Daily Roshni News

لندن کی فضاؤں سے۔۔۔تارکینِ وطن کی توقعات اور خواب۔۔۔تحریر۔۔۔فیضان عارف

لندن سے ایک خط

فیضان عارف

تارکینِ وطن کی توقعات اور خواب

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔لندن کی فضاؤں سے۔۔۔تحریر۔۔۔فیضان عارف) پاکستان سے لندن اور برطانیہ کے دیگر شہروں میں آنے والے تارکین وطن کی اکثریت بہت سی توقعات اور سنہرے خواب لے کر آتی ہے۔ اِن تارکین وطن میں وزیٹر ویزے پر آنے والوں کے علاوہ چار کیٹگریز کے امیگرنٹس شامل ہیں۔ (1)سٹوڈنٹس یعنی طلباء وطالبات (2)منگیتر(3)ورک پرمٹ کے ملازمین اور (4غیر(قانونی تارکین وطن یا اسائلم سیکرز۔ ہمارے بہت سے اوورسیز پاکستانی جب کچھ دِنوں کے لئے وطن عزیز جاتے ہیں تو اپنے عزیز و اقارب اور دوست احباب سے مل کر انہیں یونائیٹڈ کنگڈم اور خاص طور پر لندن کے بارے میں ایسی جھوٹی سچی کہانیاں سناتے ہیں کہ سننے والوں کا دِل کسی نہ کسی طرح یو کے پہنچنے کے لئے مچلنے لگتا ہے اور انہیں ایسا لگتا ہے کہ لندن پہنچ کر ہی اُن کے خواب پورے ہو سکتے ہیں۔ رہی سہی کسر وہ ایجنٹ پوری کر دیتے ہیں جو مال بٹورنے کے لئے لوگوں کو یورپ تک پہنچانے کا جھانسہ دیتے ہیں اور انہیں ایسے سبز باغ دکھاتے ہیں کہ لوگ اپنی جمع شدہ پونجی داؤ پر لگا کر یورپ کے کسی بھی خوشحال ملک تک پہنچنے کا رسک لینے سے گریز نہیں کرتے۔ وزیٹر ویزے پر برطانیہ آنے والوں میں اکثریت اُن لوگوں کی ہوتی ہے جن کے پاس مال و دولت کی کمی نہیں۔ یہ لوگ چھٹیاں گزارنے اور شاپنگ کرنے کے لئے لندن آتے ہیں یا پھر ان کے عزیزواقارب یا اولاد برطانیہ میں رہتی ہے جن سے ملنے کے لئے ہمارے یہ خوشحال پاکستانی ہر سال یہاں آتے ہیں، ورک پرمٹ پر وہ لوگ پاکستان سے یو کے آتے ہیں جن کو مختلف تجارتی اور کاروباری کمپنیز کی طرف سے ملازمت ملتی ہے۔ گذشتہ دِنوں بی بی سی (برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن) نے تحقیق کی تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ بہت سی ریکروٹس منٹ ایجنسیاں اور پرائیویٹ کیئر ہومز کے منتظمین پاکستان کے علاؤہ انڈیا اور دیگر کئی ممالک سے لوگوں کو ملازمت کے لئے ورک پرمٹ پر برطانیہ بلواتے ہیں جن کے لئے حکومت نے کم سے کم تنخواہ کی حد 38700پاؤنڈ سالانہ مقرر کر رکھی ہے۔ ریکروٹمنٹ ایجنسیاں اس ورک پرمٹ کے لئے مجبور لوگوں سے بھاری رقم ہتھیا کر انہیں یو کے بلا لیتے ہیں لیکن جب وہ یہاں پہنچتے ہیں تو انہیں حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اب تک لاکھوں لوگ ورک پرمٹ کے لئے اِن جعلسازوں کے ہتھے چڑھ کر اپنی جمع شدہ پونجی سے محروم ہو چکے ہیں اور ان میں سے اکثریت کو برطانیہ پہنچنے کے باوجود ملازمت نہ ملنے پر ملک بدر ہونا پڑتا ہے۔ خاص طور پر کیئر ہوم سیکٹر میں امیگرنٹس کو سب سے زیادہ فراڈ کا سامنا کرنا پڑا۔ برطانوی حکومت نے سیکڑوں ایسی ریکروٹمنٹ ایجنسیز کے ورک پرمٹ لائسنس منسوخ کئے جنہوں نے ہزاروں لوگوں کو پاکستان، انڈیااور نائجیریا سے ملازمت اور مراعات کا جھانسہ دے کر یو کے بلایا اور اُن سے لاکھوں پاؤنڈ ہتھیا کر رفو چکر ہو گئیں۔ اِن ایجنسیز کے جھانسے میں آنے والے کو 60دِن کا نوٹس دیا جاتا ہے کہ وہ یا تو کوئی متبادل ملازمت تلاش کریں یا پھر واپس اپنے وطن چلے جائیں۔ اچھے مستقبل کی تلاش میں اپنے بیوی بچوں سمیت برطانیہ آنے والے اِن لوگوں کی اکثریت نہ تو اِن ریکروٹمنٹ ایجنسیز کے خلاف کوئی کاروائی کر سکتی ہے اور نہ ہی انہیں وہ ہزاروں پاؤنڈ واپس ملتے ہیں جو انہوں نے ورک پرمٹ کے لئے ایجنٹوں کو ادا کئے ہوتے ہیں۔کچھ ماہ پہلے تک جب ورک پرمٹ کا یہ ”کاروبار“ عروج پر تھا تو میرے کئی دوست احباب نے اس سلسلے میں مجھ سے رابطہ کر کے برطانیہ میں رجسٹرڈ اِن ریکروٹمنٹ ایجنسیز کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کو کہا۔ معلومات کے حصول کے بعد میں نے انہیں بتایا کہ یہ ایجنسیز جو سیکڑوں لوگوں کو ورک پرمٹ دلوا رہی ہیں اور برطانوی قانون کے مطابق اِن لوگوں کی سالانہ کم سے کم تنخواہ 38700رکھی گئی ہے یہ سب مجبور لوگوں سے مال بٹورنے اور بھاری رقم ہتھیانے کا ایک نیا طریقہ ہے۔ یہ ایجنسیز سیکڑوں لوگوں کو ورک پرمٹ پر یہاں بلا کر اتنی پر کشش سالانہ تنخواہ دینے یا دلوانے کی متحمل ہی نہیں ہو سکتیں کیونکہ اتنی اچھی سالانہ تنخواہ تو بہت سے برطانوی شہریوں کو بھی نہیں ملتی کجا کہ اس تنخواہ پر انڈیا اور پاکستان سے امیگرنٹس کو بلایا جائے۔ کئی عزیزوں نے میری بات کو درخوراعتنا نہ سمجھا۔اُن کا خیال تھا کہ میں نہیں چاہتا کہ وہ برطانیہ آئیں اور اپنا مستقبل بہتر بنائیں۔ بہرحال چند ماہ بعد جب وہ اپنی جمع شدہ پونجی سے محروم ہوئے انہیں میری بات کی صداقت کا احساس ہوا۔ برطانوی حکومت نے اس نیت سے ورک پرمٹ سکیم شروع کی تھی کہ کیئر ہوم سیکٹر میں ملازمتوں کی بہت گنجائش تھی۔ جو لوگ اِن ملازمتوں کے لئے برطانیہ آئیں گے اُن کو پرکشش تنخواہ ملے گی اور حکومت کو اِن ورکرز کی تنخواہ سے خاطر خواہ ٹیکس ملے گا لیکن جعلی ریکروٹمنٹ ایجنسیز نے حکومت کی اس سکیم کا جنازہ نکال دیا۔سٹوڈنٹ ویزے پر برطانیہ آنے والوں کے لئے ایک زمانے میں بڑی آسانی اور سہولت تھی۔ طلباء کی اکثریت کو حصولِ تعلیم کے ساتھ ساتھ (فل ٹائم) کام کرنے کی بھی آزادی تھی اور شادی شدہ طلباء وطالبات اپنے پارٹنرز اور بچوں کو بھی اپنے ساتھ برطانیہ لا سکتے تھے جو ڈپنڈینٹ ویزے پر کام بھی کر سکتے تھے۔ کئی برس پہلے یو کے میں فراڈیوں اور موقع پرستوں نے جعلی کالجز اور تعلیمی اداروں کی رجسٹریشن کے بعد ہزاروں لوگوں کے سٹوڈنٹ ویزے لگوائے اور جب ان نام نہاد تعلیمی اداروں کے خلاف کریک ڈاؤن ہوا تو ہزاروں طلبا ملک بدر ہوئے اور برطانوی حکومت نے سٹوڈنٹ ویزے کے لئے معیار اور پالیسی کو یکسر تبدیل کر دیا۔ اب صرف وہی طلباء وطالبات برطانیہ آ سکتے ہیں جن کی اولین ترجیح تعلیم کا حصول ہو اور وہ برطانوی کالجز اور یونیورسٹیز کی فیس دینے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں۔ یونائیٹڈ کنگڈم میں زیر تعلیم اوورسیز سٹوڈنٹس کی اکثریت اب ہفتے میں زیادہ سے زیادہ 20گھنٹے کام کر سکتی ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق اس وقت یو کے میں سب سے زیادہ اوورسیز سٹوڈنٹس کا تعلق چین سے ہے۔ چین کے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ طلبا یہاں کے مختلف تعلیمی اداروں میں سٹوڈنٹ ویزے پر زیر تعلیم ہیں۔ دوسرے نمبر پر انڈین سٹوڈنٹس ہیں یعنی ایک لاکھ 27ہزار بھارتی طلباء وطالبات یو کے میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ تیسرے نمبر پر نائیجیریا کے طالب علم ہیں جن کی تعداد تقریباً 44ہزار ہے جبکہ اوورسیز پاکستانی سٹوڈنٹس چوتھے نمبر پر ہیں جن کی کل تعداد 23ہزار سے کچھ زیادہ ہے۔ برطانیہ آنے والے ایشیائی طالبعلموں کی اکثریت اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے وطن واپس نہیں جاتی۔ا ن کی اہلیت اور قابلیت سے برطانوی کمپنیز کو ہی فائدہ پہنچتا ہے۔

      منگیتر کے ویزے پر برطانیہ آنے والوں کی تعداد میں گذشتہ 3دہائیوں کے دوران تیزی سے کمی آئی ہے۔ 80ء اور 90ء کی دہائی میں اوورسیز پاکستانیوں اور کشمیریوں کی بڑی تعداد اپنے بیٹے بیٹیوں کے رشتے اپنے عزیزواقارب میں تلاش کرتی تھی اور پھر شادی کے بعد بہو یا داماد کو یونائیٹڈ کنگڈم بلانے کے لئے دستاویزات اور کاغذات بنوانے میں کافی وقت لگ جاتا تھا اور جو منگیتر(سپاوس) ویزے پر برطانیہ آ جاتے تھے انہیں مغربی معاشرے میں ایڈجسٹ ہونے میں کافی وقت لگتا تھا اور اس دوران میاں بیوی کے درمیان ہم آہنگی بھی ایک الگ مسئلہ تھا۔ ایسی شادیوں کی اکثریت علیحدگی یا طلاق پر منتج ہوتی تھی۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اوورسیز پاکستانیوں نے اپنے تلخ تجربات سے سبق سیکھا اور اب برطانیہ میں آباد پاکستانی اور کشمیری والدین کی اکثریت اپنی اولاد کی شادی بیاہ کے لئے اُن کے رشتے اوورسیز کمیونٹی میں کرنے کو ہی ترجیح دیتی ہے اور ویسے بھی برطانوی قانون میں جبری شادی کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ جو لوگ ارینجڈ میرج کے ذریعے منگیتر(داماد یا بہو) بن کر برطانیہ آتے تھے ابتدا میں وہ اپنے سسرال کے بہت سے ظلم وستم برداشت کرتے تھے لیکن شہریت ملنے پر وہ اپنے سسرالی رشتے داروں سے گن گن کر بدلے لیتے تھے۔

      وہ لوگ جو غیر قانونی طور پر برطانیہ آتے ہیں یا قانونی طور پر برطانیہ آ کر سیاسی پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں انہیں اسائلم سیکرز کہا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ اسائلم سیکرز جنرل ضیاء الحق کے دور میں پاکستان سے برطانیہ آئے۔نامور سیاسی لیڈرز، دانشور،ا دیب، شاعر اور سیاسی کارکن لندن اور یورپی ممالک کے دیگر شہروں میں سیاسی پناہ گزین ہوئے اِن میں سے بہت کم لوگ ایسے تھے جو اگست 1988ء کے بعد پاکستان میں جمہوریت بحال ہونے پر وطن واپس گئے ہوں یا اپنی غیر ملکی شہریت ترک کر کے مستقل طور پر پاکستان میں جا کر آباد ہوئے ہوں۔ برطانیہ اور یورپ میں انسانی حقوق کی پاسداری کو بہت اہم سمجھا جاتا ہے اس لئے رنگ، نسل، مذہب، صنف یا سیاسی نظریات کی بنیاد پر کسی کے انسانی حقوق کو سلب کیا جانا یا اس سے امتیاز برتنا یورپی معاشروں کے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ جن ممالک میں لوگوں کو مذکورہ بالا کسی مسئلے کاسامنا ہے اور اس کی وجہ سے اُن کی زندگی خطرے میں ہو تو ایسے لوگ برطانیہ اور بہت سے دوسرے ممالک میں سیاسی پناہ کے حق دار سمجھے جاتے ہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں لاکھوں ایسے پاکستانی تارکین آباد ہیں جنہوں نے پہلے اُن ممالک میں سیاسی پناہ حاصل کی جہاں کی اب وہ شہریت لے چکے ہیں اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ جو لوگ غیر قانونی طور پر برطانیہ یا دیگر یورپی ملکوں میں پہنچنے کارسک لیتے ہیں اُن میں سے زیادہ تر لوگ رستے میں ہی سفر کی صعوبتوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو سمندروں کی لہریں نگل لیتی ہیں اور کچھ جنگلوں اور صحراؤں میں بھوک پیاس سے دم توڑ دیتے ہیں اور جو چند خوش نصیب کسی ملک کے ساحل تک پہنچ بھی جائیں تو امیگریشن کے سخت قوانین کی وجہ سے وہ بالآخر ملک بدر کر دیئے جاتے ہیں۔ یورپ پہنچنے کے خواب دیکھنے والوں سے میری استدعا اور التجا ہے کہ خدا کے لئے ایجنٹوں اور انسانی سمگلروں کے بہکاوے میں نہ آئیں،زندگی سب سے قیمتی نعمت ہے، خوابوں کی تعبیر صرف زندہ لوگوں کو ملتی ہے، خدا کے لئے اپنے وسائل اور زندگی کی حفاظت کریں۔ جو لوگ خوابوں کی تلاش میں نکلے اور اپنی زندگی کھو بیٹھے اُن کے انجام سے سبق حاصل کریں۔ اللہ رب العزت ہر مجبور انسان کو اپنی امان میں رکھے۔

٭٭٭ بصیرت کے موتی اور جواہرات چننے کے لئے پوری دنیا کے نوجوان یہاں آئے ہوئے ہیں۔ لندن سے دو گھنٹے کی مسافت پر آباد آکسفورڈ صرف ایک شہر ہی نہیں بلکہ علم و دانش کا بے مثال تاریخی حوالہ ہے۔ یہاں کی آکسفورڈ یونیورسٹی 1096ء سے اپنے تدریسی تسلسل کو جاری رکھے ہوئے ہے یعنی یہ دنیا کی دوسری قدیم ترین درس گاہ ہے (پہلی قدیم ترین یونیورسٹی اٹلی کی بولوگنا (BOLOGNA) یونیورسٹی ہے جہاں 1088 میں تدریسی سلسلے کا آغاز ہوا تھا)۔ میں چند ہفتے پہلے ایک بار پھر آکسفورڈ گیا تو میرے دیرینہ دوست اور آکسفورڈ سٹی کونسل کے سابق لارڈ میئر الطاف خان نے مجھے ایک ٹورسٹ گائیڈ کی طرح پورے شہر اور اس کی عظیم درسگاہ کا دورہ کرایا، موسم بہت خوشگوار تھا پورا شہر اور یونیورسٹی کی گلیاں اور راہداریاں سیاحوں اورطالبعلموں کی وجہ سے پُررونق تھیں۔ الطاف خان مجھے یونیورسٹی کے مختلف شعبوں، کالجز اور فیکلٹیزمیں لے گئے او ر اُن کی تاریخ اور اہمیت کے بارے میں حیران کن معلومات سے میرے علم میں اضافہ کیا۔ الطاف خان ایک شاندار انسان اور عمدہ سیاستدان ہیں جن کا آبائی تعلق آزاد کشمیر سے ہے وہ آکسفورڈ کے ہیڈنگٹن وارڈ سے گزشتہ طویل عرصے سے لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے کونسلر منتخب ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ اس شہراور یونیورسٹی کے بارے میں ان کی معلومات مقامی انگریزوں سے بدرجہا بہترہیں اس کے علاوہ وہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم پاکستانی طالبعلموں (اور ان کی تنظیم پاکستان سوسائٹی) اور پاکستانی پروفیسرز سے بھی رابطے میں رہتے اور ہر معاملے میں اُن کی ہر ممکن معاونت کرتے ہیں۔الطاف خان جیسے سیاستدان اوورسیز پاکستانی اور کشمیری کمیونٹی کے لئے قابل فخر اور ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے آکسفورڈ سٹی کونسل کے لارڈ میئر کے طور پر جو خدمات انجام دیں انہیں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ویسے بھی آکسفورڈ جیسے تاریخی شہر میں جہاں ایک لاکھ 64ہزار کی کل آبادی میں صرف 4 فیصد پاکستانی اور 9 فیصد مسلمان ہوں وہاں کسی اوورسیز پاکستانی کا لارڈ میئر منتخب ہونا ایک منفرد اعزاز کی بات ہے۔ میں نے الطاف خان سے جب آکسفورڈ کے مسائل اور پاکستانی کمیونٹی کے بارے میں استفسار کیا تو وہ کہنے لگے کہ اس ٹاؤن کی بنیاد آٹھویں صدی میں رکھی گئی اور اسے 1542 میں شہر کا درجہ حاصل ہوا۔ ابتدا سے ہی یہ شہر امن اور علم کا گہوارہ ہے اور عالمی توجہ کا مرکزہے۔آکسفورڈ میں آباد پاکستانی کمیونٹی کی اکثریت خوشحال اور تعلیم یافتہ ہے۔ میں نے پوچھا کہ آکسفورڈ میں رہنے والوں کو اس شہر کی تاریخی یونیورسٹی میں داخلے کے لئے کسی قسم کی کوئی رعایت یا سہولت دی جاتی ہے؟ میری بات سن کر الطاف خان مسکرائے اور کہنے لگے آکسفورڈ یونیورسٹی طالبعلموں کو صرف اور صرف میرٹ کی بنیاد پر داخلہ دیتی ہے، اس درسگاہ کا تعلیمی معیار بہت بلند ہے اسی لئے آکسفورڈ یونیورسٹی گزشتہ پانچ برس سے دنیا کی سب سے بہترین یونیورسٹی قرار دی جا رہی ہے۔ اس تعلیمی ادارے سے فارغ التحصیل لوگوں نے دنیا میں بڑے بڑے کارنامے انجام دیئے ہیں۔ ادب، سیاست، تاریخ، سپورٹس، سائنس، تحقیق، آرٹ، قانون، فنانس سمیت کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے پڑھنے والے لوگوں نے عالمی سطح پر کوئی نمایاں اور بڑا کام نہ کیا ہے۔ دنیا کے ذہین ترین طالبعلموں کو ہی اس درس گاہ میں داخلے کا اعزاز حاصل ہوتا ہے۔ البرٹ آئن سٹائن اور سٹیفن ہاکنگ سے لے کر مارگریٹ تھیچر اور ٹونی بلیئر تک، بل کلنٹن اور اندرا گاندھی سے بے نظیر بھٹو اور عمران خان تک، روپرٹ مرڈاک اور آسکروائلڈ سے ٹی ایس ایلیٹ تک سیکڑوں نامور شخصیات مختلف ادوار میں اس درسگاہ میں زیر تعلیم رہیں۔ اس ادارے کے 72 سابق طلبا ایسے ہیں جن کو مختلف شعبوں میں اعلی کارکردگی پر نوبل پرائز دیا جا چکا ہے جبکہ اس یونیورسٹی کے 120 طالبعلموں نے اولمپکس میڈل حاصل کئے۔پچھلے دنوں پاکستان میں آکسفورڈ یونیورسٹی کا بہت چرچا ہوا کیونکہ سابق وزیر اعظم پاکستان اور پی ٹی آئی کے بانی سربراہ عمران خان کا نام اس درسگاہ کے چانسلر کے امیدوار کے طور پر لیا جا رہا تھا لیکن جب یونیورسٹی کی طرف سے 38 امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کی گئی تو اس میں عمران خان کا نام شامل نہیں تھا جس کا مطلب ہے کہ یہ تعلیمی ادارہ اپنے وقار اور عظمت کو برقرار رکھنے کے لئے کسی ایسی کھکھیڑ میں نہیں پڑنا چاہتا جس کی وجہ سے کسی ملک کے سیاسی حالات کے متاثر ہونے کا اندیشہ ہو۔ عمران خان کے خیر خواہ اور تحریک انصاف کے کارکن اورعہدیدار یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ عمران خان کے آکسفورڈ یونیورسٹی کا چانسلر منتخب ہونے کے بعد ان کی جیل سے رہائی کی راہ ہموار ہو جائے گی لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کو عمران خان کے سیاسی مستقبل سے زیادہ اپنا وقار اور ساکھ عزیز ہے ویسے بھی اس یونیورسٹی کی چانسلر شپ ایک اعزازی منصب ہے جس کی بنیادی شرط اس درسگاہ کا سابق طالب علم ہونا ہے۔ گزرنے والے سیکڑوں برسوں میں بہت سے قابل اور نامور لوگ اس اعزازی عہدے پر فائیز رہ چکے ہیں مگر کبھی کسی نے اس اعزاز کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال نہیں کیا۔ سالِ رواں میں 31 جولائی کو کرسٹوفرفرنسس پیٹن کے استعفے کے بعد سے چانسلر کا عہدہ خالی ہے، نئے چانسلر کے انتخاب کے لئے ووٹنگ کا پہلا مرحلہ 28 اکتوبر کو مکمل ہوا اور دوسرا مرحلہ 18 نومبر سے شروع ہو گا۔ نوابزادہ لیاقت علی خان اور ذوالفقارعلی بھٹو سمیت آکسفورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل درجنوں شخصیات مختلف ممالک کے وزیر اعظم یا سربراہِ مملکت کے عہدے پر فائیز رہ چکی ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں ان دنوں 26 ہزار سے زیادہ طالب علم زیر تعلیم ہیں جن میں 12470 انڈرگریجوایٹ اور 13920 پوسٹ گریجوایشن کے مختلف مضامین اور کورسز پڑھ رہے ہیں۔آکسفورڈ یونیورسٹی 43 کالجز پر مشتمل ہے جن میں دو ہزار سے زیادہ پروفیسرز، لیکچرراور ریسرچ سکالرز درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ اس درسگاہ میں تقریباً 350 مضامین اور کورسز پڑھائے جاتے ہیں اس ادارے کے کل ملازمین کی تعداد 16 ہزار سے زیادہ ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں پاکستان سے ہر سال 40 سے 50 طالبعلموں کو داخلہ ملتا ہے جن کی اکثریت حصول تعلیم کے بعد واپس وطن نہیں جاتی یا انہیں انکی تعلیمی قابلیت کے مطابق کوئی ملازمت میسر نہیں آتی اس لئے پاکستان کے اِن ذہین نوجوانوں کی قابلیت کا فائدہ امریکہ، برطانیہ، کینیڈا یا کسی اور ترقی یافتہ ملک کو ہوتا ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے پاکستانی طالبعلموں نے پاکستان سوسائٹی کے نام سے اپنی ایک تنظیم بھی قائم کر رکھی ہے، یہ آرگنائزیشن مختلف طرح کے ثقافتی، ادبی، سیاسی اور تفریحی پروگراموں کا اہتمام کرتی ہے، آکسفورڈ یونیورسٹی میں صرف پاکستانی طالبعلم ہی موجود نہیں بلکہ یہاں کئی پاکستانی پروفیسرز بھی درس و تدریس کی ذمہ داریں نبھا رہے ہیں جن میں پروفیسر عدیل ملک (ممتاز پاکستانی ادیب اور دانشور فتح محمد ملک کے صاحبزادے) اور اجمل حسین مغل کے علاوہ دیگر کئی اساتذہ شامل ہیں جبکہ ممتاز پاکستانی دانشور ڈاکٹر افتخار ملک بھی کئی برس تک آکسفورڈ یونیورسٹی سے وابستہ رہے ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی صرف ایک درس گاہ نہیں بلکہ علم کا ایک ایسا شہر ہے جو سیکڑوں برسوں سے دنیا بھر کے ذہین اور قابل لوگوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کر رہا ہے۔ یہ ادارہ علمی وقار اور معیار کی ایک شاندار علامت ہے۔ موجودہ دور تک کی ترقی اور خوشحالی میں آکسفورڈ کے سائنسدانوں اور مختلف شعبوں کے ماہرین کا ایک نمایاں حصہ ہے اس تعلیمی ادارے نے صرف بڑے بڑے لیڈرز اور دانشور ہی پیدا نہیں کئے بلکہ اُن ذہین لوگوں کی بھی تربیت کی ہے جنہوں نے ہماری اس دنیا کو جدید ٹیکنالوجی اور مستقبل کے بہتر امکانات سے روشناس کروایا۔ میں جب بھی آکسفورڈ جاتا ہوں تو دل میں ایک ہوک سی اُٹھتی ہے کہ کاش میں بھی اس عظیم درس گاہ کا طالب علم ہوتا۔

٭٭٭

Loading