Daily Roshni News

قربانی کے گوشت کی تقسیم۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم

قربانی کے گوشت کی تقسیم

تحریر۔۔۔حمیراعلیم

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ قربانی کے گوشت کی تقسیم۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم )چند سال پہلے تک عقیقہ ہو یا قربانی گوشت کے تین حصے کیے جاتے تھے ایک اپنا دوسرا رشتے داروں کا اور تیسرا مساکین کا۔پھر جیسے جیسے مہنگائی بڑھتی گئی۔دوسرے دو حصے سکڑتے گئے اور پہلا حصہ بڑھتا گیا۔اس سال تو حالات کچھ زیادہ ہی خراب لگ رہے ہیں کیونکہ ہر طرف یہی پکار ہے کہ قربانی کرنے والے خود ہی سارا گوشت رکھ لیتے ہیں۔وجوہات کیا ہیں یہ تو ایسا کرنے والے ہی بتا سکتے ہیں۔ آئیے یہ دیکھتے ہیں کہ قربانی کا گوشت سارے کا سارا خود رکھنا جائز ہے یا نہیں؟

    شرعی نصوص ( قرآن و حدیث) کی روشنی میں حج یا عید کی قربانی میں سے صدقہ کرنا واجب ہے۔چاہے تھوڑی سی مقدار میں ہی کیوں نہ ہوفرمانِ باری تعالی ہے:

فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ كَذَلِكَ سَخَّرْنَاهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ

تم قربانی کے گوشت میں سے خود کھاؤ، سفید پوش  اور مانگنے والوں کو بھی کھلاؤ۔ہم نے اس جانور کو تمہارے لیے  مسخر کیا ہے۔تا کہ تم شکر گزار بنو۔الحج : 36

آیت میں مذکور:  ” اَلْقَانِعَ ” سے مراد ایسا تنگ دست آدمی ہے جو قناعت اور شرم کی وجہ سے لوگوں کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا۔

اور ” اَلْمُعْتَرَّ ” سے مراد وہ شخص ہے جو لوگوں سے مانگتا پھرتا ہے۔

 چنانچہ ان فقراء کا  حج کی قربانی میں حق ہے یہ آیت اگرچہ حج کی قربانی کے لیےہے لیکن عید کی قربانی کا بھی یہی  حکم ہے۔

” الموسوعة الفقهية “6/115

      نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عید کی قربانی سے متعلق فرمان ہے کہ: “اس میں سے کھاؤ، ذخیرہ کرو، اور صدقہ دو۔” مسلم 1971

شافعی اور حنبلی فقہائے کرام کے ہاں قربانی کے گوشت میں سے کچھ نہ کچھ صدقہ کرنا واجب ہے اور یہی موقف  شرعی نصوص کی روشنی میں صحیح  معلوم ہوتا ہے۔

نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

“کم از کم اتنی مقدار میں صدقہ کرنا واجب ہے جس پر “صدقہ” کا لفظ صادق آ سکے؛ کیونکہ  قربانی کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ مساکین کےساتھ رفق و نرمی کا اظہار ہوچنانچہ اس بنا پر اگر کوئی شخص مکمل قربانی کا جانور خود ہی کھا جاتا ہے تو اسے کم از کم اتنی مقدار میں صدقہ کرنا لازمی ہوگا جس پر صدقہ کا لفظ صادق آ سکے”

” روضة الطالبين وعمدة المفتين ” 3/223

مرداوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

“اگر قربانی کا مکمل جانور خود ہی کھا لے تو کم از کم اتنا صدقہ ضرور کرے جس سے  اس کا صدقہ ادا ہو جائے۔

” الإنصاف ” 6/491

 بہوتی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

” اگر قربانی کے تازہ گوشت میں سے کچھ بھی صدقہ نہ کرے تو کم از کم اتنا صدقہ ضرور کرے جس پر صدقہ کا لفظ بولا جا سکے، مثلاً: ایک اوقیہ [تقریباً 200 گرام] صدقہ کرے”

” كشاف القناع ” 7/444

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو قربانی کا مکمل گوشت  پکا کر رشتہ داروں کو کھلا دیتا ہے اس میں سے کچھ بھی صدقہ نہیں کرتا تو کیا اس کا یہ عمل درست ہے؟

تو انہوں نے جواب دیا:

“ان کا یہ عمل غلط ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا  فرمان ہے:

لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ

ترجمہ: تاکہ فوائد حاصل کریں جو ان کے لیے رکھے گئے ہیں اور چند مقرر ایّام میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دیے ہیں۔ اس میں سے خود بھی کھائیں اور تنگ دست لوگوں کو بھی کھلائیں ۔”الحج 28

      ” مجموع فتاوى ابن عثیمین” 25/132

     قربانی کے گوشت میں سے کھانا واجب ہے یا نہیں؟ اہل علم کے ہاں  دو موقف ہیں، جمہور علمائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ اس میں سے کھانا واجب نہیں ہے، بلکہ مستحب ہے، اور یہی موقف ائمہ اربعہ کا ہے۔

جب کہ کچھ اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ قربانی کے گوشت میں سے کھانا واجب ہے چاہے تھوڑا سا ہی کھایا جائے؛ کیونکہ شرعی نصوص میں قربانی کے گوشت کو کھانے کا حکم دیا گیا ہے۔ ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

“اگر  قربانی کا سارا گوشت ہی صدقہ کر دے ، یا نصف سے زیادہ صدقہ کر دے تو جائز ہے۔”

” المغنی ” 13/380

مذکورہ بالا حکم  کہ قربانی  کے جانور میں سے کچھ نہ کچھ صدقہ کرنا واجب ہے، یا قربانی کا گوشت کھانا واجب ہے یا مستحب ہے، یہ حکم ہر جانور کے لیے الگ الگ ہے ۔مثلااگر کسی نے دس بکریں ذبح کی ہیں تو اسے ہر بکری میں سے کچھ نہ کچھ صدقہ کرنا لازم ہوگا، اور کچھ نہ کچھ حصہ تناول کرنا مستحب ہوگا۔لہذا ان تمام بکریوں میں سے ایک مکمل بکری بقیہ 9 بکریوں کی طرف سے صدقہ کرنا درست نہیں ہوگا کیونکہ  ہر بکری الگ سے مستقل قربانی ہے۔یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی حج کی قربانیاں نحر کی تو سب  کی ایک ایک بوٹی  ہنڈیاں میں جمع کر کے پکانے کا حکم دیا۔

     جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ:

“آپ صلی اللہ علیہ وسلم قربان گاہ  کی طرف گئے اور وہاں آپ نے 63 اونٹ اپنے ہاتھوں سے نحر کیے، اور پھر  بقیہ اونٹ علی رضی اللہ عنہ کو نحر کرنے کیلئے دے دیے، اس کے بعد آپ نے ہر اونٹ  کے گوشت میں سے تھوڑا سا حصہ  ایک ہنڈیاں  میں ڈالنے کا حکم دیا، پھر اسے پکایا گیا اور  دونوں نے ان کا گوشت کھایا اور شوربہ نوش کیا۔” مسلم 1218

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک قربانی کا الگ  سے حکم ہے یہی وجہ ہے کہ تمام قربانی کے اونٹوں کا گوشت ایک ہانڈی میں جمع کرنے کا حکم دیا۔

       اس بارے میں اہل علم کا کہنا ہے کہ: جب قربانی کے ہر جانور کے گوشت کو کھانا سنت ہے اور ایک  سو  جانوروں کے گوشت کو کھانے میں مشقت بھی تھی تو اس کے حل کے لیے تمام جانوروں کے تھوڑے تھوڑے گوشت کو  ہانڈی میں ڈال دیا گیا ؛ تا کہ  ان کے شوربہ کو نوش کر کے سب کا کچھ نہ کچھ حصہ تناول  کرنا آسان ہو جائے۔” صحيح مسلم 8/192

    یہ ہوا کہ جس قربانی  کے مکمل گوشت کو  آپ تناول کر چکے ہیں اس میں سے کچھ بھی صدقہ نہیں کیا تو اس کے بدلے میں آپ تھوڑا سا گوشت چاہے ایک اوقیہ(تقریباً 200 گرام)ہی لے لیں اور اسے فقراء میں تقسیم کر دیں۔

    تاہم جس قربانی کو آپ نے مکمل طور پر صدقہ میں دے دیا  تو یہ قربانی سب علمائے کرام کے ہاں درست ہے۔واللہ اعلم.

Loading