور سخن کے آئینے میں۔۔۔ تحریر۔۔۔۔سید قمر ہمدانی)شاعری اللہ کی طرف سے دیا ایک فن اور عطا ہے۔۔علامہ اقبال کا تصور فن ان کی تصورِ زندگی ہے۔۔اور ان کا یہ تصور زندگی تصورِ مذہب سے جڑا ہوا ہے۔۔اقبال کے فن کا تصور یہ تھا کہ اللہ نے انسان کو جو بھی فن عطا کیا اگر وھ بھلائی اور فلاح کے لئے ہے۔۔تو وہ کامیاب فن ہے۔۔علامہ اقبال بہت بڑے فلاسفر تھے۔۔سکالر تھے۔۔ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔۔ان کی شاعری میں فلسفہ بھی تھا۔اور مذہبی علوم حدیث اور فارسی میں بھی مہارت حاصل تھی اور اکثر بہت سے مقامات پر فلسفہ اور مذہب مدمقابل آجاتے تھے۔۔لیکن اقبال کی شاعری میں فلسفہ اور مذہب کا ٹکراؤ نہیں ہوتا تھا۔۔اقبال نے فلسفے کو مذہب کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔۔اسلام کے مطابق بنا دیا ہے۔اقبال کا قول ہے”کہ قوم کی روحانی صحت کا انحصار ان کے شعرا کی الہامی صلاحیت پر ہوتی ہے” اور یہ عطیہ ہے۔۔جو شاعر اور فنکار کا اللہ کی رضا اور انسانیت کے لئے ہونا چائیے۔۔اایک آرٹسٹ کا کمال یہ ھے کہ قوم کو روحانی طور پر صحتمند بنائے۔۔یہ صلاحیت الہامی ہوتی ہے۔۔اس عطیے کو نکھارنا پڑتا ہے۔۔ادیب کے خیالات اور الفاظ پوشیدہ ہوتے ہیں۔۔اس کے الفاظ اگر اچھے اور اصلاحی ہوں گے۔۔تو وہ قوم کی اصلاح کا باعث بنیں گے۔۔۔اقبال کی شاعری اصل سے آگاہی اور خاص پیغام دیتی ہے۔۔ اقبال کی شاعری بامقصد اور علم کا سمندر ہے۔۔
سات سو سال بعد رومی کو ایک ایسا شاگرد ملا جو ہم تک ان کا نظریہ ان کا فلسفہ پہنچاہتے ہیں۔۔علامہ اقبال اور رومی کا تعلق مرشد اور مرید کا تھا۔۔علامہ اقبال فرماتے ہیں۔۔””پیرِ رومی نے خاک کو اکسیر بنا دیا۔۔اور میری خاک سے کئ جلوے تعمیر کر دئیے۔۔مولانا روم کی تصانیف ایوان شمس تبریز ۔۔کشف العلوم ہیں۔۔مولانا روم عقل سے زیادہ روح دل اور عشق کو ترجیح دیتے تھے۔۔اقبال خودی کی نفی نہیں کرتے۔۔خودی کو ترجیح دیتے ہیں۔۔۔یعنی انسان کی عظمت کو ترجیح دیتے ہیں۔۔اقبال کی شاعری بہت سے موضوعات پر مبنی ہے۔۔ایک موضوع “”عشق اور عقل ہے”
کلام اقبال:::::ضرب کلیم
“”ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا
علامہ اقبال نے اپنے کلام میں فرمایا۔۔
کہ فلسطین کے عربو::
میں جانتا ہوں۔۔کہ تمہارے جسموں میں وہ آگ موجود ہے۔۔جس نے کبھی فارس اور روما کے تخت الٹ دئیے تھے۔۔لیکن تمہارے انگریز حاکم جو پہلی جنگ عظیم میں ترکوں کی شکست کے بعد فلسطین پر قابض ہو گئے تھے۔۔اور انہوں نے وہاں یہودیوں کو اس لئے بسانا شروع کر دیا تھا کہ اس ملک فلسطین کی ایک آزاد ریاست اسرائیل کے نام سے قائم کی جائے۔۔۔
جن لوگوں نے کلامِ اقبال کا مطالعہ کیا ہے۔۔ان کو یہ حقیقت معلوم ہے۔۔کہ علام اقبال کے دل میں ملت اسلامیہ کی بہبود کا کس قدر درد تھا۔۔وہ دن رات فلسطین عربوں کے غم میں گھلتے رہتے تھے۔۔۔اور یہ نظم ان کے خلوص اور محبت کی جو انہیں اس قوم کے ساتھ تھی۔۔۔بڑی حد تک غکاسی کرتی ہے۔۔۔۔
فلسطین کی پچھلی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ متنازعہ جنگوں غداریوں اور ظلم ستم سے بھری پڑی ھے۔۔۔انیسویں صدی کے آخر تک فلسطین کا علاقہ سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا۔۔اور یہ سر زمین مسلمانوں۔۔یہودیوں اور عیسائیوں کے لئے نہایت مقدس مقام رکھتی تھی۔۔کیونکہ فلسظین زمین اپنے دامن میں ان مذاہب کی تاریخ تمدن ثقافت مذہبی مقامات سمیٹے ہوئے تھی1878 میں سلطنت عثمانیہ کے دور میں اس وقت کی مردم شماری کے مطابق 87 فیصد مسلمان9فیصد عیسائی 4فیصد یہودی آباد تھے۔۔اس دور میں یہودیوں کے ساتھ بہت برا سلوک کیا جاتا تھا۔۔لیکن سلطنت عثمانیہ کے علاقوں میں یہودی بہتر زندگی گزار رہے تھے۔۔۔اور ان میں اپنی الگ یہودی ریاست کی خواہش بھی زور پکڑ رہی تھی۔۔فلسطین سے بہتر جگہ مذہبی لحاظ سے کوئی بھی نہیں تھی۔۔سلطنت عثمانیہ کے سلطان “”عبدالحمید ثانی”””
یہودیوں کے ان ارادوں سے واقف تھے۔۔اس لئے یہودیوں کے فلسطین میں زمین کی خریداری اور ہجرت کی راہ میں روکاوٹ بنے رہے۔۔بیسویں صدی کے آغاز تک سلطنت عثمانہ بہت کمزور ہو چکی تھی۔۔
1993 میں پہلی بار فلسطین اور اسرائیل کے درمیان براہ راست معاہدہ ہوا۔۔78 فیصد پر اسرائیل کا قبضہ تسلیم کر لیا گیا۔۔۔ہٹلر کے دور میں ہٹلر کے یہودیوں کے لئے جو الفاظ اس نے کہے تھے۔۔وہ یہ تھے۔۔۔کہ میں نے 80 فیصد یہودی ختم کر دئیے ہیں۔۔20 فیصد چھوڑ کے جارہا ہوں۔۔میرے مرنے کے بعد تم کو احساس ہو گا۔۔کہ میں نے 20 فیصد کو کیوں چھوڑا۔۔۔ہٹلر کے مطابق یہودی غدار اور لعنت زدہ قوم ہے۔۔ہٹلر نے اپنے دور میں چھ ملین ۔۔ساٹھ لاکھ یہودی ختم کئے۔۔
یہودی اللہ تعالٰی کے نذدیک ناپسندیدہ قوم ہے۔۔۔مگر افسوس اس بات کا ہے۔۔۔کہ امت مسلمہ کی نظرو فکر میں وحدت کا فقدان ہے۔۔ہم آہنگی اور یکجہتی نہیں ہے۔۔جس کے سبب آج وہ چار فیصد یہودی اپنے ظلم وستم اور عیاری سے مسلمان بچوں اور مظلوموں کے خون سے ظلم کا بازار گرم کر رہے ہیں۔۔۔کربلا تو آج بھی ہے۔۔مظلوموں کی آہ وپکار آج بھی ہے۔۔لیکن ہم آج بھی خاموش تماشائی کی طرح شہیدوں کے ناحق خون کی ندیاں بہتے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔۔۔