Daily Roshni News

فہمیدہ کی شادی کو دو ماہ ہی ہوئے تھے ۔

فہمیدہ کی شادی کو دو ماہ ہی ہوئے تھے ۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )فہمیدہ کی شادی کو دو ماہ ہی ہوئے تھے کہ ریاض نے دبئی جانے کے لئے کوششیں شروع کر دیں۔ ریاض بچی سے بہت پیار کرتا تھا اور اس کو اک پل کو خود سے جدا کرنا نہ چاہتا تھا۔ ایک دن وہ گھر آیا تو بتایا کہ اس کو دبئی کا ویزامل گیا ہے۔ ریاض کے جاتے ہی اس کی ماں کی بن آئی۔ وہ پھوپی سے ساس بن گئی۔ بیٹے کے ہوتے اس نے اپنے پھن کو چھپائے رکھا تھا، اب اپنی فطرت پر آگئی۔

👇👇

 چاچا فضل کی کریانے کی دکان تھی۔ سارے محلے میں یہی ایک اچھی اور بڑی دکان تھی جہاں ہر شے ملتی تھی۔ چاچا بھی دین دار اور نیک انسان تھے تبھی ان کی دُکان خوب چلتی تھی اور وہ خوشحال تھے۔ بد قسمتی سے ایک روز دو شخص موٹر سائیکل پر آئے اور انہوں نے چاچا کے پڑوسی سے جھگڑا شروع کر دیا۔

 پہلے تو وہ دیکھتے رہے لیکن جب ان لوگوں نے پڑوسی خدا بخش پر وار شروع کر دیئے تو ان سے نہ رہا گیا اور اپنے دوست کو بچانے کی خاطر دکان سے باہر آئے لیکن جب وہ باز نہ آئے اور خدا بخش کو پیٹتے ہی رہے تو ابصار چاچا نے پاس پڑی اینٹ اٹھائی اور وار کرنے والے شخص کے سر میں دے ماری جس سے وہ موقع پر گر کر مر گیا۔ یہ معاملہ دیکھ دوسرا آدمی چاقو سمیت موٹر سائیکل پر بیٹھ کر بھاگ گیا۔ لوگ اکٹھے ہو گئے۔ پولیس آگئی اور فضل چاچا کو گرفتار کر کے لے گئے۔ دو چار بدخواہوں نے تھانے جا کر ان کے خلاف گواہی بھی دی اور ان کو جیل ہو گئی۔ ان کے جیل جانے کے بعد دُکان بند ہو گئی کہ اُسے چلانے والا کوئی نہ تھا۔ ایک بیٹی تھی جو جوان تھی۔

 ماں کو ڈر تھا کہ وہ فہمیدہ کی حفاظت نہ کر سکے گی لہذا چاچی نے فہمیدہ کے بیاہنے کو جتن شروع کر دیئے۔ ریاض، چاچی کی نند کا بیٹا تھا۔ وہ ویلڈنگ کا کام جانتا تھا۔ فہمیدہ کی ماں نند کے ترلے کرنے لگی کہ تمہارے بھائی کو جانے جیل سے رہائی ملے کہ نہ ملے۔ تمہاری بھتیجی جواں سال ہے ، خُدارا اسے اپنے بیٹے سے بیاہنے کا جلد سامان کر لو تا کہ سکون کی نیند سو سکوں۔ جب کوئی انسان کسی کو مجبور دیکھتا ہے تو اس کی گردن نخوت سے اکڑ جاتی ہے۔ نند بھی ایسے نخرے دکھانے لگی۔ وہ ایک چغل خور ، بد زبان اور بہتان تراش عورت تھی۔

 یہ سب جان کر بھی فہمیدہ کی ماں اس کو بیٹی کارشتہ دینا چاہتی تھی کیونکہ لڑکا اچھا تھا۔ ریاض میں سوگن تھے۔ وہ بڑوں کا ادب کرتا اور چاچی سے احترام کے ساتھ پیش آتا تھا۔ نکما بھی نہ تھا تبھی فہمیدہ کی ماں اس سے پیار کرتی تھی۔ بس ایک قباحت تھی کہ ریاض اور اس کے والدین گائوں میں رہتے تھے اور پڑھے لکھے بھی نہ تھے۔ ایک روز ریاض چاچی سے ملنے آیا تو وہ بولیں۔ بیٹا میں تم کو فہمیدہ کا رشتہ دینا چاہتی ہوں لیکن تیری ماں کے مزاج سے ڈرتی ہوں۔ چاچی تم فکر نہ کر ماں رشتہ مانگنے آئیں تو فورآ ہاں کر دینا۔ میں تمہاری بیٹی کو خوش رکھوں گا اور دبئی جا کر اتنا کما کر لائوں گا کہ تمہاری بیٹی عیش کرے گی۔

 ماں بھی فہمیدہ کارشتہ لینا چاہتی ہے ، بس ذرا احسان جتلا کر- تا کہ تم بعد میں بھی ان سے دبی رہو، مگر تم فکر نہ کرو، میری جانب سے آپ کو کوئی شکایت نہ ہو گی۔ ریاض کی ڈھارس سے چاچی کو تسلی ہو گئی لہذا جب نند رشتہ لینے آئی، بغیر کسی شرط کے انہوں نے ہاں کہہ دی۔ فہمیدہ کی شادی کو دو ماہ ہی ہوئے تھے کہ ریاض نے دبئی جانے کے لئے کوششیں شروع کر دیں۔ وہ دن کو شہر آ کر محنت کرتا اور رات کو ورکشاپ سے تھکا ہارا گھر لوٹتا تو فہمیدہ سے کہتا۔ دیکھ لینا میں چند دنوں میں ہی تجھ کو سونے سے پیلا کر دوں گا، اک ذرا میرا ویزا لگنے کی دیر ہے۔ ریاض کی بات سُن کر فہمیدہ اداس ہو جاتی۔ وہ شوہر سے جُدا رہنا نہ چاہتی تھی، اُسے دولت کا لالچ نہ تھا، جب ریاض گھر آتا خاطر خدمت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھتی ، اس کی دن بھر کی تھکاوٹ دور کر دیتی۔ شادی کے بعد اللہ نے ایک بیٹی دے دی۔ دونوں بہت خوش تھے۔

ریاض بچی سے بہت پیار کرتا تھا اور اس کو اک پل کو خود سے جدا کرنا نہ چاہتا تھا۔ ایک دن وہ گھر آیا تو بتایا کہ اس کو دبئی کا ویزامل گیا ہے۔ ریاض کے جاتے ہی اس کی ماں کی بن آئی۔ وہ پھوپی سے ساس بن گئی۔ بیٹے کے ہوتے اس نے اپنے پھن کو چھپائے رکھا تھا، اب اپنی فطرت پر آگئی۔ فہمیدہ ماں باپ کی بہت لاڈلی تھی۔ اس نے گھر کا کام کبھی نہ کیا تھا، اسے پڑھنے کا شوق تھا، آٹھویں میں تھی کہ باپ جیل چلا گیا اور اسکول جانا ترک ہو گیا۔ سال بعد شادی ہو گئی۔ اس نے کبھی لکڑیوں کا چولہا پھونکا تھا اور نہ روٹیاں لگائی تھیں تنور پر ، وہ شہر کی پروردہ تھی اور بیاہ گائوں میں ہو گیا تھا۔ ساس کہتی کہ یہ لے پرات اور تنور پر روٹیاں لگا لے۔ کیا تو نواب زادی ہے ، سارے گائوں کی عورتیں لگاتی ہیں تو کیوں نہیں لگا سکتی۔ فہمیدہ کے ہاتھ اور باز و جل جاتے ، بازوئوں پر جگہ جگہ کالے داغ پڑ گئے اور گیلی لکڑیوں سے چولہا پھونکنا پڑتا تو دھواں لگنے سے آنکھیں سُرخ ہو جاتیں، جلن کرتیں ، تب وہ روتی کہ شہر میں تو لکڑیاں جلانے کا رواج نہ تھا۔ اب وہ تمام دن چلچلاتی دھوپ میں کام کرتی اور بچی گھر میں پڑی بلکتی تو دادی اس کو گڑ کی لٹی چٹا دیتی۔ بچی اسہال لگنے سے نڈھال ہو جاتی۔ وہ سوکھ کر کانٹا ہو گئی تب آخر کار حکیم صاحب کے سختی سے تنبیہ کرنے کے بعد ہی اس کو گڑ کی لٹی چٹانا بند کی گئی۔ گائوں کی عورتیں ندی سے پانی بھرنے جاتی تھیں، پھوپی نے سر پر گھڑا رکھ دیا کہ فہمیدہ تم بھی ندی سے پانی بھر کر لایا کرو، میں اب بوڑھی ہو رہی ہوں، بھاری کام نہیں کر سکتی۔ (آگے پڑھنے کے لیے لنک اوپن کریں شکریہ)

Loading