Daily Roshni News

قبرستان کی ملکہ 

قبرستان کی ملکہ

پارٹ……. 1

ہوا میں نمی بھری ہوئی تھی۔
جیسے بارش ہونے والی ہو،
مگر بارش نہیں ہو رہی تھی۔
سورج پہاڑوں کے پیچھے کہیں چھپ گیا تھا
اور آسمان پر سرمئی بادلوں کی چادر تنی ہوئی تھی۔
اس پہاڑ کے دامن میں ایک چھوٹا سا گاؤں آباد تھا۔
بہت پرانا گاؤں۔ شاید صدیوں پرانا۔
اس گاؤں تک پہنچنے کا کوئی آسان راستہ نہیں تھا۔
نہ کوئی پکّی سڑک، نہ قافلوں کی گزرگاہ۔
یہاں تک آنے والے راستے میں گھنے جنگل تھے،
ٹوٹی پھوٹی پگڈنڈیاں،
اور ہر طرف سنّاٹا۔ ایسا لگتا تھا
جیسے دنیا نے اس گاؤں کو بھلا دیا ہو۔

گاؤں کی جھونپڑیاں مٹی اور گارے سے بنی ہوئی تھیں۔
چھتوں پر سوکھی گھاس ڈالی گئی تھی

تاکہ بارش کا پانی اندر نہ آئے۔
گلیاں تنگ اور کچی تھیں، زمین پر کیچڑ جما ہوا تھا۔
ہر طرف غربت، تھکن اور بیزاری کا عالم تھا۔
لوگ ایک دوسرے پر شک کی نگاہ ڈالتے تھے۔
ہر چہرے پر تلخی تھی۔
کوئی کسی پر بھروسہ نہیں کرتا تھا۔
یہ گاؤں خوشیوں سے خالی تھا۔

انھی جھونپڑیوں میں سے ایک سب
سے پرانی اور خستہ جھونپڑی میں رہتی تھی زہرہ۔
ایک کمزور سی بچی۔
بال بکھرے ہوئے، چہرہ دھول سے اٹا ہوا،
آنکھوں میں انجانی اداسی۔

زہرہ کے والد ایک معمولی مزدور تھے۔
دن بھر پہاڑوں میں لکڑیاں کاٹتے اور تھوڑی
سی اجرت پر بیچتے۔
مگر پھر ایک دن…
ایک طوفانی رات میں،
جب آسمان پر بجلی چمک رہی تھی
اور ہوائیں دیوانہ وار چل رہی تھیں،
زہرہ کے والد کام سے لوٹتے ہوئے گہری کھائی
میں گر کر مر گئے۔
اس کے بعد…
زہرہ اور اس کی ماں کی زندگی اور بھی اندھیر ہو گئی۔

گاؤں کے لوگ ویسے ہی ان سے نفرت کرتے تھے —
اور اب تو انھیں یوں دیکھ کر اور بھی باتیں بناتے تھے۔
“یہی بدبختی لاتی ہیں!”
“ان کا سایہ بھی اچھا نہیں۔”
“انھیں یہاں سے نکال دینا چاہیے۔”

زہرہ چھوٹی تھی۔
لیکن یہ تلخ باتیں، یہ سرد نظروں کی
چبھتی ہوئی کرنیں… وہ سب کچھ محسوس کرتی تھی۔
اور آہستہ آہستہ اس کے دل میں ایک آگ جلنے لگی۔

کبھی کبھار وہ رات کو چپکے سے اپنی
جھونپڑی کے پیچھے بیٹھ کر آسمان کو دیکھتی۔
سیاہ آسمان۔
بےرحم بادل۔
خاموش ستارے۔

اور دل ہی دل میں سوچتی:
“کاش میں طاقتور ہوتی..
. کاش کوئی مجھے بھی دیکھتا…
کاش میں سب کو دکھا سکتی کہ میں کتنی قیمتی ہوں…”

لیکن دنیا کے پاس اس جیسی بچیوں
کے لئے کچھ نہیں ہوتا۔
صرف تنہائی، غربت اور تضحیک۔

****

رات کا وقت تھا۔
چاند آسمان پر نہیں تھا۔
پورے گاؤں پر جیسے سیاہی چھا گئی تھی۔

زہرہ اپنی جھونپڑی کے کونے میں بیٹھی تھی،
ماں کے پاس، جو کئی دنوں سے بستر پر پڑی تھی۔
ماں کی سانسیں پھول رہی تھیں۔
چہرہ زرد، آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی۔
کبھی کبھی کھانسی کی ایسی ہولناک آواز آتی
جیسے ان کے اندر کی ساری سانسیں باہر نکل جائیں گی۔

زہرہ کا ننھا ہاتھ ماں کے کانپتے ہوئے ہاتھ پر تھا۔
اس کی آنکھوں میں آنسو تھے،
مگر وہ رو نہیں رہی تھی۔
بس خاموشی سے دیکھ رہی تھی۔
کیونکہ وہ رو رو کر تھک چکی تھی۔

جھونپڑی میں کچھ بھی نہ تھا —
نہ دوا، نہ کھانا، نہ امید۔

باہر گاؤں کی گلیوں میں کتوں کے بھونکنے
کی آوازیں آرہی تھیں۔
دور کسی عورت کے رونے کی ہلکی ہلکی صدا۔
اور… تیز ہوا کا شور جو جھونپڑی کے
کمزور دروازے کو زور زور سے ہلا رہا تھا۔

اسی دوران، جھونپڑی کا دروازہ ایک زوردار
دھماکے سے کھلا۔
زہرہ ڈر کر پیچھے ہو گئی۔

باہر گاؤں والے کھڑے تھے۔
بڑے میلے کپڑے، ماتھے پر گندگی کی لکیر
جیسے کبھی نہ دھلی ہو۔
ان کی آنکھوں میں نفرت تھی۔

“اوئی بدبخت!” ایک عورت چیخی۔
“تمھاری نحوست پورے گاؤں کو کھا رہی ہے!”
“مر کیوں نہیں جاتی تمھاری ماں بھی، اور تم بھی!
” دوسرا شخص بولا۔

زہرہ نے ڈر کر ماں کو دیکھا،
جو بے ہوش پڑی تھی۔
اس کا ننھا وجود کانپنے لگا،
لیکن اس کی آنکھوں میں اب خوف کے بجائے غصہ تھا۔

گاؤں والے لعنتیں بھیجتے چلے گئے۔
دروازہ کھلا چھوڑ کر۔

زہرہ اٹھی، دروازہ بند کیا،
اور ساری رات ماں کے ساتھ بیٹھی رہی۔
بغیر سوئے، بغیر ہلے۔

صبح ہوتے ہی گاؤں کے کچھ اور بوڑھے اکٹھے ہو گئے۔
چوراہے پر۔
ایک بزرگ نے اپنے کپکپاتے ہاتھوں سے ہوا
میں اشارہ کرتے ہوئے کہا:
“اس گاؤں کے پیچھے جو پہاڑ ہے،
اس کے پیچھے جو قبرستان ہے…
وہاں رہتا ہے اندھیروں کا راجہ۔”

لوگوں نے خوف زدہ ہو کر ایک دوسرے کو دیکھا۔

“پرانے زمانے سے ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ وہاں نہ جانا!”
“جو گیا، واپس نہیں آیا!”
“وہ جگہ… اب شیطانوں کی زمین بن چکی ہے۔”

بچپن سے زہرہ یہ کہانیاں سنتی آئی تھی۔
لیکن آج…
جب وہ یہ سب سن رہی تھی،
تو اس کے دل میں ایک عجیب سی کشش پیدا ہو رہی تھی۔

قبرستان۔
پہاڑ کے پیچھے چھپا، بھولا بسرا قبرستان۔

کیا واقعی وہاں کچھ تھا؟
کیا وہاں اندھیروں میں کوئی راز چھپا تھا؟
کیا وہاں زہرہ کی بکھری ہوئی دنیا کا کوئی جواب تھا؟

دن گزرتے گئے۔
زہرہ کی ماں مزید بیمار ہو گئی۔
کھانسی شدید ہو گئی۔
آنکھیں خالی ہو گئیں۔

ایک دن، جب سورج بھی شرمندہ ہو
کر بادلوں کے پیچھے چھپ گیا تھا،
زہرہ کی ماں نے آخری سانس لی…
اور ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی۔

زہرہ ماں کے بےجان ہاتھوں کو تھام کر بیٹھ گئی۔
نہ چیخی، نہ روئی۔
بس خاموشی سے، پتھر کی طرح، بیٹھی رہی۔

شام کے وقت گاؤں والے آئے۔
مگر کوئی افسوس کرنے نہیں آیا۔
صرف ایک بوڑھی عورت نے، سرد لہجے میں کہا:
“اسے دفن کر دو۔ اس سے پہلے کہ اس کی
نحوست مزید پھیلے۔”

ماں کو دفنایا گیا۔
بےحسی کے ساتھ۔
بغیر کسی دعا، بغیر کسی آنکھ کے نم ہونے کے۔

زہرہ اکیلی رہ گئی۔
مکمل اکیلی۔

رات کو، جب پوری دنیا سو رہی تھی،
زہرہ چپکے سے اپنی جھونپڑی سے نکلی۔
اندھیرے میں چھپتے چھپاتے،
خود کو چھوٹے قدموں سے پہاڑ کی طرف لے گئی۔

اسے کوئی ڈر نہیں تھا۔
اب اس کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہ بچا تھا۔

پہاڑ کے پیچھے…
سیاہ سایوں میں لپٹا قبرستان اس کا انتظار کر رہا تھا۔

جاری ہے

میرے پیارے دوستوں
آج کی اس کہانی کا پہلا ایپیسوڈ آپلوگوں کو کیسا لگا کومنٹس میں اپنی راے کا اظہار لازمی کیجیے گا
کہانی پسند آئ ہو تو پلز میرے پیج کو لائک اور فولو کر لیجیے گا
تاکہ میں جب بھی کوئی نئی پوسٹ ڈالوں تو آپلوگوں کی نوٹیفکیشن میں آجاے. شکریه

Loading