Daily Roshni News

لندن کی فضاؤں سے۔۔۔تحریر۔۔۔ فیضان عارف

انگلینڈ(ڈیلی روشنی انٹرنیشنل ۔۔۔تحریر۔۔۔ فیضان عارف (دنیا کے پرکشش اور تاریخی شہروں میں لندن کو کئی اعتبار سے انفرادیت حاصل ہے۔ سہولتوں اور آسائشوں کے لحاظ سے بھی برطانوی دارالحکومت ایک بے مثال شہر ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ لندن میں صرف انگریز اور سفید فام آباد تھے لیکن گذشتہ نصف صدی کے دوران دنیا بھر کے امیگرنٹس نے اس شہر میں آباد ہونے کو ترجیح دی اور پھر لندن رفتہ رفتہ ایک ملٹی کلچرل یعنی کثیر الثقافتی شہر بن گیا اور اب یہ عالم ہے کہ لندن کے بعض حصوں اور خاص طور پر ایسٹ لندن میں ایشیائی تارکین وطن کی اکثریت ہے۔ چند برس پہلے تک ایسٹ لندن کو اس شہر کا پسماندہ اور نظر انداز کیا ہوا علاقہ سمجھا جاتا تھا لیکن جب 6جولائی 2005ء کو اعلان کیا گیا کہ 2012ء کے اولمپکس کا انعقاد برطانوی دارالحکومت میں ہو گا اور اس کے لئے ایسٹ لندن میں اولمپکس سٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے تو ان 7برسوں کے دوران مشرقی لندن نے دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کی۔ سٹریٹفورڈ کا علاقہ جہاں سکریپ یارڈز کی بہتات تھی وہاں جدید اولمپکس اسٹیڈیم اور شاندار رہائشی عمارات تعمیر کی گئیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہاں یورپ کا جدید ترین شاپنگ سنٹر ویسٹ فیلڈ بنایا گیا جس کا افتتاح ستمبر 2011ء میں ہوا۔ یہ شاپنگ سنٹر دنیا کے چند بڑے اور شاندار تجارتی مراکز میں سے ایک ہے جہاں ہر عالمی برانڈ کی جدید ترین پراڈکٹس خریداری کے لئے دستیاب ہوتی ہیں۔ اولمپکس سٹی اور مذکورہ شاپنگ سنٹر کے علاؤہ کوچز(بسوں) اور ٹرینز(ریل گاڑیوں) کے انٹرنیشنل ٹرمینلز کی وجہ سے بھی ایسٹ لندن برطانوی دارالحکومت کا ایک مصروف حصہ بن چکا ہے اور اس علاقے میں بلند و بالا اور درجنوں منزلہ شاندار رہائشی عمارتوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دفاتر کی وجہ سے بھی ایسٹ لندن کی گہما گہمی اور رونق میں بہت اضافہ ہو گیا ہے اور یہاں پراپرٹیز کی قیمتیں بھی آسمان کو چھونے لگی ہیں۔ ایسے لوگ جو گہما گہمی سے دور پر سکون رہائشی علاقوں میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں وہ اب ایسٹ لندن کو چھوڑ کر دیگر مضافاتی علاقوں اور شہروں میں منتقل ہو رہے ہیں اور اپنے گھر کرائے پر چڑھا دیئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب مشرقی لندن میں یورپی لوگوں اور خاص طور پر رومانیہ، بلگاریہ اور پولینڈ کے تارکین وطن کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور یہاں رہائشی سہولتوں کی قلت کے باعث ملٹی سٹوری اپارٹمنٹس کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہے۔ ایسٹ لندن کا علاقہ 10باروز یعنی نیوہیم، بیکسلے، گرینچ، مہیکنی، ہیورنگ، لیوشم، ریڈ برج، ٹاور ہیملٹ، والتھم فاریسٹ، بارکنگ اینڈ ڈیگنہم پر مشتمل ہے۔ نئی صدی کے آغاز پر ایسٹ لندن کے علاقے ڈوک لینڈز میں ایک ملینیم ڈوم تعمیر کیا گیا تھا جو 23برس گزرنے کے باوجود اب تک سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے اور اس وسیع و عریض گنبد والی عمارت کے نیچے بنائے گئے سٹیج اوٹوارینا پر دنیا کے نامور فنکاروں کے لائیو شوز منعقد ہوئے ہیں اور جیمز بانڈ کی ایک فلم میں بھی اس ڈوم کا ایک سین فلمایا گیا ہے۔ اس گنبد کے ساتھ ہی چند برس پہلے ایمریٹس کیبل کارز کے چلانے کا اہتمام کیا گیا ہے جو سیاحوں کو دریائے تھیمز کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک لے جاتی ہیں اوران کیبل کارز سے دریا اور ڈوک لینڈز کی بلند و بالا عمارتوں کا نظارہ کرنا ایک خوشگوار تجربہ ہوتا ہے۔ اس کے علاؤہ ڈرائیورز کے بغیر چلنے والی ریل گاڑیاں (ڈی ایل آر یعنی ڈوک لینڈز لائٹ ریلویز) بھی سیاحوں کے لئے خاص کشش رکھتی ہیں۔ایسٹ لندن میں لیٹن کا علاقہ سپیٹل فیلڈ فروٹ اینڈ ویجی ٹیبل مارکیٹ کی وجہ سے بڑی شہرت رکھتا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا تجارتی مرکز ہے جہاں دنیا بھر سے طرح طرح کی سبزیاں اور پھل امپورٹ کئے جاتے ہیں۔ سٹی آف لندن کارپوریشن کے زیر انتظام یہ مارکیٹ 31ایکڑ پر محیط ہے اور یہ یورپ کی چند بڑی فروٹ اور سبزی منڈیوں میں سے ایک ہے۔ 1990ء سے پہلے تک یہ مارکیٹ لندن کے مختلف علاقوں میں قائم تھی۔ 1991ء میں اسے لیٹن میں منتقل کیا گیا۔ اس مارکیٹ کی بنیاد 1879ء میں رکھی گئی اور اس وقت یہ سٹریٹفورڈ مارکیٹ کہلاتی تھی۔ ٹاور ہیملٹ ایسٹ لندن کی ایک ایسی بارو ہے جو بنگالی کمیونٹی کی وجہ سے مشہور ہے اور یہاں تاریخی برک لین دیسی کھانوں (کری ہاؤسز) کی وجہ سے خاص شہرت رکھتی ہے۔ برک لین کے نام سے لکھے جانے والے ناول کو بھی بڑی پذیرائی حاصل ہوئی جو 2003ء میں مونیکا علی نے لکھا تھا۔ 2007ء میں تنیشتھا چیٹرجی نے برک لین کے نام سے ایک فلم بھی بنائی تھی۔ ٹاور ہیملٹ برطانیہ کی وہ واحد کونسل ہے جہاں 32فیصدآبادی بنگلہ دیشی کمیونٹی کی ہے اور اس بارو میں اکثریتی آبادی مسلمانوں کی ہے جبکہ یہاں 40سے زیادہ مساجد اور اسلامک سنٹرز ہیں۔ ایسٹ لندن کی سب سے بڑی مسجد بھی وائٹ چیپل روڈ پر واقع ہے۔ یونیورسٹی آف ایسٹ لندن مشرقی لندن کا سب سے بڑا تعلیمی ادارہ ہے۔ اس یونیورسٹی کا قیام 1898ء میں عمل میں آیا۔ ابتداء میں اس کا نام ویسٹ ہیم ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ تھا۔ 1992ء میں اسے یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا۔ اس یونیورسٹی میں دنیا کے 135ممالک کے 15ہزار سے زیادہ طالبعلم ہر سال حصول تعلیم کے لئے آتے ہیں۔ اپنے معیار تعلیم و تدریس کے لحاظ سے اس کا شمار برطانیہ کی چند ایک اہم یونیورسٹریز میں ہوتا ہے۔ ایسٹ لندن میں کنیری وارف (CANARY WHARF)کا علاقہ ملٹی نیشنل کمپنیز اور تجارتی اداروں کا مرکز ہے۔ کنیری وارف کی عمارت 235میٹر اونچی اور 75منزلہ ہے۔ یہ لندن کی چند بلند ترین عمارتوں میں سے ایک ہے۔ کنیری وارف کے اردگرد درجنوں بلند عمارتوں کی وجہ سے یہ علاقہ نیویارک کے مین ہیٹن سے مشابہ ہے۔ ایسٹ لندن واقعی ایک ملٹی کلچرل علاقہ ہے جہاں درجنوں ممالک کے تارکین وطن آباد ہیں۔ مشرقی لندن کے بعض علاقے مثلاً گرین سٹریٹ (نیو ہیم) الفورڈلین، ہوسٹریٹ (والتھم فاریسٹ) اور برک لین (ٹاور ہیملٹ) میں ایشیائی لوگوں کی اکثریت کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ برطانیہ نہیں بلکہ پاکستان، بنگلہ دیش یا انڈیا کا کوئی علاقہ ہے۔ اِن علاقوں کے سینما گھروں میں جب کسی انڈین یا پاکستانی فلم کی نمائش ہوتی ہے تو لوگ بڑے اہتمام سے اِس فلم کو دیکھنے کے لئے پکچر ہاؤس کا رخ کرتے ہیں۔ ایسٹ لندن میں ایک ہوائی اڈا بھی ہے جو سٹی ایئرپورٹ کہلاتا ہے اور یہ دریائے تھیمز کے کنارے پر ہے۔جہازوں کا رن وے اور دریا ایک دوسرے کے متوازی ہیں۔ 9میل لمبے اس ہوائی اڈے سے 26اکتوبر 1987ء کو پروازوں کا آغاز ہوا۔یہاں سے برطانیہ کے مختلف شہروں کے علاؤہ یورپ کے مختلف ممالک کے لئے پروازوں کی سہولت دستیاب ہے۔ یہ برطانیہ کا چوتھا بڑا ایئر پورٹ ہے جہاں سے ہر سال ساڑھے چار ملین مسافر مختلف ایئرلائنز کے ذریعے سفر کرتے ہیں۔ برطانوی دارالحکومت کے باقی حصوں کے مقابلے میں ایسٹ لندن کو یہ انفرادیت حاصل ہے کہ یہاں زندگی کی رنگا رنگی اور مختلف ثقافتوں کا حُسن زیادہ نمایاں ہے جنہیں مختلف ملکوں سے آنے والے تارکین وطن اپنے ساتھ لے کر آئے۔ گورے لوگ بھی دیسی کھانوں کے ذائقوں سے لطف اندوز ہونے کے لئے برک لین کے ریستورانوں کا رُخ کرتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ لندن میں حلال کھانوں اور مرچ مسالوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے مسلمان تارکین وطن کو کئی طرح کی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا مگر اب ایسٹ لندن میں جگہ جگہ حلال ریستوران اور ہر طرح کے دیسی مسالوں کے سٹورز موجود ہیں۔ مشرقی لندن میں بارکنگ اینڈ ڈیگنھم اور ٹاور ہیملٹ کونسل کو معیار زندگی اور دستیاب سہولتوں کے اعتبار سے پسماندہ سمجھا جاتا ہے لیکن برطانوی حکومت کی خوبی یہ ہے کہ وہ کسی بھی علاقے کی پسماندگی کے خاتمے کے لئے ہر طرح کے وسائل کو بروئے کار لاتی ہے اور توقع کرتی ہے کہ اس علاقے کے مکین بھی اپنے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کے لئے سرکاری ذرائع کے ساتھ تعاون کریں۔ برطانیہ آنے والے سیاحوں کے لئے وسطی لندن کے علاؤہ ایسٹ لندن میں بھی دلچسپی کی بہت سی اشیا موجود ہیں۔ گرینچ میں رائل آبزرویٹری اور تھیمز بیرئیر بھی مشرقی لندن کے اہم مقامات ہیں جنہیں دیکھنے کے لئے دنیا بھر سے یہاں آتے ہیں۔ اِن سب چیزوں کے علاؤہ ایسٹ لندن کے بہت سے میوزیم (عجائب گھر)، آرٹ گیلریز اور پارک اپنی انفرادیت کی وجہ سے سیاحوں کے لئے بڑی کشش رکھتے ہیں۔ آپ بھی کبھی لندن آئیں تو ایسٹ لندن کے ملٹی کلچرل ماحول کو دیکھنے کے لئے یہاں ضرور آئیں۔

Loading

Leave a Comment