Daily Roshni News

قرآنی انسائیکلو پیڈیا

قرآنی انسائیکلو پیڈیا
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔قرآنی انسائیکلوپیڈیا )قرآن پاک رشد و ہدایت کا ایسا سر چشمہ ہے جو ابد تک ہر دور اور ہر زمانے میں انسان کی رہنمائی کرتا رہے گا۔ یہ ایک مکمل دستور حیات اور ضابطہ زندگی ہے۔ قرآنی تعلیمات انسان کی انفرادی زندگی کو بھٹی صراط مستقیم دکھاتی ہیں اور معاشرے کو اجتماعی زندگی کے لیے رہنما اصول سے بھی واقف کراتی ہیں۔
 حجز:جیسا کہ گزشتہ صفحات میں بتایا جا چکا ہے کہ عربی زبان میں جن الفاظ میں حا اور جیم اکھٹا آئیں گے ان کے معنوں اور مفہوم میں میں رو کنا اور منع کرنا بھی شامل ہو گا۔ قرآن میں موجود لفظ حجة، حجاب، حجر کی طرح لفظ حجز کے معنی بھی رکاوٹ، روک اور آڑ کے ہیں۔ حجز کے عمومی معنی دو چیزوں کے درمیان حائل رکاوٹ اور آڑ کے ہیں، اسی مناسبت سے دیوار، پردہ ، باڑھ Barrier یا پاری رٹیشن Partition وغیرہ کو حاجز کہا جاتا ہے ۔ کسی چیز کو روک prevent لینا، محفوظ کرنا withhold، ضبط Seize کرنا، ریز رو reserve کرنا، حجز الشئ کہلاتا ہے۔ عربی میں فلائٹ کی ریزرویشن کو حُجزَةٌ الطیران کہا جاتا ہے۔ کسی شخص کو باز رکھنا، قید Arrest یا نظر بند Detention کرنا اور یر غمال بنانا بھی
حجز کے معنوں میں آتا ہے۔
امام راغب اصفہانی اپنی تصنیف مفردات القرآن میں فرماتے ہیں کہ “الحجزُ کے معنی دو چیزوں کے درمیان روک اور حد فاصل بنانے کے ہیں۔ منع کے پیش نظر احْتَجَزَ فُلَانٌ عَنْ كَذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے، جس کے معنی کسی چیز کے رک جانے کے ہیں۔ عرب کے مشہور خطہ حجاز کو بھی حجاز اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ شام اور بادیہ (مجد اور تہامہ) کے درمیان حائل ہے، حجاز کے ایک معنی کمر پر باندھنے والی بیٹی اور ازار کے بھی ہیں۔ حجاز اس رسی کو بھی کہتے ہیں جو اونٹ کی کلائی میں ڈال کر اسے اس کی کمر کے ساتھ باندھ دیتے ہیں، تا کہ وہ ہل نہ سکے احتجز بالحِصن کے معنی میں قلعہ بند ہونایا محصور impound ہونا۔ احتجز بالازار کہتے ہیں کمر پر ازار اور تہبند باندھنا۔ اسی سے حُجزَةُ السَّرَاوِیلِ ہے جس کے معنی ازار بند کے نیفہ کے ہیں ۔ حَاجَزَہ کے معنی ہیں لڑائی جھگڑے سے باز رہنا ہے۔ عربی زبان میں مشہور کہاوت ہے ۔ اِن اَردُتُم المُحَاجَزَة فَقَبْلَ الْمَنَاجَزَةِ یعنی ایک دوسرے کو روکنے اور صلح کرنے کا موقع لڑائی سے قبل ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں یہ لفظ 2 مرتبہ آیا ہے۔ ترجمہ : ” بھلاوہ کون ہے جس نے زمین کو (تمہارے لیے ) رہنے کی جگہ بنایا اور پھر اس کے درمیان نہر میں جاری کیں اور اس کے لیے پہاڑ بنائے اور دو سمندروں کے درمیان ایک آڑ (حاجزًا) بنادی۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی معبود ہو سکتا ہے ہر گز نہیں، حقیقت یہ ہے کہ ان کی اکثریت بے علم ہے۔ “ [سورۃ نمل(27): 61] ترجمہ: پس تم میں سے کوئی بھی ( ہمیں ) اس (عمل) سے روکنے والا (الحجزين ) نہ ہوتا۔ “ [ سوره حاقه (69): آیت 47]

قرآنِ حکیم کی مقدس آیات و احادیث نبوی آپ کی روحانی اور علمی معلومات ” میں اضافے اور تبلیغ کے لئے شائع کی جاتی ہیں، ان کا احترام آپ پر فرض ہے ۔

حدب:عربی زبان میں حدب کے عمومی معنی ابھار کے ہیں، اور زمین کی ابھری جگہ elevation، حدب سطح مرتفع، چڑھائی Acclivity اور ٹیلہ mound اور پہاڑ Hill وغیرہ کو بھی حَدَب کہا جاتا ہے۔ بلند اور سخت زمین کو حرب کہتے ہیں۔ اس لفظ کا استعمال ہری بھری چڑھائی اور او پنچھی بڑھی ہوئی چیزوں کے لیے ہوتا ہے جیسے پانی کی بڑھی موج کو حرب الماء اور سردی کی بڑھتی شدت کو حدب من الشتاء کہا جاتا ہے۔ یہ لفظ حَدَب جسم خصوصاً کمر کے غیر معمولی ابھار curve، کوہان یا کب humpback یا کبڑے پن gibbous کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔ حدب سے لفظ محدب عدسہ (Convex lens) اخذ ہے، محدب عدسہ اسے کہتے ہیں جو کہ درمیان میں ابھرا ہوا اور کناروں سے پتلا ہو۔ کسی سخت کام، مشکل ترین معاملہ کو أمر أخدَب کہتے ہیں۔ بے چینی اور بے قراری کی کیفیت اور سخت، مصیبت کے دور کو حدباء کہتے ہیں۔ حَدِبَ ظَهْرُہ کے معنی میں کمر کا جھکا ہوا ہونا، تشبیہاشفقت، محبت اور عقید ت کے لیے جھک جانے کو بھی حدب کہتے ہیں۔

قرآن پاک میں یہ لفظ ایک مرتبہ آیا ہے۔ ترجمہ : اور جس بستی کو ہم نے تباہ کر دیا ہے اس کے لئے بھی نا ممکن ہے کہ قیامت کے دن ہمارے پاس پلٹ کر نہ آئے یہاں تک کہ وہ وقت آجائے جب یا جوج ماجوج کھول دیے جائیں اور وہ ہر بلندی (حدب) سے نیچے اترنے لگیں گے۔“ [سورۃ انبیاء (21): 95-96]

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مارچ 2024 ء

Loading