ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )قرآن مجید میں لفظ” زوج” اپنے معنی و مفہوم کے اعتبار سے کم و پیش 29 مرتبہ دہرایا گیا ہے جس کے معنی “جوڑا ” کے ہیں اور جوڑے سے مراد نر، مادہ یا مرد عورت کا اکٹھا ہونا یعنی دونوں رخ مل کر جوڑا یا زوج کہلاتے ہیں،
سورہ نساء میں اللہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں
“ٰۤیاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَ بَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِیْرًا وَّ نِسَآءًۚ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَ الْاَرْحَامَؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَیْكُمْ رَقِیْبًا(1)
اے لوگو اپنے رب سے تقویٰ اختیار کرو جس نے تمہیں” نفس واحدہ” سے پیدا کیا اور اسی سے زوج بنایا اور اس سے کثیر مرد و عورت پھیلادئیے اور اللہ کا تقوی اپنائیں جس کے نام پر سوال کرتے ہو، اور رشتوں کا لحاظ رکھو، بے شک اللہ تمہارا نگہبان ہے
اسی طرح سورہ یاسین میں ہے
“سُبْحٰنَ الَّذِیْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنْۢبِتُ الْاَرْضُ وَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَ مِمَّا لَا یَعْلَمُوْنَ(36)
پاک ہے وہ جس نے سب کے جوڑے بنائے ،زمین کی اگائی ہوئی چیزیں ہوں، تمہارے نفسوں کے اندر ہوں اور وہ چیزیں سے جنہیں تم جانتے بھی نہیں۔
سورہ ذاریات میں فرمایا
وَ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ(49)
اور ہم نے کل اشیاء کے جوڑے بنائیں تا کہ تم نصیحت حاصل کرو۔
قرآن کریم کی مندرجہ بالا چند آیات اور بیان کردہ 29 آیت میں تفکر کرنے سے انکشاف ہوتا ہے کہ کائنات کے اندر ایک ہی ذات یا نفس واحدہ ہے جس سے ہر چیز دو رخ پر تخلیق ہوئی ہے اگر کسی بھی چیز کا کوئی ایک رخ بھی ختم ہو جائے تو دوسرا رخ خود بخود ختم ہو جائے گا , مثلا، دن رات، گرمی سردی، اندھیرا روشنی، نزول و صعود، مرد عورت، غصہ پیار، نفرت محبت، آگ پانی، زمین واسمان، زندگی موت، جنت دوزخ وغیرہ، آپ جتنا ذیادہ انہماک و ارتکاز سے کائنات کی تخلیقات پر غوروفکر کریں گیں آپ کو ایک ہی ہستی کی صفات کا عرفان حاصل ہوگا، کائنات کی تمام تخلیقات کو متحرک کرنے کے لئے ان کے اندر کشش اور گریز کی قوتوں کا عمل دخل ہے، کائنات کے اندر قوت ایک ہی ہے لیکن دو رخوں پر کام کر رہی ہے، یہ ایک قوت دو رخوں کشش اور گریز پر کیسے تخلیق کر رہی ہے اس کو روزمرہ زندگی میں مرد اور عورت کے تخلیقی نظام سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، مرد اور عورت ایک دوسرے کے کیلئے کشش رکھتے ہیں، جنسی عمل کا جذبہ جب ایک دوسرے کو اپنی طرف کھینچ کر میلاپ کراتا تو یہ کشش ہے، میلاپ کے نتیجے میں دونوں کے عمل سے تولیدی پانی کا اخراج ہوتا ہے، پانی کے اخراج کے بعد مرد اور عورت دونوں کا الگ ہونا گریز ہے، دونوں کے تولیدی پانی کا آپس میں ملنا کشش ہے، پانیوں کا دونوں کے جسموں سے الک ہونا جسموں سے گریز ہے، تولیدی پانی کے اندر انڈے اور سپرم کا آپس میں ملنا کشش ہے، انڈے اور سپرم کا پانیوں سے الگ ہونا پانیوں سے گریز ہے، انڈے اور سپرم کا آپس میں ملکر نطفہ بننا کشش ہے، سپرم اور انڈے کی شناخت الگ ہونا گریز ہے نطفے کا ایک دن کے بعد دسرے دن میں داخل ہو کر نئے خدوخال میں ڈھلنا کشش ہے اور دوسرے دن میں داخل ہو جانا نقش ونگار کا تبدیل ہونا کشش ہے، نطفے کا دوسرے دن کے بعد تیسرا دن میں جانا کشش ہے لیکن نطفے کا گزرا ہوا دوسرا اور پہلا دن گریز ہوگا، نئے دن کا آنا کشش اور پرانے دن کا گزرنا گریز کہلائے گا، نو ماہ کے بعد ماں کے پیٹ سے بچے کا باہر انا ماں سے گریز اور باہر آکر نئے ماحول میں داخل ہونا کشش ہے، گویا کسی بھی زوج، جوڑے یا دو رخوں کے درمیان کشش اور گریز کی قوتوں کا عمل دخل سامنے آجاتا ہے اور اس بات کا مشاہدہ بھی ہوجاتا ہے کائنات کے اندر ایک ہی قوت اور نفس واحدہ کام کررہا ہے، جو دونوں رخوں کوملاکر الگ کرتاہے، قران مجید میں سورہ یوسف میں زلیخا اور عورتوں کے اندر حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن کو دیکھا کر بےاختیار ہونے پر اسی کشش کے قانون کو بیان کیا گیا،، زلیخا اور عورتوں کا عمل کشش کے قانون کے تحت یک طرفہ تھا اس لئے زوج کا عمل نامکمل تھا، اگر کشش کا عمل حضرت یوسف علیہ السلام کے اندر بھی ہوتا تو زوج کے تحت قانون کی تکمیل ہوجاتی، روحانی علوم میں جنسی کشش کا قانون یہ انکشاف کرتا ہے کہ مرد کے باطنی رخ پر عورت چھپی ہوئی ہے اور عورت کے باطنی رخ میں مرد چھپا ہوا ہے، عورت کا ظاہری رخ مرد کے اندر چھپے باطنی رخ سے ملکر اپنے دونوں رخوں کو ملا کر مکمل ہونا چاہتا ہے اور اسی طرح مرد کا ظاہری رخ عورت کے اندر چھپے باطنی رخ سے ملکر اپنی تکمیل چاہتا ہے اور دونوں ظاہری رخوں ایک دوسرے کے باطنی رخوں سے ملکر اللہ تعالٰی کے تخلیقی نظام کو آگے بڑھانے کا سبب بن جاتے ہیں، زوج کا عمل کائنات کی ہر مخلوق کے اندر موجود ہے، چرند، پرند، جمادات، نباتات، حیوانات اور ایک ذرے سے لیکر کہکشانی نظاموں میں یہی قانون عمل پیرا ہے، سورہ یوسف میں زلیخا اور یوسف علیہ کے واقعہ میں اسی قانون کو بیان کیا گیا ہے، روحانی علوم مرد اور عورت کے درمیان جنسی کشش اور گریز کے قانون میں اللہ تعالٰی کی صفات کا انکشاف کرتے ہیں، جس سے کوئی بھی سالک اللہ تعالٰی کی ذات کا عرفان حاصل کر کے اللہ کے ساتھ مل کر اپنی تکمیل کرتا ہے، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے کہ ” عورت اور خوشبو مجھے محبوب ہے اور نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ” اس حدیث مبارکہ میں روحانی فارمولوں کا انکشاف ہوتا ہے، عورت کے اندر تخلیقی فارمولوں کی معرفت ہوتی ہے، خوشبو روحانی حواس کو طاقت اور رفتار میں وسعت دیتی ہے جبکہ نماز اللہ تعالٰی سے قربت اور رابطے کا ذریعہ ہے اس حدیث مبارکہ سے کشش اور گریز کا قانون مزید واضح ہوجاتا ہے ، انبیاء کرام اور اولیاء اللہ کی کثرت ازواج کے اندر یہی حکمت ہے کہ وہ زوج کے دونوں رخوں سے معرفت حاصل کرتے تھے، عورت کے اندر اللہ تعالٰی کی صفت تخلیقِ اور مرد کے اندر صفت ربوبیت کے علوم پوشیدہ ہیں خلق اور ربوبیت ملکر اللہ تعالٰی کی پہچان کراتے ہیں،
انشاءاللہ اگلی پوسٹ میں سورہ یوسف کے حوالے سے عنوان نمبر 17 خزانچی اور امین کی روحانی حقیقت کیا ہے پر اظہار خیال کیا جائے گا