لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم
رشتوں میں رکاوٹ بن رہی ہے؟
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )تعلیم حاصل کرنا ہر مرد و عورت کا حق ہے، تعلیم انسان کی شخصیت کو نکھارتی ہے اور زندگی کے سفر میں اس کے لیے آسانیوں کا سبب بنتی ہے۔ ایک ناخواندہ یا ایک کم پڑھی لکھی لڑکی کی نسبت ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی یقیناً ایک بہتر شخصیت کی مالک ہو گی۔ اس کے لیے عملی زندگی میں کامیابیوں کے امکانات زیادہ ہوں گے۔ لیکن یہ ایک تلخ حقیقیت ہے کہ ہمارے معاشرے میں کئی لڑکیاں محض اعلی تعلیمیافتہ ہونے کی وجہ سے ہی ازدواجی خوشیوں سے محروم ہو رہی ہیں۔جی ہاں! اعلیٰ تعلیم کی وجہ سے کئی لڑکیوں کے رشتے مسترد ہو چکے ہیں۔ اپنے بیٹے کے لیے چاند سی دلہن تلاش کرنے میں مصروف کئی ماؤں کا کہنا ہے کہ ماسٹر ز کرتے کرتے لڑکیوں کی عمر بہت زیادہ ہو جاتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ہمیں تو اپنے بیٹے کے لیے اٹھارہ بیس سال عمر کی لڑکی چاہیے۔
گریجویٹ یا ماسٹر ز کر لینا بعض عورتوں کی نظر میں لڑکیوں کی زیادہ عمر ہونے کی نشانی بن جاتا ہے۔ اس لیے بعض گھرانوں میں لڑکیوں کو انٹر سے آگے نہیں پڑھایا جاتا۔ ان لڑکیوں کی ماؤں کا کہنا ہوتا ہےکہ رشتے کےلیے آنے والی عورتوں کو جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ لڑکی نے انٹر کیا ہے تو انہیں عمر کے حوالے سے کچھ اطمینان محسوس ہوتا ہے۔ ورنہ ابتدائی مرحلے میں ہی بات ختم ہو جاتی ہے۔
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ لڑکی کا زیادہ پڑھا لکھا ہونا سے زیادہ بولڈ اور با اختیار بنانے کی ترغیب دیتا ہے۔
ان عورتوں کا کہنا ہے کہ زیادہ پڑھی لکھی لڑکیاں ساس کی تابع دار بن کر نہیں رہتیں اور شادی کے بعد ہر بات میں اپنی مرضی چلانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ عورتوں کے کم پڑھے لکھے شوہر بھی بعض اوقات اپنی بیوی پر بہت زیادہ روک ٹوک کرتے ہیں۔ احساس کمتری میں مبتلا کئی مرد اپنی زیادہ پڑی لکھی بیگم کو خود سے نیچا دکھانے کے لیے انہیں بات بے بات کچھ نہ کچھ سناتے رہتے ہیں۔ ان کی عزت نفس مجروح کرتے رہتے ہیں۔
پڑھی لکھی عورت کو کم تعلیم یافتہ شوہر کے ہاتھوں ذلیل ہوتے دیکھ کر زیادہ پڑھی لکھی کئی لڑکیاں شدید خوف زدہ ہو جاتی ہیں اور اپنے لیے آنے والے کم پڑھے لکھے لڑکوں کے رشتوں پر خوف و تشویش میں ہی مبتلا رہتی ہیں۔
کئی عورتیں چاہتی ہیں کہ ان کا شوہر ان سے کئی لحاظ سے بہتر ہو۔ یعنی لڑکے کا قد لڑکی سے زیادہ ہو ، لڑکے کی تعلیم لڑکی سے زیادہ نہ ہو تو کم بھی نہ ہو۔ ان لڑکیوں کی یہ خواہش بھی اپنے لیے آنے والے کم پڑھے لکھے لڑکوں کے رشتوں کی قبولیت میں حارج ہوتی ہیں۔ سرکاری ملازمت میں اکثر لوگ گریڈ کے بارے میں حساس (Grade Conscious) ہوتے ہیں، گریڈ سترہ کی ایک لڑکی کے لیے گریڈ 15 کے لڑکے کا رشتہ قبول کرنا آسان نہیں ہو گا۔ تاہم ہر معاملے میں استشنیٰ تو بہر حال ہوتا ہے۔ اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز ایک خاتون کی شادی میں تاخیر ہوتی جارہی تھی۔ ان کے لیے ایک نان گزینڈ سرکاری ملازم لڑکے کا رشتہ آیا۔ بہت اصرار کے بعد ان صاحبہ نے اس رشتے کے لیے حامی بھر لی۔ شادی کے دو ہفتوں بعد ہی نان گزیٹڈ دولہا نے اپنی بیگم سے کہا کہ گھر پر تم خود کو افسر نہ سمجھنا یہاں میرا حکم چلے گا۔ جو میں کہوں وہ تمہیں کرنا ہو گا، حالانہ ان خاتون نے تو سسرال میں جاکر اپنی افسری کا کوئی رعب جمایا ہی نہیں تھا۔
دراصل اس مرد کا اپنا احساس کمتری اسے اپنی بیوی کو ذہنی کچوکے لگانے پر ابھار رہا تھا۔ بعض اندازوں کے مطابق پاکستانی معاشرے میں دس لاکھ سے زائد بڑی عمر لڑکیوں کے والدین اپنی بیٹیوں کے لیے مناسب رشتوں کے انتظار میں ہیں۔ان میں سے اکثر لڑکیوں نے سائنس، بزنس، ہیومینٹیز میں گریجویشن یا ماسٹرز کیا ہوا ہے۔ ایک بڑی تعداد ڈاکٹر ز اور انجینئرز کی ہے۔
بعض جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ کم پڑھی لکھی لڑکیوں کی شادی جلد ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شادی کے وقت ان کی عمر اٹھارہ سے بیس بائیس سال کے درمیان ہوتی ہے۔ جبکہ گریجویشن کرتے کرتے کئی لڑکیوں کی عمر تیس جو ہیں سال ہو جاتی ہے۔ معاشرے میں یہ صورتحال دیکھتے ہوئے کچھ خواتین کا کہنا ہے کہ کالج میں تعلیم کے دوران لڑکیوں کے اچھے رشتے آجائیں تو حصول تعلیم پر اصرار کرتے ہوئے رشتے رد نہیں کرنا چاہیں۔ پاکستانی معاشرے کے اہم ترین بڑے مسائل کا ذکر کیا جائے تو ہمارے سماج میں جو مسئلہ سر فہرست ہو گا وہ لڑکیوں کی شادی میں تاخیر ہے۔ ہمارے ملک میں جن لڑکیوں کی شادی میں تاخیر ہو رہی ہے ان میں ایک بڑی تعداد اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیوں کی ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیوں کے لیے ایک اور بڑا معاملہ شادی کے بعد اپنے پروفیشن سے عملی طور پر وابستہ رہنا ہے۔
لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم کس حد تک حاصل کرنی چاہیے …؟ کیا ایک لڑکی گھرداری اور کیرئیر ایک ساتھ بآسانی چلا سکتی ہے۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیاں اچھی بیوی، اچھی بہو اور اچھی ماں بنیں گی۔ لیکن عملاً لڑکیوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کی پسندیدگی کی شرح کیا ہے….؟ تعلیم کو لڑکی کے لیے اعزاز اور فخر کا باعث ہونا چاہیے یا اعلیٰ تعلیم لڑکیوں کے لیے احساس زیاں اور شرمندگی کا سبب بن رہی ہے…..؟ اب کچھ ان عوامل کا جائزہ لیتے ہیں جن میں صحیح طرز فکر نہ ہونے کے باعث یہ مسئلہ بڑھتا گیا، عام طور پر ہمارے معاشرے میں یہ تصور بھی قائم ہے کہ لڑکیاں اگر بالغ ہو جائیں تو ان کی شادی کر دینی چاہیے اور لڑکےوالے بھی اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ لڑکی کم عمر ہوں۔ لیکن اس دور میں ہر لڑکی کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ بھی تعلیم حاصل کرے۔ اس طرح اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے کرتے ہر لڑکی | بائیس سال سے پچیس سال کی ہو جاتی ہے۔ ایسی ) لڑکیوں کے رشتوں کو یہ کہہ کر انکار کر دیا جاتا ہے کہ 1 لڑکی کی عمر زیادہ ہے۔ یوں لڑکیوں کی تعلیم بھی ان کے ” رشتوں میں رکاوٹ بن جاتی ہے ، حالانکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک پڑھی لکھی لڑکی کسی بھی گھرانے کا روشن مستقبل ہوتی ہے اور ایک پڑھا لکھا خاندان بنانے میں مددگار ہوتی ہے۔
اس سلسلے میں ایک اور خاتون کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرے میں آج لڑکیوں کی شادی نہ ہونے کی بڑی وجہ یہی ہے کہ والدین بروقت فیصلہ نہیں کر پاتے اور پچاس فیصد والدین خود اس مسئلہ کے ذمہ دار ہیں۔ جب لڑکیوں کے رشتے آتے ہیں تو والدین یہ کہہ کر منع کر دیتے ہیں کہ لڑکی ابھی تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ تعلیمی مراحل کی تکمیل کے بعد اس کے رشتے کا سوچیں گے۔ کچھ والدین بڑی لڑکی کا رشتہ طے نہ ہونے کی وجہ سے چھوٹی لڑکی کے آئے ہوئے رشتوں کو ٹھکرا دیتے ہیں اور یوں بھی بہت سا اہم وقت بیت جاتا ہے۔
کچھ گھرانے بہتر سے بہتر کی تلاش میں رہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ اپنی لڑکیوں کی شادیاں ایسے گھرانے میں کریں جہاں انہیں زندگی کی زیادہ سے زیادہ سہولیات میسر ہوں۔ بسا اوقات یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی مناسب بر ملنے کے بعد لڑکی والے چھان بین میں کثیر وقت صرف کر دیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ جواب دینے میں اتنی دیر کر دیتے ہیں کہ اس عرصے میں لڑکے والوں کو اس سے بہتر کوئی اور رشتہ مل جاتا ہے۔
عام طور پر لڑکیاں چاہتی ہیں کہ ان کا جیون ساتھی قد کاٹھ میں مالی پوزیشن میں ، تعلیم میں ان سے زیادہ ہو ۔ اب سائنس گریجویٹ یا ماسٹر ز لڑکی کے لیے انٹر پاس لڑکے کا رشتہ آئے تو عام طور پر ایک لڑکی بہت خوش دلی سے اس رشتے پر تیار نہ ہو گی۔ لڑکی چاہے گی کہ لڑکا اس سے زیادہ تعلیم یافتہ نہیں تو کم از کم اس کے برابر کا تعلیم یافتہ تو ہو۔ آج کل ڈیمانڈ ہے کہ لڑکی ایم۔ اے پاس ہے تو لڑکا بھی ایم۔ اے پاس ہی ہونا چاہیے۔ اسی طرح جاب والی لڑکیوں نے اپنے معیارات کو بہت بلند کر دیا ہے۔ کئی لڑکیاں ایک آئیڈیل Situation کے انتظار میں گزار دیتی ہیں اور ان کے بالوں میں اترنے والی چاندی انہیں وقت گزرنے کا احساس دلاتی ہے۔
لڑکی چاہتی ہے کہ اس کا ہونے والا شوہر اس سے بڑے عہدے پر یا اس کے برابر عہدے پر ہو۔ اسی طرح تنخواہ کا معاملہ ہے۔ لڑکی چاہے گی کہ اس کے شوہر کی تنخواہ اس سے زیادہ یا اس کے برابر ہو ۔ فرض کریں کہ ایک گریجویٹ لڑکی کی تنخواہ پچاس ہزار روپے ماہانہ ہے ۔ اس لڑکی کے لیے ایک ایسےلڑکے کا رشتہ آتا ہے جس کی تعلیم میٹرک یا انٹر ہو اور اس کی تنخواہ میں ہزار ہو تو ایسا رشتہ لڑکی کے لیے کوئی بہت زیادہ خوشی کیا سبب نہ بنے گا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لڑکی بہتر رشتوں کی توقع میں اس رشتے سے انکار کر دے۔
لڑکا تعلیم اور سیلری میں لڑکی کے برابر یا اس سے برتر ہو …. اکثر لڑکیوں کی یہ سوچ بھی کئی گھرانوں میں رشتوں میں تاخیر کا سبب بن رہی ہے۔
بعض خاندانوں اور برادریوں میں خاندان سے باہر یا برادری سے باہر رشتے کرنے کا رواج نہیں ہے ۔ اب اگر اس خاندان میں یا برادری میں لڑکوں کی کمی ہے یا ان برادریوں کی تعلیم یافتہ لڑکیوں کے لیے برادری میں پڑھے لکھے لڑکے نہیں ہیں تو وہاں بھی تعلیم
یافتہ لڑکیوں کے رشتوں میں تاخیر ہو رہی ہے۔
بے شک آج کل لڑکیاں تعلیم کے میدان میں لڑکوں سے آگے ہیں مگر موجودہ صورتحال کے تناظر میں انہیں اپنے سے کم تعلیم یافتہ شخص سے شادی پر یکسر انکار کا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے بلکہ تعلیم کے علاوہ دیگر معاملات بھی زیر غور لا کر کوئی فیصلہ کرنا چاہیے۔ اسی طرح اگر لڑکا مالی طور پر مستحکم نہیں ہے مگر بر سر روزگار تو ہے اس پر لڑکی کو اس کی مالی پوزیشن کے ساتھ Compromise کرنے کا سوچنا چاہیے۔ گزشتہ میں پچیس برسوں میں لڑکیوں کی بڑی تعداد اعلیٰ تعلیم کے حصول میں بھی آگے آئی ہے۔ لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد صرف اس لیے ڈگری کالجز یا یونیورسٹیز میں پڑھ رہی ہے کہ ابھی ان کی شادی نہیں ہوئی۔ اگر میٹرک یا انٹر کے بعد ان کے لیے مناسب رشتے آتے تو شاید کئی والدین محض لڑکی کی تعلیم کی = خاطر ان رشتوں کو انتظار کا نہ کہتے۔
لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے رہنے کی وجہ کچھ بھی ہو، بہر حال یہ ایک اچھا کام بھی بعض جگہ لڑکیوں کی شادی میں تاخیر کا سبب بنا ہے۔ والدین کو بھی چاہیے کہ وہ لڑکیوں کو تعلیم دلواتے وقت یہ ضرور دیکھ لیں کہ لڑکیوں کو اس تعلیم کا فائدہ کیا ہو گا اور اگر وہ تعلیم حاصل کر کے ملازمت حاصل کرنا چاہیں تو اس میں کامیاب بھی ہوں گی یا نہیں ….؟ اس مسئلے کے حل کے لیے زیادہ توقعات تو اجتماعی کوششوں سے وابستہ ہیں تاہم انفرادی سطح پر کی جانے والی کوششوں سے کچھ نہ کچھ مثبت نتائج تو یقینا بر آمد ہوں گے۔
لڑکیوں کے رشتوں میں تاخیر میں یہ دو وجوہات بھی ہو سکتی ہے۔ ایک یہ کہ لڑکے کی تعلیم کم ہے لیکن آمدنی معقول ہے۔ دوسرے یہ کہ لڑکے کی تعلیم تو مناسب ہے لیکن اس کا عہدہ لڑکی کے عہدے سے دو تین درجے کم ہے۔ ایسی کسی بی اے ، بی ایس سی یا ماسٹر ز لڑکی کے لیے کم تعلیم یافتہ لیکن بر سر روزگار، صحت مند اور اچھے گھرانے کے لڑکے کا رشتہ آئے تو صرف اس وجہ سے کہ لڑکے کی تعلیم کم ہے، اچھے رشتے سے انکار کرنا مناسب نہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیوں کے لیے کم پڑھے لکھے لڑکوں کے لیکن اچھے رشتوں پر غور نہ کرنے کی عمومی روش کی موجودہ حالات میں حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہیے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ہمارے سماجی رویوں میں تبدیلی لائی جائے۔ ہمارے ہاں رشتے طے کرتے وقت لڑکے والے ایم اے یا ایم ایس سی لڑکی ڈھونڈتے ہیں تو اگر انہوں نے ملازمت نہیں کروانی تو پھر ماسٹر ڈگری ہولڈر لڑکی کا رشتہ ڈھونڈنے کا کیا فائدہ….؟
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جولائی2019