لولی وڈ پر مزاح کی سب سے گہری چھاپ ظریف خاندان کی ہے
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )لولی وڈ پر مزاح کی سب سے گہری چھاپ ظریف خاندان کی ہے، جس کے بانی ظریف مرحوم تھے ، اداکار ظریف کا اصل نام محمد صدیق تھا
1938 برطانوی ، پنجاب میں گوجرانولہ ریلوے اسٹیشن پر بوہڑ کے درخت تلے چند کھلنڈرے لڑکے نیم دائرہ بنا کر بیٹھے تھے ،ان سب کی نگاہوں کا محور ایک انہی کا ہم عمر محمد صدیق تھا ، جو انہیں کوئی فلمی گانا سنا رہا تھا! اور ساتھ ہی گھڑا بھی بجا رہا تھا، یہ سب ریلوے ملازمین کے بیٹے تھے جو ریلوے کالونی میں رہتے تھے! اور ہر روز سہہ پہر کے وقت اسی بوہڑ کی چھاؤں میں بیٹھتے تھے اور محمد صدیق سے فلموں کے مشہور گانے سنتے ،اور پھر بیٹھے بیٹھے دیر تک ایک دوسرے سے جگتیں کرتے رہتے فلموں کے مشہور مکالمے بولتے اور ایک دوسرے سے فلموں کی باتیں کرتے رہتے!
یہ محفل کم و بیش روزانہ ہی جمتی تھی ،محمد صدیق بلا کا ذہین تھا ،لیکن ساری ذہانت اداکاروں کی نقلیں اتارنے اور نت نئی جگتوں کے سیکھنے پر صرف ہورہی تھی تعلیم میں دلچسپی واجبی تھی، محمد صدیق کو اداکاری اور جگت بازی کے جراثیم ورثے میں ملے تھے !
بنیادی طور پر ان کا خاندان کمھار تھا تاہم ان کے ابو عبدالحق ریلوے کے افسر تھے ، اور گوجرانولہ میں ان کی تعیناتی تھی وہ ریلوے ڈرامیٹک کلب کے سرگرم ممبر بھی تھے جس کے ناتے وہ کبھی کبھار ریلوے کے ثقافتی پروگراموں میں اسٹیج پر اپنی اداکاری کے جوہر بھی دکھاتے رہتے ! ادھر عبدالحق صاحب کی بیگم یعنی محمد صدیق کی والدہ کالونی کے بچوں کو سیپارہ پڑھایا کرتی تھیں، اس وجہ سے بعد دوپہر چھوٹے چھوٹے بچے اور بچیاں ننھے منے ہاتھوں میں سیپارہ قرانی قاعدہ یا نورانی یا بغدادی قاعدہ تھامے جوق در جوق صحن اور برآمدے میں بچھی چٹائیوں پر آ آ کر بیٹھتے جاتے اور محمد صدیق کی ماں بچوں کو قرآن اور نماز کی ابتدائی تعلیم دیتیں اس دوران اپنے بچوں کی بابت بات کرنے بچوں کی مائیں بھی گاہے بگاہے چکر لگاتی رہتیں یوں بعد دوپہر سے سورج ڈھلے تک ان کا گھر پررونق رہتا محلے بھر میں ان کا گھرانہ دینی گھرانے کے طور پر مشہور تھا !
یہ دوسری جنگ عظیم کا دور تھا ، زندگی کے مختلف رنگوں پر مشتمل عبدالحق کے گھر کی زندگی اپنی پٹری پر توازن سے چل رہی تھی کہ اچانک ایک روز اربابِ اختیار نے ریلوے افسر عبدالحق کو لاہور تبادلہ کا پروانہ تھما دیا !
یعنی ان کا تبادلہ گوجرانولہ سے لاہور ہوگیا ، ان کا اگلا مسکن قلعہ گوجر سنگھ ٹھہرا اور یہاں محمد صدیق جو یکم جون 1926 پیدا ہوئے تھے انہیں اسلامیہ ہائی اسکول میں داخل کروا دیا گیا ، یہاں آکر کچھ دن محمد صدیق کی زندگی بے چین اور مضطرب رہی، کیونکہ جنم بھومی کسی بھی انسان کا ناسٹلجیا ہوتی ہے ، کہاں گوجرانولہ کا چھوٹا سا پرسکون ریلوے اسٹیشن اور اس کی مانوس کالونی اور کہاں لاہور جیسا بڑا شہر ، لیکن وقت بڑا مرہم ہے، وقت کے ساتھ ساتھ محمد صدیق نے قلعہ گوجر سنگھ کے اسلامیہ ہائی اسکول میں بھی نئے دوست بنا لیے یہاں بھی بیٹھکیں شروع ہو گئیں! اجمل، اکمل ،حیدر چوہدری، خلیفہ نزیر جیسی مستقبل کی فلمی شخصیات ان دنوں ان محفلوں کا حصہ تھیں, لیکن ان میں عبد الحق کے بیٹے محمد صدیق کا شوق تو جنوں بنا ہوا تھا ، کیونکہ وہ ویسے ہی ایک اسٹیج فنکار کا فرزند تھا ،روزانہ نئی فلمیں دیکھنا نئے لطیفے نئے چٹکلے نئے ڈائیلاگ دوستوں کو سنانا اس کا معمول تھا ، بلا کا ذہین بلا کا حاضر جواب اس کے دماغ میں صرف فلمیں اور فلمی اداکار بھرے تھے ، فلموں میں کام کرنے کا دیوانہ وار شوقین ، اور پھر محمد صدیق فلم اسٹوڈیوز کے چکر بھی لگانا شروع ہو گیا ، اور شدید تگ و دو کے بعد اسے ہدایت کار روپ کے شوری کی ایک فلم
دل دیاں لگیاں میں معمولی سا کردار مل گیا ، جو اس نے پوری صلاحیتیں استعمال کر کے شوٹ کروا دیا فلم تقریباً مکمل تھی کہ ہندوستان تقسیم ہو گیا ،یوں پھر اس فلم کے بارے میں کچھ پتہ نہ چل پایا کہ وہ ریلیز ہوئی کہ نہیں ؟ کیونکہ انتہائی تلاش بسیار کے باوجود کم از کم مجھے تو نہیں ملی ، اسی اثناء میں پاکستان بن گیا، تمام ہندو سکھ فلم ساز سرحد پار چلے گئے اور لاہور کی فلمی بستیاں ویران ہو گئیں! نئے سرے سے آبیاری ہونے کے بعد دھیرے دھیرے فلمیں بننا شروع ہوئیں تو محمد صدیق نے اپنا فلمی نام ظریف تجویز کیا اور ایک بار پھر پورے زور و شور سے متحرک ہوگئے ! اس نتیجے میں انہیں ہدایت کار شکور قادری نے اپنی نئی فلم ہماری بستی میں ایک معمولی مزاحیہ اداکار کے طور پر کاسٹ کر لیا ، لیکن وہ فلم مسلسل تاخیر کا شکار ہوتی چلی گئی! اس دوران ظریف ایک اور فلم دو کنارے میں کام حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ، جس کے ڈائریکٹر عاشق بھٹی تھے اور پھر یہ دیکھنے میں آیا کہ دو کنارے فلم پہلے ریلیز ہوگئی 28 جولائی 1949 میں ریلیز ہوئی جب کہ پہلے سائن کردہ فلم ہماری بستی دوکنارے سے تقریباً آٹھ ماہ بعد مارچ 1950 میں سینما گھروں تک پہنچی ، یوں سمجھیے کہ محمد صدیق عرف ظریف کو اپنے آپ کو سینما اسکرین پر دیکھنے کے لیے کم از کم پانچ سال کا تکلیف دہ انتظار سہنا پڑا ، یقیناً انتظار کی یہ گھڑیاں قیامت خیز ہوں گی ! لیکن ان دونوں پکچرز کی نمائش کے باوجود ظریف اپنی کوئی خاص پہچان نہ بنا پائے، مزید برآں یہ دونوں فلمیں ہی باکس آفس پر کوئی رنگ جمانے میں ناکام رہیں اور فلاپ ہوکر پِٹ گئیں!
فلموں کا حصول ان کے لیے اب بھی پہلی فلم کی طرح جوئے شیر لانے کے مترادف ہی تھا ! ابتدائی تین فلموں کی دُرگت کے بعد عین ممکن تھا کہ ظریف ہمیشہ کے لیے گمنامی کی دھول میں روپوش ہو جاتے کہ فلم نگری میں پانچ سال جوتیاں گھسانے کی وجہ سے کچھ تعلقات بن جانے کی وجہ سے انہیں ایک دو مزید فلموں میں لے لیا گیا تھا ، اور ظریف کو بھی اچھی طرح پتہ چل چکا تھا کہ جب تک کسی فلم میں کوئی بڑا رول نہیں مل جاتا اور ایک آدھ فلم سپر ہٹ نہیں ہو جاتی، فلم انڈسٹری میں ان کی دال گلنی نہیں , لہزا وہ دھیرے دھیرے چپکے چپکے ہر وقت مزید فلموں حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہتے ان کی خواہش ہوتی کہ ایک فلم ریلیز ہونے سے پہلے دو مزید فلمیں سائن کر لوں تا کہ پائپ لائن میں فلمیں رہیں 1951 میں ان کی ایک فلم میراثی کے نام سے ریلیز ہوئی جسے بعد ازاں بِلّو کا نام دے دیا گیا ڈائریکٹر امجد حسین کی یہ فلم بھی ڈبہ فلم تھی کامیابی حاصل نہ کر پائی ، 1952 میں حزیں قادری کی لکھی ہدایت کار شفیع اعجاز کی نَتھ بھی فلموں کے ناظرین نے بری طرح مسترد کر دی!
1953میں مستند ڈرامہ نگار امتیاز علی تاج کی ہدایتکاری میں پایۂ تکمیل کو پہنچنے والی فلم گلناز بھی شائقین کی عدالت سے سندِ قبولیت حاصل کرنے میں ناکامیاب ٹھہری ، یوں یکے بعد دیگرے پانچ سالوں میں ظریف کی پانچ فلمیں ریلیز ہوئیں اور پانچوں فلاپ ہو کر ڈبوں میں بند ہو گئیں ، یہ صورتِ حال کسی بھی فنکار کے مستقبل پر ہمیشہ کے لیے سوالیہ نشان بن جاتی ہیں ،اور فنکار ڈیپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں ،مگر آفرین ہے لیجنڈری ظریف پر کہ ہے درپے ناکامیوں کے بعد بھی اس عظیم الشان شخص کے پایۂ استقلال میں لغزش نہ آئی، اور اس کے قوی مضحمل نہ ہوئے اور وہ ایک فلم ریلیز ہونے سے پہلے ایک اور فلم میں کام حاصل کر کے فلم انڈسٹری میں اپنی بقاء کی جنگ لڑتا رہا! لیکن ابھی ظریف کے ستارے تاحال گردشِ میں تھے
گردشِ دوراں ابھی جاری تھا ابھی فطرت کو کچھ اور امتحاں مقصود تھے 1954 میں اتفاق سے ظریف کی کسی فلم کی نمائش نہ ہو پائی ، اور 1955 کی پہلی ششماہی بھی سوکھے ساون کی مانند گزری آخر کار خدا خدا کر کے 19 مہینوں کے جاں گُسل انتظار کے بعد جون 1955 میں ہدایت کار شریف نیر کی محفل اور پھر یکم جولائی کو ہدایت کار داؤد چاند کی بابل اور جولائی ہی میں ڈائریکٹر نظام کی جھیل کنارے اور جولائی 1955 میں ہی ہدایت کار حیدر شاہ کی طوفان فلمبینوں کی خدمت میں حاضر ہوئیں یہ پہلا موقع تھا کہ ظریف کی ایک ہی مہینے میں اوپر تلے تین فلموں نے مارکیٹ میں آنے کی ہیٹ ٹرک مکمل کی تھی ان میں سے آخری فلم طوفان سپر ہٹ ہوئی لیکن باقی فلمیں بھی ناکامی سے بال بال بچتے ہوئے نہ صرف اوسط درجے کا کاروبار کر گئیں ، بلکہ ظریف کی اداکاری کو بھی دیکھنے والوں نے بہت سراہا ! جس سے ظریف کو کافی حوصلہ ہوا لیکن ابھی ظریف کو ایک خاص فلم کا انتظار تھا جس میں دس سال کی محنت اور ناکامیوں کے بعد پہلی بار ظریف مرکزی کردار میں تھے جی ہاں آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے پاٹے خاں کہنہ مشق ہدایت کار ایم اے رشید کی پاٹے خاں ،جس کے ہیرو خوبرو اسلم پرویز اور ہیروئن وقت کی سب سے خوبصورت اور سب سے سریلی نورجہاں تھی اور ظریف کو یہ فخر حاصل ہوا بڑے بڑے ناموں کے بیچوں بیچ پاٹے خاں کا مرکزی کردار ظریف کے حصے آیا تھا پاٹے خاں نومبر 1955 میں ریلیز ہوئی اور ظریف کی خواہشات کے عین مطابق اس نے ہر طرف کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیئے ! اس فلم کی کہانی اور گیت حزیں قادری نے لکھے تھے اور موسیقار اختر حسین اکھیاں تھے ! معروف گلوکارہ زبیدہ خانم پاٹے خان میں بحیثیتِ اداکارہ ظریف کےمقابل سیکنڈ ہیروئین تھیں !
پاٹے خان نے ملک گیر سطح پر بہترین کاروبار کیا ! یوں پہلی بار ظریف ایک بڑے اداکار اور مضبوط کامیڈین کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ، پاٹے خاں کا مرکزی کردار کچھ اس چابک دستی سے ادا کیا کہ گزشتہ دس سالوں کی ناکامیاں دیکھتے ہی دیکھتے دُھل گئیں ، پاٹے خاں ایک میوزیکل فلم تھی جس میں مجموعی طور پر 15 گیت تھے زبیدہ خانم ، عنایت حسین بھٹی ملکۂ ترنم نور جہاں فضل حسین اور خود ظریف نے بھی اس فلم میں اپنی نغمگی کا جادو جگایا!
کلی کلی جان دُکھ لکھ تے کروڑ وے
دور جانڑ والیا مہاراں ہُنڑ موڑ وے
میری پھڑ لے بانہہ آجا میری پھڑ لے بانہہ
اکھیاں ہار گئیاں ہار گئیاں
اکھاں کہندیاں نے کڑئیے پیار کر لے
میںنوں کہندی اے جوانی اقرار کرلے
سجن دشمن اٹھدے بہندے سانوں آکھنڑ پاٹے خان
لوکی کہندے پاٹے خان……
پاٹے خان کی کامیابی کے ظریف کے فلمی کریئر پر خاطر خواہ اثرات مرتب ہوئے ، یہ ان کے لیے بہت زبردست بریک تھرو تھا ، جس سے ظریف کی پتنگ ہوؤاں میں اڑنے لگی ان کا سست روی سے چلتےفلم کیرئر کو پانچواں گئیر لگ گیا ،ظریف نےعملی طور پر 1946 میں فلم لائن اختیار کی جب انہوں نے پہلی (نہ ریلیز ہونے والی فلم دل دیاں لگیاں) سائن کی تھی لیکن 1954 تک پہلے نو سالوں میں ان کی صرف پانچ فلمیں ریلیز ہوئی تھیں جبکہ 1955/56 کے دوسالوں میں ظریف کی 12 فلمیں شائقین تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئیں! پاٹے خان کی قابلِ فخر پسندیدگی کے صرف چار مہینے بعد ہی ظریف کی فلم ماہی منڈا سینماؤں میں لگ گئی ، یہ بھی ایک شاہکار ثابت ہوئی ماہی منڈا کا شمار لولی وڈ کے ابتدائی دور کی بہترین فلموں میں ہوتا ہے!
لٹ لیا دل میرا چوٹھیاں قراراں نال
آیا نہ خیال تینوں دھوکہ کیتا یاراں نال
پیار نوں بیوپار سی بنانا،تے کیڑی گلیں پیار پا لیا
چُوٹھیئے جہان دیئے نی کچئیے زبان دئیے
عنائت حسین بھٹی کا یہ سدا بہار نغمہ بھی اسی فلم ماہی منڈا کا حصہ ہے
وے میں نار پٹولے ورگی……
زبیدہ خانم کی سندر میٹھی دھیمی آواز اور بابا جی اے چشتی کی مدھر تانیں سدھیر اور مسرت نزیر کا حسین سنگھم ماہی منڈا ہی میں ہے ! اور میگا سپر ہٹ گیت جو اس فلم ماہی منڈا میں ظریف پر پکچرائز ہوا عنائت حسین بھٹی کا گایا ہوا ،
رَناں والیاں دے پکنڑ پروٹھے تے چَھڑیاں دی اگ نہ بلے
آگ نہ بلے تے ساڈا دیوا نہ جلے، ہائے ربا وے ساڈی آگ نہ بلے
اب ظریف لاہور کی فلم انڈسٹری پر چھا چکے تھے اوپر تلے ہٹ فلمیں اور مقبول گیت دینے کی وجہ سے ہدایتکاروں کی گڈ لسٹ میں ان کا نام آچکا تھا 1956 میں فلم پینگاں میں ان کی آواز کا ایک اور گیت شائقین کے بے حد پسند آیا
او مائی ڈارلنگ …میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو
ظریف کا گایا اور ظریف پر ہی فلمایا ہوا یہ گانا وقت کا موسٹ پاپولر تھا !
پینگاں میں ہی کوثر پروین کا ایک انتہائی سریلا اور پیارا گیت بھی تھا جو آج تک ذہنوں سے محو نہیں ہوسکا
تینوں بُھل گیا ساڈیاں چاواں
تے اساں تینوں کی آکھنڑا
وے تینوں کی آکھنڑا
♦️ کوثر پروین لولی وڈ کے ابتدائی دور کی خوبصورت سریلی میٹھی مدھر آواز جو پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد کی ہیروئن آشا پوسلے ( اصل نام صابرہ سلطانہ) کی بہن تھیں اور اسی فلم کے میوزک ڈائریکٹر عنائت علی ناتھ کی بیٹی تھیں کوثر پروین کے شوہر بھی پاکستانی فلموں کے جانے مانے موسیقار تھے اختر حسین اکھیاں،
کوثر پروین کے دیگر مشہور گیتوں میں
او مینا نہ جانے کیا ہو گیا میرا دل کھو گیا …
بار بار ترسیں مورے نین….
سماں جب پیارا پیارا ہو
پیار کا دل کو سہارا ہو
کوئی ساتھی بھی دلارا ہو
تو طبعیت مچل ہی جاتی ہے (یہ گیت اداکارہ نغمہ پر پکچرائز ہونے والا پہلا گیت تھا ،جی ہاں اداکارہ نغمہ بیگم جنہوں نے بعد ازاں لولی وڈ پر برسوں راج کیا )
ایک لوری بھی ہے
راج دلارے……..!
او میری اکھیوں کے تارے
میں تو واری واری جاوں
♦️ آج سے تیس سال قبل میرے سامنے ایک ایسا واقعہ وقوع پزیر ہوا ،کہ جب بھی اس لوری کو کہیں سنوں یا یاد آئے تو یہ واقعہ آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتا ہے! ہوا کچھ یوں کہ آج سے تیس پینتیس سال پیشتر ہمارے خاندان کی مہندی کی تقریب میں ڈھولک بج رہی تھی ، گیت گائے جارہے تھے ہر سو قہقہے بکھر رہے تھے ،کہ تقریب کے ایک مہمان ایک پینسٹھ سالہ بزرگ نے ڈھولک مانگی اور گیت سنانے کی پیشکش کی ،احترام کے طور پر ڈھولکی انہیں دے دی گئی ،ان صاحب کا خاندان اور محلے میں بہت احترام تھا ، انہیں سب ماموں ماموں کہتے تھے، یہ خاندان بھر کے ماموں تھے! سنا تھا کہ بیس سال پہلے ان کا ایک بارہ تیرہ سالہ بیٹا کسی بات سے والدین کے ساتھ جھگڑ کر گھر سے ناراض ہو کر نکلا ،تو پھر کبھی واپس نہ آیا تھا ،
بہرحال ماموں نے جب ڈھولک بجائی تو اتنی خوبصورت کہ سب خوش ہوگئے لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہی کوثر پروین کی لوری گانا شروع کردی!
سارے جہان پر پھیلی ہے چاندنی
تیرے مکھڑے کے آگے مَیلی ہے چاندنی
تاروں کا روپ تو پہلے ہی ماند ہے
چندا کو میں کیا جانوں تو میرا چاند ہے
جھوم کے گاؤں او میری اکھیوں کے تارے
میں تو واری واری جاؤں ……..
راج دلارے…….
توہے دل میں سماوں توہے جھولا جُھلاوں
راج دلارے۔۔۔۔۔۔
او میری اکھیوں کے تارے
میں تو واری واری جاؤں….
ماموں ڈھولک بجاتے ہوئے لوری سنارہے تھے اور آنکھوں سے ساون بھادوں کی جھڑی لگی ہوئی تھی جو ان کی سفید ریش کو تر بتر کیے جا رہی تھی ،اور ان کے ساتھ مہندی کی تقریب میں شامل ہر عورت مرد بچیاں رو رہے تھے اور پھر لوری گاتے گاتے ماموں شدتِ جذبات و غم سے بے ہوش ہو گئے !یہ واقعہ دل پر ایسا نقش ہوا کہ اب جب بھی کبھی یہ لوری سماعتوں سے ٹکراتی ہے تو بے اختیار میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں! شاید میں یہ واقعہ کبھی نہ بھول پاؤں گا اور میری طرح اس محفل میں شریک کوئی بھی دوسرا مرد و زن بھی !!
کوثر پروین ایک لاجواب مغنیہ تھیں ، ان کے فن کا سورج جب عین نصف النہار پر چمک رہا تھا تو کوثر پروین عالمِ شباب میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئیں، عشروں قبل شاید کہیں پڑھا تھا کہ وہ دورانِ زچگی فوت ہوئیں تھیں، بہرحال یہ بات مصدقہ نہیں اور نہ ہی اس بارے میں کہیں سے تصدیق ہوسکی ہے ،
♦️ ظریف جی کے کریڈٹ پر ایک اور معرکۃ الآرا مووی
یکے والی بھی ہے یکہ ٹانگے کو کہتے ہیں ے یکہ اکثر پہلی جماعت کے قاعدے میں لکھا ہوتا ہے پڑھایا جاتا ہے ، اس فلم کے تقریباً سارے ہی نغمے سپر ڈپر ہٹ تھے یکے والی بھی ایک میگا ہٹ مووی تھی ، یکے والی 22 فروری 1957 کو ریلیز ہوئی اس کے ہدایت کار ایم جے رانا تھے ، اس کی مرکزی کاسٹ میں سدھیر اور مسرت نزیر شامل تھے دیگر اداکاروں میں نیلو الیاس کشمیری اجمل نزیر اور ظریف شامل تھے ،مو سیقی جی اے چشتی کی تھی ! یکے والی کے پروڈیوسر باری ملک تھے کہیں پڑھا تھا کہ یہ فلم ایک لاکھ روپے سے پایہ تکمیل کو پہنچی اور اس فلم نے چالیس لاکھ کا بزنس کیا تھا ،اسی فلم کے نفع سے محترم باری ملک صاحب نے باری اسٹوڈیوز تیار کیا 90 کنال کا باری اسٹوڈیوز رقبے کے اعتبار سے پاکستان کاسب سے بڑا فلم اسٹوڈیوز ہے باری ملک نے اداکارہ سلونی سے بھی شادی کی تھی ، سلونی اپنے وقت کی انتہائی باصلاحیت اور حسین مشہور ہیروئن اداکارہ تھیں !
فلم یکے والی دس رسیلے نغمات سے مرصع تھی !
زبیدہ خانم اور منیر حسین کی آوازوں میں ….
کلی سواری بھئی بھاٹی لوہاری بھئی
ھانڑ دیا منڈیا وے آکھاں دیا غنڈیا (زبیدہ خانم)
لک پتلا پتنگ میری ہرنی جئی اکھ …
پہلی پہلی واری مینوں دیور لینڑ آیا (عزرا سلطانہ زبیدہ خانم)
تیرے در تے آکے سجنا وے اسی جھولی خالی لے چلے
ریشم دا لا چہ لک وے (زبیدہ خانم عزرا سلطانہ نزیر بیگم)
تاہم یکے والی میں ایک گیت انتہائی شوخ اور طربیہ بھی تھا جو اداکار ظریف اور زبیدہ خانم کی آوازوں میں تھا انتہائی مشہور ہوا
آئی لوّ یو یو لوّ می
ساڈے ول تک تیرا جاندا اے کی
اب ظریف تمام ہم عصر مزاحیہ اداکاروں سے سبقت لے چکے تھے 1957 میں ظریف کی چھ فلمیں ریلیز ہوئیں! اگلے برس ظریف کی فلموں کی تعداد بڑھتے ہوئے 8 تک جاپہنچی ان میں سب سے قابلِ ذکر فلم انارکلی اور چھو منتر تھیں ! چھومنتر میں ظریف کا زبیدہ خانم کے سنگ گایا ہوا سدا بہار گیت بھی شامل تھا ،
برے نصیب میرے ویری ہویا پیار میرا
نظر ملا کے کوئی لے گیا قرار میرا
یہ گیت آج بھی روز اوّل کی مانند مقبول ہے اور اس گیت کی مقبولیت نے بھی ظریف کے مضبوط فلمی کیرئر کو مضبوط تر کردیا تھا!
1959 میں بھی ظریف 8 فلموں میں جلوہ گر ہوئے
جن میں کرتار سنگھ جیسی معرکۃ الآرا فلم بھی شامل تھی جس میں پاکستانی فلمی صنعت کا سب سے زیادہ سنا اور سب سے زیادہ بجایا جانے والا گیت شامل ہے
دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا ..۔۔۔ لیکن اگلا برس یعنی 1960 اندوہناک سال ثابت ہوا خاندان ظرافت کا یہ بانی لیجنڈری فنکار منور ظریف کے بڑے بھائی ،ظریف 30 اکتوبر سنہ 60کو دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے! حالانکہ اس وقت ان کی عمر صرف 35 برس تھی ! وفات کے بعد ظریف کی 8 مزید فلمیں ریلیز ہوئیں یوں بارہ سالہ فلم کیریئر میں ظریف کی مجموعی طور پر 47 فلمیں ریلیز ہوئیں
منوّر ظریف اپنے بڑے بھائی ظریف کی وفات کے بعد فلموں میں آئے ،حالانکہ منور بڑے بھائی ظریف مرحوم کی زندگی میں ہی فلموں میں کام کرنے کے متمنی تھے ،تاہم ظریف اس کے مخالف تھے۔ اس وقت منور ظریف کی عمر صرف 22 برس تھی ۔۔۔