لڑکیوں اور عورتوں کے ساتھ خراب سلوک دوزخ میں لے جاسکتا ہے؟
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔۔ لڑکیوں اور عورتوں کے ساتھ خراب سلوک دوزخ میں لے جاسکتا ہے؟)دنیا بھر میں سماجی، معاشی، سیاسی امور میں خواتین کی شمولیت میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اموپر خانہ داری، بچوں کی پرورش و تربیت کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں، دفتروں، کھیتوں، فیکٹریوں میں خواتین مؤثر کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں۔ فوج خالصتاً مردانہ شعبہ سمجھا جاتا ہے لیکن اب فوج کے مختلف شعبوں میں بھی خواتین زیادہ شامل ہیں۔ وطن عزیز پاکستان میں زندگی کے مختلف شعبوں میں خواتین کی شمولیت کا تناسبروز بروز بڑھ رہا ہے۔
تعلیم ، معاشی سر گرمیوں اور مملکت کے انتظام میں خواتین کی شمولیت کے حوالہ سے معاشرہ کا ایک طبقہ شدید تحفظات بھی رکھتا ہے۔ ہمارے معاشرہ میں بعض لوگ عورتوں کے بارے میں شدت پسندانہ نظریات کے حامل ہیں۔ اسلام کے واضح احکامات اور فرامین کے باوجود آج کے مسلمان معاشروں میں بھی بعض لوگ عورت کو ایک عصور معطل اور مرد کا مکمل طور پر محتاجبنائے رکھنے کے حامی ہیں۔
بر صغیر کے معاشروں میں قبائلی یا جاگیر دارانہ نظام، پنچایت یا برادری کے بعض فیصلوں کے ذریعے عورت کی تذلیل کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ ان روایات کے سر چشمے عورتوں کو حقیر اور برائیوں کا سبب سمجھنے ، طاقت ور کی بالا دستی، کم زور کی توہین اپنا حق سمجھنے اور دیگر کئی منفی اعتقادات میں ہیں۔قصور کسی مرد کا ہو، ظالمانہ روایات کے تحت بننےوالے کئی ضابطوں میں اس کا تاوان عورت کو ہی ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس تاوان کا سب سے عام ذریعہ یہ ہے عورت کی بے حرمتی کر دی جائے یا اسے کسی کے ساتھ زبر دستینکاح میں دے دیا جائے۔
بر صغیر کے معاشروں میں سسرال میں داماد کا مقام بر تر اور سر بلند ہے۔ چلیں یہ اچھی بات ہے لیکن کئی گھرانوں میں بہو کو سسرال میں کمتر اور پیر کی جوتی کیوں سمجھا جاتا ہے…..؟
شوہر سر کا تاج ، بیوی پیر کی جوتی۔یہ ہے صنفی امتیاز کی ایک جھلک۔ اس امتیاز کو رسوم اور روایات کے نام پر سماجی تحفظات بھی دیئے گئے ہیں۔ برصغیر میں یہ روایات در سوم یار واج صدیوں سے قائم ہیں۔ ستم کی بات یہ ہے کہ کئی لوگ عورتوں کے بارے میں اپنے منفی نظریات کو مذہب کے لبادے میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مرد ہو یا عورت دین اسلام نے سب کے حقوق واضح فرمادیئے ہیں۔ عورت کو بہت زیادہ عزت و تکریم سے نوازا گیا ہے۔ اعمال کے اجر کے لحاظ سے عورت اور مرد میں کسی تخصیص کا کوئی ذکر تک نہیں ہے ۔ ہر ایک کے لئے اس کے اپنے اعمال کے مطابق بدلہ ہے۔
سورہ آل عمران میں ہے:ترجمہ : ” اللہ نے ان کی دعا قبول کرلی اور فرمایا کہ میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو خواہ وہ مرد ہو یاعورت ضائع نہیں کرتا“۔سور والنساء میں ارشاد ہوتا ہے:
ترجمہ: اور جو اچھے کام کرے گا وہ مرد ہو یا عورت اور وہ صاحب ایمان بھی ہو تو ایسے لوگ (یعنی ایسے مرد اور عورتیں بہشت میں داخل ہوں گے اور ان کی تیل برابر بھی حق تلفی نہیں کی جائے گی“۔سور کا احزاب میں ارشاد ہوتا ہے :
ترجمہ : ” تحقیق مسلمان مرد اور مسلمان عور تیں۔ اور ایمان دار مرد اور عور تیں۔ اور بندگی کرنے والے مرد اور عور تیں۔ اور بچے مرد اور کچی عور تیں۔ اور اللہ کے آگے جھکنے والے مرد اور عور تیں۔ صابر مرد اور صابر عورتیں۔ اور خیرات کرنے والے مرد اور عور تیں۔ اور روزہ رکھنے والے مرد اور عور تیں۔ اپنی عصمت کی حفاظت کرنے والے مرد اور عور تیں۔ اللہ کو بکثرت یاد کرنے والے مرد اور عور تیں۔ اللہ نے اُن کے واسطے مغفرت اور بڑا درجہ رکھا ہے۔“حضرت محمد علی ای کریم نے طبقہ خواتین کو بہت حقوق عطا فرمائے۔ عورتوں کی عزت واحترام کا حکم دیا۔ مرد و خواتین سب کے حقوق و فرائض واضع کر دیے گئے ہیں۔ ہر شخص پر دوسروں کے حقوق کا احترام لازم ہے۔ مردوں کو عورتوں کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔ ہم اپنے معاشرے میں دیکھتے ہیں کہ کئی لوگ عورتوں کے حقوق ادا کرنے میں جانتے بوجھتے یا سہواً شدید کوتاہی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ عورتوں کے حقوق غضب کر لینا کہیں خاندانی رسوم و رواج کے نام پر ہوتا ہے، تو کہیں بیٹوں اور بھائیوں کے لیے محبت اورشفقت کے نام ہے۔ …
.کئی بیٹیاں، کئی بہنیں اپنے والدین کے ہاتھوں ہونے والی کئی نا انصافیوں کو خاموشی سے سر جھکاتے ہوئے تسلیم کر لیتی ہیں۔ اپنی حق تلفی کو اس طرح قبول کر لینے والی لڑکیوں اور خواتین کو اچھی بیٹیاں اور اچھی بہنوں کے القاب دے دیے جاتے ہیں۔ اپنے شرعی حق پر اصرار کرنے والی بیٹیوں اور بہنوں کو ان کے اپنے گھر میں زبان دراز، والدین اور بھائیوں کا ادب اور خیال نہ کرنے والی خاتوں جیسے القابات سے پکارا جاتا ہے۔ اسلامی تعلیمات سے معلوم ہوتا ہے کہ بیٹیوں کے ساتھ اچھا سلوک ایک مسلمان کے لیے جنت میں داخلے کا ذریعہ بن جاتا ہے، اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوا کہ بیٹیوں کی حق تلفی کرنے والوں کو آخرت میں سختجواب دہی کا سامنا ہو گا۔
جس کام کی وجہ سے آدمی جنت کا حق دار بنتا ہے اس کے بر خلاف عمل کرنے کا نتیجہ کیا ہو گا ….؟ گھر میں اور گھر سے باہر خواتین کے ساتھ عزت و احترام طبقہ خواتین کو اطمینان اور تحفظ کا احساس دیتا ہے۔ جس گھر میں ایک عورت خود کو مطمئن، محترم اور محفوظ سمجھتی ہو وہان میاں بیوی میں بہت خوشگوار اور مستحکم تعلقات فروغ پاتے ہیں۔ ایسے میں گھر کا ماحول گویا جنت کی مثال بن جاتا ہے۔جس گھر میں عورتوں کی بے عزتی کی جاتی ہو، اسے قدم قدم پر طعنے دیئے جاتے ہوں، جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہو، عورت کو شدید ذہنی دباؤ میں رکھا جاتا ہو وہاں احساس محرومی ، تذلیل اور دکھوں کی وجہ سے گھر کا ماحول بہت متاثر ہوتا ہے۔ ایسے کئی گھرانوں کا ماحول گو یاد وزخ کا منظر پیش کر رہا ہوتا ہے۔
اسلام نے عورت کو عزت و احترام اور حقوق سےنوازا۔ عورت کے تعاون اور ایثار کے بناء گھر اور معاشرے کامیاب نہیں ہوا کرتے ، عورتوں سے حسن سلوکاسلامی تعلیمات کا حصہ ہیں۔اسلام نے عورت کو اتنی عزت دی کہ جنت کو ماں کے قدموں کے نیچے بتایا گیا ہے۔ ماں باپ کی نافرمانی کرنے والے اور انہیں تکلیف دینے والا جنت سے محروم یعنی دوزخی قرار دیا گیا۔وہ شخص بد قسمت ہے جس کے والدین ہو اور وہ ان کی خدمت نہ کر کے جنت سے محروم ہو جائے۔“ [مسلم]
قبل از اسلام عرب میں لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کا رواج تھا، لڑکی کی پیدائش کو باعث عار اور منحوس سمجھا جاتا، اللہ تعالی نے قرآن میں اس عمل کی انتہائی سخت الفاظ میں مذمت فرمائی ۔ اس معصوم کے ساتھ کی گئی ظلم و زیادتی پر جہنم کی وعید سنائی گئی، بیٹی کے ساتھ تحقیر آمیز اور برا سلوک کرنے والا قیامت کے دنسخت جواب دہی کا سامنا کرے گا۔بیٹیوں کے ساتھ اچھے سلوک کرنے پر جنت کیبشارت دی گئی۔ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریم ملا ہم نے ارشاد فرمایا: جس مسلمان کی دو بیٹیاں ہوں، وہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے تو وہ دونوں بیٹیاں اس کے لیے جنت میں داخلے کا ذریعہ بن جائیں گی۔ [ابن حبان ] حضرت عائشہ سے روایت ہے رسول اللہ میریم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے بیٹیوں کی ذمہ داری لی، ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو یہ بیٹیاں اس کے لیے دوزخ کی آگ سے بچاؤ کا سامان بن جائیں گی [ بخاری] حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بیشک اللہ تعالی نے تم پر حرام فرما دیا ہےمانوں کو ایذا دینا، اور بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا۔ [مسلم]
ظہور اسلام سے قبل عورت کا درجہ بحیثیت بیوی بہت بہت تھا۔ اس کی کوئی ذاتی حیثیت نہیں تھی ۔ وہ زندگی کے ہر مرحلے میں مردوں کی محکوم اور دست نگر تھی ،رسول اللہ صلی علی کریم نے عورتوں کا درجہ بلند کیا۔ ان کے حقوق متعین کیے ، عورت کو والدین کے ساتھ شوہر کے ورثے میں بھی وراثت میں حصہ دار بنایا، عورت کو ملکیت کا حق دیا گیا، بیوی اور شوہر میں حقوق کی مساواتقائم کی بیوی کو شوہر کی رفیق زندگی بنانےمومنین میں کامل ایمان والا وہ شخص ہے جو اپنےاخلاق میں سب سے اچھا ہو اور تم میں سے زیادہ بہتر وہ لوگ ہیں جو اپنی بیویوں کے لئے سب سے بہترہوں۔“ [ترمدی]
رسول الله ﷺنے ارشاد فرمایا ” قیامت کے دن مومن کی میزان عمل میں سب سے زیادہ وزنی اور بھاری چیز جور کھی جائے گی وہ اس کے اچھے اخلاقہوں گے “۔
یادرکھیے ! بیوی کے ساتھ اچھے سلوک کا شمار حسن اخلاق میں ہوتا ہے، جن گھروں میں شوہر اپنی بیوی کو مارتے پیٹتے ہیں، ان کی بے عزتی کرتے رہتے ہیں، ان گھروں سے برکتیں اٹھنے لگتی ہیں۔ ہمیں سب انسانوں کے ساتھ عزت و محبت والا رویہ اختیار کرنا چاہیے تاہم اپنے زیر کفالت افراد کے ساتھ ہمارا رویہ زیادہ شفقت لیے ہوئے بھر پور عزت واحترام والا ہونا چاہیے۔ خاص طور پر عورت کی بہت زیادہ عزت کرنا لازم ہے۔ عورت کی عزت کرنا مرد کی اعلیٰ شخصیت کا اظہار ہے۔ اپنی عورت کی عزت کر نامرد کی روزی میں برکت کا ذریعہ بھی ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ دسمبر 2019