Daily Roshni News

لوہا۔۔۔تحریر۔۔۔حامد ابراہیم

لوہا۔۔۔؟

)قسط نمبر(1

تحریر۔۔۔حامد ابراہیم

بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور ستمبر 2019

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔لوہا۔۔۔تحریر۔۔۔حامد ابراہیم)قارئین ! اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے قرآن کا سمجھنا آسان کر دیا ہے۔ اسی ضمن میں ان الفاظ کی مدد سے دوسری آیتیں تلاش کیجئے۔ یعلمون تعلمون، تعقلون، یذکرون، تتفکرون ، یا اولی الالباب اولی الابصار، فبای الاء ربکما تکذبان فھل من مذکر – قرآن کریم کی آیت کا مفہوم ہے کہ جولوگ ہماری صفات میں غور وفکر کرتے ہیں، ہم انہیں ضرور ہدایت دیں گے تا کہ ان پر تخلیق کے رموز ظاہر ہوں ۔

حامد ابراہیم صاحب مصوری اور خطاطی سے وابستہ ہیں۔ ان کے مضامین تحقیق و تفکر سے بھر پور ہیں ۔ مضمون غور سے پڑھئے تا کہ ذہن کی آبیاری ہو ۔ (ادارہ)

اللہ رب العالمین فرماتے ہیں: اور ہم نے لوہا نازل کیا۔ اس میں شدید سختی اور لوگوں کے لئے فوائد ہیں ۔ “ (الحدید : ۲۵)

لوہے کے خواص، اہمیت اور نوع انسانی کے لئے اس میں موجود فوائد کی نشان دہی قرآن کریم میں اختصار اور جامعیت کے ساتھ کی گئی ہے۔ لو ہا قدیم زمانہ سے آدمی کے استعمال میں ہے ۔ اس میں موجود متعدد خواص اور فوائد دریافت ہو چکے ہیں لیکن بہت کچھ منکشف ہونا باقی ہے۔ قارئین کرام ! لوہا کثیر الاستعمال دھات ہونے کے علاوہ ایک عجوبہ ہے ۔ وہ کیسے؟ لوہے کو بآسانی زنگ لگ جاتا ہے اس کے باوجود

یہ دھات کرہ ارض کی باقی تمام دھاتوں میں اہم ہے۔ اس کی طلب اور ضرورت سب سے زیادہ ہے۔ دیگر دھاتوں کی نسبت لوہے کی تخلیص (refining) 90 فی صد ہے۔ معمولی ملاوٹ سے پاک خالص لوہا نقر کی مائل سرمئی رنگ کی دھات ہے جس کی مخصوص چمک ہے۔ عام لوہے کے مقابلہ میں خالص لو ہے میں سختی بہت کم ہے ۔ عجیب بات ہے کہ لوہا اندر موجود سختی ، مضبوطی اور دوسری گونا گوں خصوصیات کا اظہار کار بن ، سلیکان، کرومیم اور درجنوں دھاتی یا غیر دھاتی عناصر کی معمولی مقدار سے کرتا ہے۔

خالص لو ہے میں انتہائی معمولی مقدار میں ( تقریباً دو فی صد ) کا ر بن شامل ہو جائے تو حاصل شدہ مرکب فولاد ( steel ) کہلاتا ہے ۔ فولاد کی کئی قسمیں ہیں جو کاربن سمیت دیگر عناصر سے مرکب ہوتی ہیں اور مختلف مقاصد کے لئے تیار کی جاتی ہیں۔ اگر لوہے کے ساتھ شامل کئے جانے والے عناصر کی نسبت دو فی صد سے زیادہ ہو تو اس مرکب کو بھرت (alloy) کہتے ہیں۔ ایک مثال اسٹین لیس اسٹیل ہے جس میں لوہا تقریباً 88.3 فی صد، کرومیم 10.5 فی صد اور کاربن 1.2 فی صد کے تناسب سے شامل ہے۔ یہ مقدار میں اسٹین لیس اسٹیل کی مختلف اقسام میں کم و بیش ہو سکتی ہیں۔ مثال سے وضاحت مقصود ہے کہ لوہے میں دوسرے دھاتی عناصر کو مخصوص درجہ حرارت اور معین مقداروں میں شامل کرنے سے بے شمار خصوصیات کے فولا داور

بھرت بنائے جاتے ہیں ۔ کسی میں بے پناہ بختی اور کسی میں لچک زیادہ ہے ۔ کسی میں زنگ سے محفوظ رہنے کی صلاحیت ہے اور کسی میں درجہ حرارت کے خلاف زبر دست مزاحمت ہے یعنی وہ دیر سے پگھلتے ہیں۔

لوہے کی خصوصیات کثیر الجہت ہیں۔ تقریباً تمام دھاتی عناصر کے خواص لو ہے میں مجتمع نظر آتے ہیں ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں جہاں لو ہے کو بیان کیا گیا ہے وہاں اس سے مراد کائنات میں موجود تمام دھاتی مادہ ہے۔ محققین نے زمین کے ماحولیاتی نظام میں جن عناصر کواب تک شناخت کیا ہے، ان کے بقول ان عناصر کی  تعداد 94 ہے ۔ ان میں دھاتی اور غیر دھاتی ٹھوس، دھاتی اور غیر دھاتی مائع اور کیسی عناصر شامل ہیں۔ عناصر کے جدول (چارٹ ) میں ہائیڈ روجن گیس پہلا عصر ہے جو انیمی اعتبار سے سادہ ترین اور سب سے ہلکا ہے جب کہ اس چارٹ میں یورینیم دھات 92 نمبر پر ہے۔

یورینیم کے مرکزه (nucleus) میں پروٹان کی تعداد 92 اور نیوٹران 146 ہیں یعنی کل 238 نیوکلیائی ذرات ( پروٹان + نیوٹران ) یورینیم کے مرکز میں موجود ہیں ۔ یہ ذرات مرکزہ میں رہ کر آپس میں انتہائی مضبوطی کے ساتھ پیوست ہیں ۔ اگر یورینیم کا مرکزه (nucleus) قدرتی یا مصنوعی تاب کاری کی بنیاد پر ٹوٹ جائے تو جن دو عناصر کی تخلیق ہوتی ہے وہ وزن کے اعتبار سے مجموعی طور پر یورینیم سے ہلکے ہوں گے ۔ نتیجہ میں مادہ کا زیادہ تر حصہ توانائی میں تبدیل ہو جائے گا ۔ یہی وہ توانائی ہے جو یورینیم پر مشتمل ایٹم بم ، یا ایٹمی ری ایکٹر سے حاصل ہوتی ہے۔ یورینیم یا اس سے کم ایٹمی نمبر کے قدرتی تاب کار عناصر میں تاب کاری اس لئے ہے کہ ان کے ایٹمی مرکزوں میں ذرات کی باہمی پیوسگی کم زور ہے۔ چناں چہ یہ ایٹم قدرتی طور پر خاص عرصہ میں ٹوٹ کر دوسرے

عناصر میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ اگر ہم چاہیں تو ان عناصر کو بھی تو ڑ سکتے ہیں جن میں تاب کاری نہیں ہے لیکن اس کے لئے کثیر مقدار میں توانائی درکار ہے۔

 جیسے جیسے ہم عناصر کے چارٹ میں کم وزن عناصر کی طرف آتے ہیں ، ایٹموں کو توڑنے میں درکار توانائی کی مقدار بڑھتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ جب لو ہے کا نمبر آتا ہے تو اسے توڑنے کے لئے اتنی توانائی کی ضرورت پڑتی ہے جو جوہری بم سے حاصل ہونے والی توانائی سے زیادہ ہے۔ یعنی لوہے کے ایٹم کو توڑنے کے لئے زیادہ تو انائی خرچ کرنا پڑتی ہے ۔ نتیجہ میں اس سے کم توانائی خارج ہوتی ہے۔ لہذا اضافی توانائی کا حصول ممکن نہیں۔

جوہری انشقاق جسے ایٹموں کے توڑنے کا عمل کہتے ہیں، کے علاوہ جو ہری فیوژن سے بھی کثیر مقدار میں توانائی حاصل ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ہائیڈ روجن کے دوائیٹوں کے مراکز یک جان (fuse) ہو جائیں تو ہیلیم کا نسبتا بھاری مرکز تخلیق پاتا ہے۔ اس عمل میں بھی بے پناہ توانائی خارج ہوتی ہے ۔ ہلکے ایٹموں کا آپس میں یک جان ہو کر بھاری ایٹم تخلیق کرنا عمل ایتلاف ( نیوکلیئر فیوژن ) کہلاتا ہے۔ جیسے جیسے ہم بھاری عناصر کی طرف بڑھتے ہیں، فیوژن ( عمل ایتلاف) سے حاصل ہونے والی توانائی کم ہو جاتی ہے۔ اسی طرح لوہے کے ایٹموں کو آپس میں یک جان کرنے کی صورت میں حاصل شدہ توانائی، خرچ شدہ توانائی سے کم ہوگی۔

یعنی دونوں طرح کے نیوکلیائی تعاملات ( انشقاق اور ایتلاف کی صورت میں لوہا ایسا عنصر ہے جس کے ایٹموں کو توڑنا یا آپس میں یک جان کر کے مزید بھاری عناصر بنا نا سب سے مشکل ہے۔

لوہا واحد عنصر ہے جس کے ایٹموں کے مراکز میں موجود ذرات ( پروٹان + نیوٹران ) آپس میں سب سے زیادہ مضبوطی سے جڑے ہیں۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھئے کہ لوہے کے ایٹم باقی تمام عناصر کے ایٹموں سے زیادہ مضبوط اور قائم رہنے والے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ستاروں کی مدت حیات ( عمر ) کا اندازہ لو ہے کی مقدار سے کیا جاتا ہے۔ ستاروں میں عمل ایتلاف ( فیوژن) کے نتیجہ میں ہلکے عناصر بھاری میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ نتیجہ میں حاصل توانائی سے ستارہ کی روشنی اور حرارت برقرار رہتی ہے ۔ لیکن جب ہلکے عناصر کا ایندھن ختم ہوتے ہوئے ایتلاف کے عمل میں لوہا بنتا ہے تو ستارہ کی بھٹی میں خرچ ہونے والی توانائی کی مقدار زیادہ اور حاصل شدہ توانائی کم ہو جاتی ہے۔ ستارہ کی بتدریج موت واقع ہو جاتی ہے ۔ ستاروں کے حوالہ سے محققین کا یہ نظریہ اگر چہ مفروضہ سے زیادہ نہیں ہے، لیکن اس سے دھاتوں میں لوہے کے منفرد مقام کااندازہ ہوتا ہے۔

بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور ستمبر 2019

Loading