Daily Roshni News

فلسطین اور پاکستانی ادب۔۔۔تحریر.. ظہیر گیلانی

فلسطین اور پاکستانی ادب

تحریر.. ظہیر گیلانی

ہالینڈ(ڈیلی روشنی  نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔تحریر۔۔۔ظہیر گیلانی)فلسطین ہمیشہ سے مسلمانان پاکستان کی دلوں کی دھڑکن رہا ہے۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے پہلے بھی برطانیہ کی کالونی ہونے کے باوجود مسلمان ذعما اور دانشور فلسطین کے خلاف ہونے والی سازشوں سے نہ صرف آگاہ تھے بلکہ اس کی روک تھام کیلئے مقدور بھر سعی کرتے رہے ۔ بانیان پاکستان قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ فلسطینیوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے کی جانے والی کوششوں میں پیش پیش رہے۔

علامہ محمد اقبال صرف مصور پاکستان ہی نہیں بلکہ شاعر مشرق بھی تھے ۔ وہ ملت اسلامیہ کے عظیم راہنما اور فلسفی تھے ۔ وہ امت محمدیہ کو ایک  جسد واحد سمجھتے تھے ۔ امت کو پہنچنے  والی ہر تکلیف پر وہ تڑپ تڑپ جا تے تھے ۔ مسئلہ فلسطین کو بھی وہ صرف عربوں کا مسئلہ نہیں بلکہ امت محمدیہ کے خلاف ایک  گھناؤنی سازش قرار دیتے ہے۔ وہ ایسے مفکر اور دانشور تھے جو اپنی خداداد فراست سے کسی بھی معاملے کی ظاہری صورت کے علاوہ اس کی تہ میں کارفرما عوامل کا ادراک رکھتے تھے ۔ ابھی فلسطین کی تقسیم کا عمل شروع بھی نہیں ہوا تھا کہ انہوں نے اہل مشرق کو آگاہ کردیا تھا یہ صرف یہود کے لئیے ایک وطن تلاش کرنے کی کوشش نہیں بلکہ مشرق کے دروازے پر مغربی پہرے دار کھڑا کرنے کی کوشش ہے ۔ تاکہ وہ اس سٹریٹیجک مقام پر اپنا مظبوط اڈا قائم کرکے تمام اقوام شرق کو کنٹرول کر سکے۔

علامہ اقبال اپنی نظم شام و فلسطین میں مسلمانان عالم کو متوجہ کرتے ہوئے خبردار کرتے ہیں کہ:

فلسطین ہمیشہ سے مسلمانان پاکستان کی دلوں کی دھڑکن رہا ہے۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے پہلے بھی برطانیہ کی کالونی ہونے کے باوجود مسلمان ذعما اور دانشور فلسطین کے خلاف ہونے والی سازشوں سے نہ صرف آگاہ تھے بلکہ اس کی روک تھام کیلئے مقدور بھر سعی کرتے رہے ۔ بانیان پاکستان قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ فلسطینیوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے کی جانے والی کوششوں میں پیش پیش رہے۔

علامہ محمد اقبال صرف مصور پاکستان ہی نہیں بلکہ شاعر مشرق بھی تھے ۔ وہ ملت اسلامیہ کے عظیم راہنما اور فلسفی تھے ۔ وہ امت محمدیہ کو ایک  جسد واحد سمجھتے تھے ۔ امت کو پہنچنے  والی ہر تکلیف پر وہ تڑپ تڑپ جا تے تھے ۔ مسئلہ فلسطین کو بھی وہ صرف عربوں کا مسئلہ نہیں بلکہ امت محمدیہ کے خلاف ایک  گھناؤنی سازش قرار دیتے ہے۔ وہ ایسے مفکر اور دانشور تھے جو اپنی خداداد فراست سے کسی بھی معاملے کی ظاہری صورت کے علاوہ اس کی تہ میں کارفرما عوامل کا ادراک رکھتے تھے ۔ ابھی فلسطین کی تقسیم کا عمل شروع بھی نہیں ہوا تھا کہ انہوں نے اہل مشرق کو آگاہ کردیا تھا یہ صرف یہود کے لئیے ایک وطن تلاش کرنے کی کوشش نہیں بلکہ مشرق کے دروازے پر مغربی پہرے دار کھڑا کرنے کی کوشش ہے ۔ تاکہ وہ اس سٹریٹیجک مقام پر اپنا مظبوط اڈا قائم کرکے تمام اقوام شرق کو کنٹرول کر سکے۔

علامہ اقبال اپنی نظم شام و فلسطین میں مسلمانان عالم کو متوجہ کرتے ہوئے خبردار کرتے ہیں کہ:

 رِندانِ فرانسیس کا میخانہ سلامت

 پُر ہے مئے گُلرنگ سے ہر شیشہ حلَب کا

 ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق

 ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عَرب کا

 مقصد ہے مُلوکیّتِ انگلِیس کا کچھ اور

 قصّہ نہیں نارنج کا یا شہد و رُطَب کا

سنہ 1937 میں علامہ شدید علیل تھے ۔لیکن امت مسلمہ کی نبض پر رکھا ان کا ہاتھ مسلسل عالم عرب کے قلب میں خنجر گھونپےجانے کی خبر دے رہا تھا۔ فلسطین کے لئے بنائے گئے رائل کمشن نے عربوں کے مفادات خلاف اور یہود کے حق میں صریح نا انصافی پر مبنی رپورٹ پیش کی تو اقبال تڑپ اٹھے۔ علامہ کی تحریک پر فوری طور پر ایک احتجاجی جلسے کا اہتمام ہوا۔علامہ شدید علالت کی وجہ سے خود تو شریک نہ ہو سکے مگر انہوں نے ایک طویل بیان لکھ کر بھیجا جو جلسہ میں

 پڑھ کر سنایا گیا ۔

علامہ اقبال آخری دم تک حق وباطل کے معرکے میں حق کے لیے ڈٹے رہنے پر یقین رکھتے تھے ۔ اس لئیے رائل کمیشن کی رپورٹ کے باوجود انگریزوں کا ضمیر جگانے کی کوشش پیہم کرتے رہے ۔ انگلستان کی نیشنل لیگ  کی صدر محترمہ

فارکوہرسن کو 20  جولائی کے خط میں لکھتے ہیں:

“میں بدستور علیل ہوں ۔ اس لئے تفصیل سے آپ کو نہیں لکھ سکتا کہ رائل کمیشن کی رپورٹ نے میرے دل پر کیسا چرکا لگایاہے۔نہ یہ بتانے پر قادر ہوں کہ اس رپورٹ سے ہندوستان کے مسلمان  بلخصوص اور تمام ایشیا کے مسلمان بالعموم کس قدر رنج و الم کا شکار ہوئے ہیں۔ اور غم وغصہ کے یہ جذبات آ ئیندہ کیا رنگ اختیار کریں گے۔ نیشنل لیگ کو چاہئیے کہ بیک آواز اس ظلم اور طغیان کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرے اور برطانوی باشندوں کو سمجھائے کہ عربوں کے خلاف نہ انصافی نہ کریں——— ہمیں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ فلسطین برطانیہ کی ملکیت نہیں۔ ایشیا کے مسلمان حقیقت سے بخوبی واقف ہوتے جارہے ہیں کہ یہ جمعیت اقوم (League of Nations), دراصل ایک اینگلو فرانسیسی ادارہ ہے جس کا مقصد صرف اسلامی ممالک کے حصے بخرے کر کے انہیں کمزور سے کمزور تر کر دینا ہے۔——-“

علامہ تمام حقائق کو جاننے اور سمجھنے کے با وجود نہ تو رحمت باری تعالیٰ سے مایوس ہوتے ہیں نہ ہی مستقبل کے بارے میں مایوسی پھیلانا چاہتے ہیں بلکہ اس ان مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں اور ترغیب بھی دیتے ہیں ۔کہتے ہیں کہ :

 دیکھا ہے مُلوکِیّتِ افرنگ نے جو خواب

 ممکن ہے کہ اُس خواب کی تعبیر بدل جائے

 طہران ہو گر عالَمِ مشرق کا جینوا

 شاید کُرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے!

ایک طرف علامہ اقبال عالم شرق کے راہنماؤں کو جمعیت اقوم کے بجائے اپنی جمعیت بنانے کی ضرورت کی طرف توجہ دلاتے ہیں تو دوسری طرف فلسطین و عرب کے عوام کو آزادی کی جدوجہد شروع کرنے کی ترغیب دیتے نظر آتے ہیں :

 زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ

 میں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے

 تری دَوا نہ جنیوا میں ہے، نہ لندن میں

 فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یَہود میں ہے

 سُنا ہے مَیں نے، غلامی سے اُمتوّں کی نجات

 خودی کی پرورش و لذّتِ نمود میں ہے!

علامہ اقبال کے بعد جس شاعر نے فلسطین کے سب سے زیادہ کام کیا وہ فیض احمد فیض ہیں۔ انہوں نے عالمی سطح پر فلسطینی عوام کے حقوق کی آواز بلند کی۔ اور بہت سی دل دہلا دینے والی نظمیں لکھ کر پاکستان عوام کو علامہ اقبال کے افکار  سے جوڑے رکھا۔ فلسطین سے بے  دخل کرنے کے بعد صیہونی دہشت گرد ان کا پیچھا کرتے رہے اور ان کے مہاجر کیمپوں میں بھی خون کی ہولی کھیلتے رہے۔ بیروت کے فلسطینی کیمپ پر اسرائیل طیاروں کی بمباری کے وقت فیض لبنان میں ہی تھے ۔ اپنی نظم ایک نغمہ کربلائے بیروت کے لئیے میں کہتے ہیں:

 بیروت نگارِ بزمِ جہاں ​

 بیروت بدیلِ باغِ جناں ​

 بچوں کی ہنستی آنکھوں کے​

 جو آئنے چکنا چور ہوئے ​

 اب ان کے ستاروں کی لَو سے​

 اس شہر کی راتیں روشن ہیں​

 اور رُخشاں ہے ارضِ لبنان​

 بیروت نگارِ بزمِ جہاں ​

 جو چہرے لہو کے غازے کی​

 زینت سے سوا پُرنور ہوئی​

 اب ان کے رنگیں پرتو سے​

 اس شہر کی گلیاں روشن ہیں​

 اور تاباں ہے ارضِ لبنان ​

 بیروت نگارِ بزمِ جہاں ​

 ہر ویراں گھر، ہر ایک کھنڈر​

 ہم پایۂ قصرِ دارا ہے ​

 ہر غازی رشکِ اسکندر ​

 ہر دختر ہمسرِ لیلیٰ ہے ​

 یہ شہر ازل سے قائم ہے ​

 یہ شہر ابد تک دائم ہے ​

 بیروت نگارِ بزمِ جہاں ​

 بیروت بدیلِ باغِ جناں

احمد فراز اپنی نظم بیروت میں پوچھتے ہیں کہ:

 یہ سر بریدہ بدن ہے کس کا

 یہ جامہ خون کفن ہے کس کا

 یہ کس لہو سے زمین یا قوت بن گئی

 یہ کس کی آغوش کس کا تابوت بن گئی ۔

احمد ندیم قاسمی اپنی نظم اردن میں فلسطینی عوام کے قتل عام کو دیکھتے ہیں بے اختیار پکار اٹھتے ہیں کہ:

 یہاں تو حد نظر  تک ایک دشت ہے لہو کا

 لہو کہ جس میں ہمارے اپنے لہو کی خوشبو بسی ہوئی ہے

مندرجہ بالا اشعار اور شعرا کے نام تو لئیے جانے کی ایک  وجہ یہ ہے کہ اقبال سے قاسمی تک ہماری نسل ان ناموں اور  کسی حد تک ان کے افکار سے واقف ہے۔دوسری وجہ اختصار کی ضرورت ہے۔ ورنہ ہمارے بے شمار نامی گرامی شعرا نے اپنے خون دل سے ہمارے خون کو گرمانے رکھنے میں زبردست کردار ادا کیا ہے ۔ نمونہ از خروارے کے طور پر   سلطان  رشک ، ن م راشد ، ادا جعفری ، حبیب جالب ،ابن انشا، نذیر قیصر ، سید ضمیر جعفری ، شہزاد احمد ، خاطر غزنوی و دیگر شعراء عظام کے بے مثال   کام ہمارا سر فخر سے بلند کیے ہوئے ہیں ۔

صرف شاعری ہی نہیں ادب کی دیگر اصناف میں بھی ہمارے ادیبوں نے فلسطین کے لئے بہت کام کیا ہے۔ بہت سے افسانے لکھے گئے ہیں ۔  مثلاً انتظار حسین کا افسانہ شرم الحرم ، قدرت اللہ شہاب کا

 اے بنی اسرائیل، مظہر الاسلام کا

 زمین کا اغوا وغیرہ ۔

مستنصر حسین تارڑ کا سفر نامہ خانہ بدوش بھی خاصے کی چیز ہے ۔

پاکستان کا شائد ہی کوئی شاعر و ادیب ایسا  ہو جس نے فلسطین کے لئے اپنا قلم اپنے لہو میں  ڈبو کر نہ لکھا ہو ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ

 بڑے شاعروں اور ادیبوں کے ادبی کام چونکہ بڑے رسائل میں شائع ہوتے ہیں اور کتابیں بھی چھپتی ہیں اس لئے ان کا کلام اور تحریریں قدرے آسانی سے مل جاتی ہیں۔ لیکن ہمیں ان  شعرا و ادبا کو بھی سلام پیش کر نا چاہیے جن تک ہم نہیں پہنچ پائے مگر انہوں نے مقامی سطح پر اپنے  خون جگر اور فلسطینی خون شہیداں کے چراغ جلائے رکھے۔ اس طرح  فلسطین کےخون کو ہمارے لئے مشعل راہ بنائے رکھا ہے اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ہماری رگوں میں قومی  غیرت و ملی ہمیت خون بن کر دوڑتی رہے گی۔

Loading