Daily Roshni News

قربانی یا چیریٹی۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم

قربانی یا چیریٹی

تحریر۔۔۔حمیراعلیم

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ قربانی یا چیریٹی۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم )بیس لاکھ کا بکرا یا کسی طالب علم کی  پڑھائی کا خرچہ یا  کسی بیمار کے علاج  کے لیے مدد یا کسی غریب کی بیٹی کی شادی کیا کرنا چاہیے؟”اس سے ملتی جلتی پوسٹس ماہ ذی الحج کا آغاز ہوتے ہی جا بجا نظر آتی ہیں۔میرا سوال یہ ہے کہ سارے صدقات، زکوہ اور چیریٹی کے کام کرنے کے لیے پورا سال پڑا ہوتا ہے پھر یہ لوگ صرف ذی الحج کا انتظار کیوں کرتے ہیں کہ قربانی چھوڑ کر یہ سارے کام کرنے کی تبلیغ کریں؟

     دوسروں خصوصا محتاجوں کی مدد کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے اور ہر مسلمان اپنی استطاعت کے مطابق صدقہ و خیرات کرتا ہی رہتا ہے۔لیکن جو لوگ قربانی کو فضول رسم بنا کر پیش کرنا چاہتے ہیں اور دوسروں کی مدد کو ترجیح دینے کی نصیحت کرتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ قربانی فرض نہیں بلکہ سنت ابراہیمی ہے اور ہرمسلمان جو صاحب نصاب ہو، یعنی جس کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا یا باون تولے چاندی یا اس کے برابر رقم ہو، اسے چاہیے کہ وہ قربانی کرے۔

اور تمام صاحب حیثیت مسلمان سارا سال یتیم بچوں،  بیواوں، مسافروں،  مریضوں، مساکین، مفروضوں کی مدد بھی کرتے ہیں اور مدارس و دیگر اداروں میں بھی حصہ ڈالتے رہتے ہیں۔اگر ان کی جیب اجازت دیتی ہے اور وہ اپنے رب کی رضا کے لیے بہترین چیز قربان کرنا چاہتے ہیں اور بیس لاکھ کا بکرا لیتے ہیں تو کسی کو کیا حق ہے کہ وہ اعتراض کرے۔قرآن کریم میں بارہا ذکر آتا ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنی بہترین اور پسندیدہ چیز اللہ کی راہ میں دیں۔

    جب ہم اپنی یا اپنے بچوں کی شادیاں کرتے ہیں شاپنگ کرتے ہیں تو اپنی استطاعت سے بڑھ کر ہر چیز خریدتے ہیں فنکشنز کرتے ہیں۔اپنی خوشی کے لیے مہنگے گھر ، گاڑیاں  ، فونز اور دیگر اشیاء خریدتے ہیں تب یہ سوچ نہیں آتی کہ ساڑھے تین لاکھ کے آئی فون کی بجائے بیس ہزار کا فون لے لیں اور کسی غریب کے گھر راشن ڈلوا دیں۔لاکھوں کا فنکشن کرنے یا جہیز دینے کی بجائے انہی پیسوں سے کسی یتیم بچی کی شادی کر دیں یا بچوں کی فی دے دیں۔پھر یہ سوچ صرف قربانی کرتے ہوئے ہی کیوں آتی ہے؟؟؟

     ہم کسی کو ذاتی طور پر نہیں جانتے تو اس پر تنقید کا حق بھی نہیں رکھتے۔اس لیے کوئی خبر پڑھ کر یا دیکھ کر دوسروں کے بارے میں رائے قائم کر لینا بہتان کے زمرے میں آتا ہے۔ ہو سکتا ہے کروڑوں کا بیل اور لاکھوں کا بکرا خریدنے والا سارا سال کروڑوں کی خیرات بھی کرتا ہو۔ مجھے یاد ہے ایک بار میرا بھائی فیصل مسجد اسلام آباد میں اعتکاف کر رہا تھا جب اس نے بتایا کہ لیور برادرز، بوننیزا اور دیگر برانڈز کی طرف سے روزانہ 300 ساڑھے تین سو بندوں کے لیے بہترین سحر و افطار بھیجی جاتی تھیں۔

     سارا سال ہم جگہ جگہ دسترخوان لگے دیکھتے ہیں۔لوگ غریبوں کو کاروبار کروا کے دیتے ہیں پانی کے فلٹرز لگواتے ہیں اجتماعی شادیاں کرواتے ہیں۔گھر بنا کے دیتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو سینکڑوں بچوں کو روزانہ کھانا کھلا رہے ہیں۔قربانی پر اعتراض کرنے والے لبرلز کو یہ سب کچھ کیوں دکھائی نہیں دیتا؟؟؟

    نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا انتقال ہوا تو آپ مقروض تھے لیکن آخری عیدالاضحٰی پر آپ نے سو جانور قربان کیے۔تو کیا ہم اتنا بھی نہیں کر سکتے کہ سارا سال کچھ بچت کر کے ایک چھوٹا سا بکرا یا کسی بیل میں حصہ ڈال کر سنت ابراہیمی پر عمل کر سکیں؟؟؟اگر ہم اپنی دنیاوی ضروریات کے لیے کمیٹیاں ڈال سکتے ہیں تو کیا ایک نبی کی سنت پوری کرنے کے لیے نہیں ڈال سکتے۔ خصوصا اس لیے بھی کہ روز قیامت یہی جانور ہمیں پل صراط سے گزرنے میں بھی مدد کریں گے۔

   یاد رکھیے اللہ تعالٰی کو ہمارے جانوروں کے بڑا چھوٹا ہونے سے فرق نہیں پڑتا بلکہ ہمارے خلوص نیت سے غرض ہے۔عثمان رضی اللہ عنہ نے صرف اللہ کی رضا کے لیے دگنی قیمت پر کنواں خرید کر لوگوں کے لیے وقف کیا تھا تو اللہ نے کیسا صلہ عطا فرمایا کہ اس کنوئیں کے پانی  سے لگے باغ کی آمدنی سے جو جائیداد بنائی گئی اس سے آج بھی عثمان رضی اللہ عنہ کے نام پر خیرات جاری ہے اور شاید تاقیامت یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔اس لیے جو شخص بھی خلوص نیت سے اور اللہ کی رضا کے لیے اپنامال یا ملکیت خرچ کرتا ہے اس پر اعتراض کی بجائے رشک کیجئے اس جیسا بننے کی کوشش کیجئے۔

    ہاں اگر کوئی صرف دکھاوے کے لیے کروڑوں کا بیل یا لاکھوں کا بکرا لیتا ہے تو اسلام میں ریاکاری کی کوئی گنجائش نہیں۔اللہ تعالٰی کو ہمارے جانوروں کے گوشت اور خون نہیں پہنچتے بلکہ ہمارا خلوص پہنچتا ہے۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ”جو شخص ایک کھجور برابر حلال کمائی میں سے صدقہ کرے، اور جان لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ صرف مال حلال قبول کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے داہنے ہاتھ سے قبول کرتا ہے اور پھر اس صدقہ کو صدقہ دینے والے کے لیے اسی طرح پروان چڑھاتا ہے جیسے تم میں سے کوئی شخص اپنے گھوڑے کے بچے کو پالتا ہے یہاں تک کہ وہ (صدقہ یا اس کا ثواب) پہاڑ کی مانند ہو جاتا ہے“۔

بخاری 1410 ۔مسلم 1014 ترمذي 661 ۔نسائي 2524

اس لیے نیت کو خالص کرتے ہوئے اپنی استطاعت کے مطابق جانور لیجئے اور سنت ابراہیمی پوری کیجئے۔اللہ تعالٰی سب کی قربانی اور عبادات قبول فرمائے۔

Loading