Daily Roshni News

مائنڈ سائنس۔۔۔ تحریر۔۔۔ ڈاکٹر قاریوسف عظیمی۔۔۔۔3قسط نمبر

مائنڈ سائنس

انسان کو قدرت سے ملنے والی بے شمار صلاحیتوں کا علم

تحریر۔۔۔ ڈاکٹر قاریوسف عظیمی

3قسط نمبر

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ مائنڈ سائنس۔۔۔ تحریر۔۔۔ ڈاکٹر قاریوسف عظیمی) تو انہیں بھی خوش گوار حیرت ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کس طرح ہوتا ہے ؟….

اس کی توجیہہ یہ ہے کہ جب آپ کا کوئی دوست یا عزیز آپ کے بارے میں سوچ رہا ہوتا ہے تو اس کی سوچ یا یاد بھی خیالات کی لہروں کی شکل میں اس کے ذہن سے فضا میں سفر شروع کر دیتی ہے۔ اگر کسی شخص کے خیالات کی لہروں کی آپ کے خیالات کی لہروں سے ہم آہنگی ہوگی یا با الفاظ دیگر فریکوئینسی مل رہی ہو گی تو آپ کا ذہن ان لہروں کو وصول کرلے گا۔

خیالات کی یہ لہریں انتہائی تیز رفتاری سے سفر کرتی ہیں۔ اس تیز رفتاری کے باعث ان کے لیے فاصلے کوئی اہمیت نہیں رکھتے چنانچہ ہو سکتا ہے کہ آپ کا دوست برطانیہ یا امریکہ میں بیٹھا آپ کو یاد کر رہا ہو اور آپ پاکستان میں بیٹھے اس کی یاد محسوس کر رہے ہوں۔

خیالات کی وصولیابی کی ایک اور قسم بھی ہے اسے ہم کسی واقعہ کی پیشگی اطلاع کہہ سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ نے کبھی کسی سے سنا ہو کہ ان کا دل بہت گھبراتا ہے لگتا ہے کہ کچھ ہونے والا ہے۔ اس گھبراہٹ کے دوران تھوڑی ہی مدت میں انہیں کسی سانحہ کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ کسی قریبی شخصیت سے اچانک جدائی، کوئی ناگہانی حادثہ یا کسی مصیبت کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ اس حادثہ سے کچھ دیر پہلے متعلقہ شخص کو ہونے والی گھبراہٹ دراصل اس پیغام کے سبب تھی جو اس کا ذہن آفاقی ذرائع سے وصول کر رہا تھا۔ اس ”پیغام کے بارے میں آگہی نہ ہونے کی وجہ سے وہ شخص اس پیغام کی اطلاع نہیں سمجھ پارہا تھا بلکہ اسے محض پریشان خیالی سمجھ کر گھبراہٹ میں مبتلا ہو رہا تھا۔

اہم بات یہ ہے کہ آفاقی ذرائع سے وصول ہونے والی اطلاع کو سمجھا جاسکتا ہے اور اس کے مطابق اپنے عمل کا بر وقت تعین کیا جاسکتا ہے۔ کائنات میں بیک وقت ہزاروں لاکھوں بلکہ کروڑوں، اربوں اطلاعات رواں دواں رہتی ہیں۔ ان اطلاعات کا تعلق کائنات کے تمام ارکان سے ہے یعنی ہر انسان نہ صرف اپنی ذات کے بارے میں اطلاعات وصول کر رہا ہوتا ہے بلکہ زمین، سمندر، پہاڑ، زمینی و آبی حیوانات، درخت، پھل، پھول وغیرہ کے بارے میں بھی اطلاعات وصول کرتا ہے۔ زمین سے باہر سورج، چاند، ستاروں اور دیگر سیاروں کے بارے میں بھی اسے اطلاعات فراہم ہو رہی ہوتی ہیں۔ اسی طرح فرشتوں ، جنات اور دیگر تمام مخلوقات کے بارے میں انسان کو علم یا اطلاع دی جاتی ہے۔ روحانی اسکالر خواجہ شمس الدین عظیمی نے لکھا ہے کہ ایک فرد کے اندر نوع انسانی اور کائنات میں موجود ہر مخلوق کی اطلاعات موجود ہیں اور ان اطلاعات کا آپس میں تبادلہ ہوتارہتا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ کائنات میں جتنی بھی مخلوقات ہیں ان کے خیالات کی لہریں ہمیں منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ خیالات کی یہ منتقلی ہی دراصل کسی مخلوق کی پہچان کا ذریعہ بنتی ہے۔ علی ہذا القیاس ہم بھوک اور پیاس سے اس لیے باخبر ہیں کہ بھوک اور پیاس کی اطلاع ہمارے ذہن پر خیال بن کر وارد ہوتی ہے۔ “ [ ٹیلی پیتھی سیکھیے ، خواجہ شمس الدین عظیمی ، صفحہ 31]

کسی اطلاع کو وصول کرنے ، اس کا تجزیہ کرنے اور اس کے بارے میں جسم کے متعلقہ اعضاء کو حکم دینے کے لیے ہمارے دماغ کی رفتار انتہائی تیز ہے۔ اس کی ایک مثال اسپورٹس کے شعبہ میں کرکٹ کے کھیل سے دی جاسکتی ہے۔ ایک بیٹر جب ایک فاسٹ بالر کی گیند کا سامنا کرتا ہے تو بیٹر کی آنکھیں اتنی یا توے میل فی گھنٹہ کی رفتار سے آنے والی متحرک گیند کی تصویر دماغ کو بھیجتی ہیں۔ دماغ اس گیند کی لائین اور لینتھ اور اس کی رفتار کا اپنے شعور میں موجود معلومات سے موازنہ کر کے اس گیند کو کھیلنے کے بارے میں ہدایات جسمانی اعضاء بطورِ خاص ہاتھوں اور پیروں کے اعضاء کو دیتا ہے۔ ہاتھوں اور پیروں کے اعضاء دماغ سے ملنے والے حکم کو وصول کر کے اس پر عمل کرتے ہیں اور عملدرآمد کی اطلاع بھی دماغ کو دی جاتی ہے۔ ایک پیغام کی وصولیابی، اس کے اپنے ریکارڈ سے موازنہ ، تجزیے اور اس پر جسمانی اعضاء کو رد عمل کے احکامات، انتہائی پیچیدہ، برقی اور کیمیائی تعاملات ہیں۔ انسانی دماغ ان میں سے ہر مرحلہ …. ایک سیکنڈ کے غالباً ہزارویں حصہ میں کر گزرتا ہے۔ انسانی دماغ کی اس انتہائی تیز رفتار کار کردگی کے عملی مظاہرہ کے باوجود ہم یہ دیکھتے ہیں کہ انسانی ذہن پر خیال کی آمد کی رفتار کی نسبت اس خیال کے مختلف مراحل طے کرتے ہوئے اس کے لیے عملی اقدام کی رفتار بہت کم ہوتی ہے۔ اس مثال سے ”خیال“ کی انتہائی تیز رفتار کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ نوع انسانی کے ہر فرد کو ”خیال“ کو سمجھنے کی اہلیت اور اس پر عملدرآمد کی صلاحیت عطا کی گئی ہے۔ انسان کو عطا کردہ ذہنی صلاحیتیں اس نوعیت کی ہیں کہ استعمال کرنے سے خرچ نہیں ہو تیں بلکہ انہیں جتنا استعمال کیا جائے ان میں اتنا ہی اضافہ ہوتا ہے۔ آپ نے موبائل فون سیٹ میں Contact کا خانہ دیکھا ہو گا۔ اس میں آپ سو، پانچ سو ، ہزار یاد وہزار نمبر محفوظ کر سکتے ہیں اس کے بعد Memory full کا پیغام آنے لگتا ہے۔ جب سے نوع انسانی اس زمین پر آباد ہوئی ہے اس وقت سے آج تک کسی ایک شخص کو اس کے دماغ کی جانب سے Memory full کا پیغام نہیں ملا۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کا ذہن آپ کے ساتھ آپ کے گمان کے مطابق برتاؤ کرتا ہے۔ اگر آپ ستاروں کی تسخیر کا پیغام قبول کر رہے ہیں اور اس پر عمل درآمد کے لیے تیار ہیں تو آپ ایک نہ ایک دن ستاروں کو چھونے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اگر آپ صحت مند ہونے کے باوجود حرکت و فعالیت کے پیغام نظر انداز کر کے بے عملی کی تصویر بنے رہنا چاہتے ہیں تو اپنے گھر سے قریبی بس اسٹاپ تک جاتے جاتے بھی آپ تھکن کی شکایت کر سکتے ہیں۔

جو لوگ کچھ کرنا چاہتے ہیں ان کے سامنے وقت کی کمی ایک بڑا مسئلہ بن جاتی ہے۔ در حقیقت اگر آپ کچھ کرنا چاہتے ہیں تو وقت کی کوئی کمی نہیں۔ اگر آپ ڈھنگ سے کچھ نہیں کر پار ہے تو وقت کی قلت کے بہانے ہزار۔

یادرکھیے …! دن رات میں صرف چوبیس گھنٹے نہیں بلکہ ایک ہزار چار سو چالیس منٹ اور چھیاسی ہزار سے زائد سیکنڈ ہوتے ہیں۔ اگر آپ کو وقت کی کمی کا مسئلہ در پیش ہے تو آپ یہ سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ اصل مسئلہ وقت کی کمی ہے یاوقت کی Mismanagement یعنی وقت کا غیر منظم استعمال۔

آپ نے کئی لوگ دیکھے ہوں گے جو اپنے اسکول کالج کی تعلیمی سر گرمیوں میں یا معاشی یاگھر یلو کام کاج میں بہت مصروف رہتے ہیں۔ اس مصروفیت کے باعث ان کی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔ ان لوگوں سے کہا جائے کہ جناب اپنی صحت کا خیال رکھیں کچھ ورزش و غیرہ کر لیا کریں تو ان میں سے اکثر لوگ جواب دیتے ہیں کہ ورزش کے لیے یا واک کرنے کے لیے انہیں وقت نہیں ملتا۔ غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ان لوگوں کا مسئلہ وقت کی کمی نہیں بلکہ وقت کا درست یا غیر مفید استعمال ہے۔ ایک مسئلہ اپنی صحت برقرار رکھنے کے عزم کی کمی ہے۔ آپ اپنے اہل خانہ ، دوستوں اور کو لیگز کے ساتھ ہونے والی اپنی گفتگو کا جائزہ لیجیے۔ آپ کو اندازہ ہو گا کہ ایسی گفتگو زیادہ تر لا حاصل یا Non productive ہوتی ہے۔ ہمیں اپنے ارد گرد کئی ایسے لوگ نظر آتے ہیں جو بہت اچھی باتیں کرتے ہیں۔ جن کے پاس بہت اعلیٰ آئیڈیاز ہوتے ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی عملی زندگی میں زیادہ کامیاب نہیں۔ اعلیٰ آئیڈیاز رکھنے والے لوگوں کو کامیابی نہ مل پانے کی ایک بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ یہ لوگ یہ بات نہیں سمجھ پاتے کہ اپنے آئیڈیاز کو عملی شکل کیسے دیں یعنی اپنے آئیڈیاز کو Materialize کیسے کیا جائے؟ ….

آپ نے ایسے بھی بہت سے لوگ دیکھے ہوں گے جو زیادہ پڑھے لکھے نہیں لیکن وہ عملی زندگی خاص طور پر بزنس میں خوب کامیاب ہیں۔ مائنڈ سائنس کے حوالہ سے بات کی جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ پہلی قسم کے لوگ ”خیال“ کو وصول تو بہتر طور پر کر لیتے ہیں۔ ان میں ”خیال کو آگے بڑھانے کی خواہش بھی موجود ہوتی ہے لیکن یہ لوگ عملی اقدام کے معاملہ میں سست ہوتے ہیں۔ دوسری قسم کے لوگ وارد ہونے والے خیال پر عملی اقدام اٹھانے میں مستعد و فعال ہوتے ہیں۔ اسی لیے کامیابیاں ان کے قدم چومتی ہیں۔

اپنی ذہنی صلاحیتوں کو کیسے پہچانا جائے ، ان سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیسے کیا جائے۔ یہ جاننے کے لیے روحانی ڈائجسٹ کے آئندہ شمارے مطالعہ کیجیے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ  اپریل 2024

Loading