Daily Roshni News

ماحولیاتی آلودگی اور شہری مسائل کے حل سیرت طیبہ سے رہنمائی

ماحولیاتی آلودگی

اور شہری مسائل کے حل

سیرت طیبہ سے رہنمائی

)قسط نمبر(2

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ نومبر2019

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ ماحولیاتی آلودگی اور شہری مسائل کے حل سیرت طیبہ سے رہنمائی)نبی کریم ﷺنے ہمسایوں کے حقوق کا درس دیتے ہوئے فرمایا کہ اپنی عمارت کو ہمسائے کی عمارت سے اتنا بلند نہ کرو کہ ہمسائے کے گھر کی ہوا بند ہو جائے۔ حضور علیہ الصلواۃ والسلام نے فرمایا کہ تمہارے گھر ( چولہے یا آگ) کا دھواں پڑوسی کے لیے تکلیف کا باعث نہ ہو۔ [ معجم الکبیر طبرانی، بیہقی ]

 درخت، پانی اور ایکو سسٹم : زمین کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں اور پانی کی حفاظت کریں۔ اللہ کے نبی حضرت محمد صلی علیم نے درختوں کو کاٹنے کی واضح ممانعت کی ہے۔ حتی کہ حالت جنگ میں بھی درخت کاٹنے سے منع کیا گیا ہے۔ مسلمان فوجوں کو اس بات کی ہدایت تھی کہ وہ عمارتوں فصلوں ، درختوں ، مویشیوں اور چشموں کو برباد نہ کریں۔ [ بیہقی ؛ موطا امام مالک ] آپ میلی ظلم کا فرمان ہے کہ کوئی مومن ایسا نہیں ہے جو کوئی درخت لگائے اور اس سے انسان اور پرندے فائدہ اٹھائیں اور اس کا اسے ثواب نہ ملے۔ [صحیح مسلم] تعلیمات نبوی تو یہاں تک ہیں کہ اگر قیامت واقع ہو جائے اور تمہارے ہاتھ میں پودا ہو تو اسے زمین میں لگا دو۔ [مسند احمد ] انسانی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے اسلام ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ پانی کی حفاظت کی جائے کیونکہ یہ ہم سب کی مشترکہ ضرورت ہے ، اس پہ تمام مخلوقات کا حق ہے۔ نبی کریم صلی الم نے ماحول کو صاف اور پاک رکھنے کے لیے جو احکام صادر فرمائے ہیں ان میں سے یہ بھی ہے کہ رُکے ہوئے پانی میں گندگی نہ ڈالی جائے۔ اسلام ناصرف پانی کو محفوظ اور صاف کرنے کی تعلیم دی دیتا ہے بلکہ اس کے بے جا استعمال ، ضرورت سے زیادہ ضیاع سے بھی منع کرتا ہے۔ اللہ تعالٰی نے سورہ البقرہ میں ارشاد فرمایا: ” اور کھاؤ پیو اور بے جا خرچ نہ کرو۔ اللہ اسراف کرنے والوں کو ) پسند نہیں کرتا“۔ [سورہ اعراف: 31]

عبد اللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ : ” ایک روز رسول اللہﷺسعدؓ کے پاس سے گزرے۔ وہ پاکان زیادہ پانی لیے ) وضو کر رہے تھے آپ صلی اللہ ہم نے ان فرمایا یہ کیسا اسراف ؟! …. سعد نے عرض کیا وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے ؟ آپ صلی الم نے فرمایا ہاں! یہ بھی اسراف (پانی کا ضیاع ہے ، خواہ تم دریا ، کے کنارے وضو کر رہے ہو“۔ [ سنن ابن ماجہ ] جنگلات کی کمی، حیاتی تنوع : جیسا کہ ہم نے ذکر کیا زمین کے ماحول اور اے ایکو سسٹم میں تو زن کے لیے درخت کی بہت اہمیت کا ہے ہے اسی طرح ایکو سسٹم میں جانداروں اور جنگلی حیات کی اپنی اہمیت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کو پیدا کرنے کے بعد ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے پر منحصر کر دیا اور اسی طرح دنیا میں اعتدال و توازن برقرار ہے۔ زمین کی زندگی کے باہمی توازن کے نظام کو ایکو سسٹم Ecosystem کہا جاتا ہے۔ زمین کے ماحول کے بنیادی اجزاء، جن میں عناصر ، گیسز، پانی ، نباتات اور دیگر حیاتیات شامل ہیں، ایک دوسرے سے ماحولیاتی اور کیمیائی توازن کی زنجیروں سے جڑے ہوئے ہیں۔ ایک نوع کی زندگی دوسری نوع پر منحصر  ہے۔ اسلامی تعلیمات میں  غذائی

رہیں ، اس مقصد کے لیے خصوصی احکامات میں راستے کی آزادی برقرار رکھی۔ ذخیرہ اندوزی سے مخالفت کے احکام بھی شامل ہیں۔ اگر دنیا اسلام کی صرف چار بنیادی تعلیمات پر عمل کرنا شروع کر دے جن میں ہمسائے کا خیال رکھنا، غریبوں کو کھانا کھلانا، خوراک کو ضائع ہونے سے بچانا اور باقاعدگی سے زکوۃ دینا شامل ہے، تو دنیاضرورت کے علاوہ کسی بھی جاندار کو ضرر پہچانے کی ممانت کی گئی ہے۔

عبد اللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الم نے فرمایا: “جو شخص چڑیا یا اس سے بڑے جانور کو ناحق قتل کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کے وں کو حق کے متعلق باز پرس فرمائیں گے۔

 دنیا میں اگر صرف شہد کی مکھی کی نسل بھی ختم ہو جائے تو جلد بدیر انسان کی نسل ختم ہو جائے گی۔ کیونکہ انسان کو ملنے والی خواراک کا 70 فیصد زراعت سے آتا ہے اور زراعت میں پودوں کی نشونما میں شہد کی لکھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ : نبی صلی الم نے چار جانورں کے قتل کرنے سے منع فرمایا ہے، چیونٹی ، شہد کی مکھی، ہدہد ، اور چڑیا … [ سنن ابو داؤد ]

 جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ شہد کی مکھی، چیونٹی اور تلی بھی پودوں کے زد دانوں (پولن) کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر کے پودوں کی نشونما میں جنگلی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح چڑیاں اور چھوٹے پرندے فصلوں کے کیڑوں کو کھا کر زراعت کے فروغ کا سبب بنتے ہیں انہیں پہنچے والا نقصان مستقبل میں خود انسانی بقا کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔

آبادی ، بلدیاتی نظام : آئیے ! دیکھیں بلدیاتی نظام سے متعلق ہماری رہنمائی کے لیے سیرت نبوی صلی الم سے کیا اصول ملتے ہیں۔

 ہجرت کے بعد مدینہ میں مہاجرین کی تعداد بہت بڑھ گئی۔ نوواردوں کی اتنی بڑی تعداد کو اتنےمحدود وسائل میں رہائش اور کام کی فراہمی کوئی آسان معاملہ نہ تھا۔ پھر مختلف نسلوں، طبقوں، علاقوں اور مختلف معاشرتی و تمدنی پس منظر رکھنے والے لوگ مدینہ میں آکر جمع ہورہے تھے۔ اس وقت رسول کریم ﷺ کے کیے گئے اقدامات ماہرین عمرانیات کے لیے خاص توجہ اور مطالعہ کے مستحق ہیں۔ جدید شہروں میں آبادی کے دباؤ سے پیدا ہونے والے پیچیدہ تمدنی، سیاسی اور اخلاقی مسائل سے نمٹنے کے لیے سیرت النبی ﷺ سے ماہرین آج بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

دنیا کو سب سے پہلے رسالت مآب صلی اللہ ہم نے اس راز سے آگاہ کیا کہ محض سنگ و خشت کی عمارات کے درمیان میں کوچہ و بازار بنا دینے کا نام شہری منصوبہ نہیں بلکہ ایسا ہم آہنگ اور صحت مند تمدنی ماحول فراہم کرنا بھی ناگزیر ہے جو جسمانی آسودگی ، رُوحانی بالیدگی، ذہنی سکون اور قلبی اطمینان عطا کر کے اعلیٰ انسانی اقدار کو جنم دے اور تہذیب انسانی کے نشو و نما کا سبب بن سکے۔

شہری منصوبہ بندی کے ضمن میں آپ صلی الظلم نے شہر نو ( مدینہ) کو ایک خاص حد سے متجاوزنہ ہونے دیا اور اس شہر کی زیادہ سے زیادہ حد 500 ہاتھ (یا کوس) مقرر کی۔

بڑھتی ہوئی آبادی سے پیدا ہونے والے مسائل میں ایک اہم مسئلہ غذائی قلت ہے۔ دنیا کی پچھیں فیصد آبادی کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے، پچیس فیصد آبادی میں وزن کی زیادتی کا مسئلہ ہے جبکہ ہر روز پوری دنیا میں تقریباً پچیس فیصد کھانا ضائع جاتا ہے۔ انسانوں کی ضروریات احسن طریقے سے پوری ہوتی رہیں ، اس مقصد کے لیے خصوصی احکامات میں راستے کی آزادی برقرار رکھی۔ ذخیرہ اندوزی سے مخالفت کے احکام بھی شامل ہیں۔ اگر دنیا اسلام کی صرف چار بنیادی تعلیمات پر عمل کرنا شروع کر دے جن میں ہمسائے کا خیال رکھنا، غریبوں کو کھانا کھلانا، خوراک کو ضائع ہونے سے بچانا اور باقاعدگی سے زکوۃ دینا شامل ہے، تو دنیا کے کئی مسائل ختم ہو جائیں۔

 حضور پاک ﷺ کی احادیث سے ہمیں بلدیاتی نظام کے بہت سے اُصول ملتے ہیں۔ محتسب کا فریضہ یہ ہے کہ اچھے کام جاری کرے اور بُرے کاموں کو روکے ۔ حضور سرور کائنات ﷺ مدینے کے بازاروں میں تشریف لے جاتے تو جگہ جگہ رُک کر ناپ تول کر پیمانے دیکھتے۔ چیزوں میں ملاوٹ کا پتہ لگاتے۔ عیب دار مال کی چھان بین کرتے۔ گراں فروشی سے روکتے۔ اشیاءے ضروریہ کی مصنوعی قلت کا انسداد فرماتے۔ اس ضمن میں کئی حدیثیں اصولوں کا تعین کرتی ہیں۔ بعض لوگ ذاتی اغراض کے لئے سڑکوں کے گھیر لیتے ہیں۔ بعض مستقل طور پر دیوار میں کھڑی کر لیتے ہیں۔ فقہ اسلامی میں اس کے بارے میں واضح احکام ملتے ہیں۔

 حضور اکرم ﷺنے سڑکوں پر بیٹھنے ، تجاوزات کھڑی کرنے، سڑکوں پر گندگی ڈالنے سے روکا ہے۔ آپ صلی الیکم نے سڑکوں پر سے رکاوٹ کی چھوٹی موٹی چیز کو ہٹا دینے کو صدقہ قرار دیا ہے۔ سڑکوں پر بیٹھ کر باتیں کرنے اور راستے میں رکاوٹ کھڑی کرنے سے اللہ کے رسول ﷺنے منع کیا ہے۔ آپ ﷺ نے جانوروں تک کے لیے راستے کی آزادی برقرار رکھی۔

ہمسائے کے حقوق کے بارے میں رسول اکرم ﷺ کے جوار شادات ملتے ہیں ان پر عملدرآمد سے انسانی معاشرے کے کئی مسائل حل کے ہو جاتے ہیں۔ صحیح مسلم میں حضرت انس بن مالک کی روایت ہے کہ ” کوئی مسلمان ، مسلمان نہیں ہے ۔ جب تک وہ اپنے ہمسائے کے لیے وہی بھلائی نہ چاہے جو اپنے لئے چاہتا ہے۔

اس ایک ارشاد مقدسہ میں صفائی ستھرائی، صحت ، شائستگی، خوش خلقی ، صلح جوئی ، ہمدردی ، ایثار اتنی ساری باتیں آتی ہیں کہ شہری زندگی کے کئی ضوابط کی عمدگی سے پابندی ہو سکتی ہے۔ حفظانِ صحت کا خیال رکھنا اسلامی زندگی کا بنیادی نظریہ ہے۔ کھانے پینے کی چیزوں کے نالس ہونے پر زور دیا گیا ہے۔ ملاوٹ کرنے والوں کیلئے سخت سزائیں اور عذاب کی وعید ہے۔ پینے کے پانی کو صاف رکھنے اور گندے پانی کی نکاسی کے احکام اس عنوان کے تحت بھی آتے ہیں۔ اسی عنوان سے متعلق بیماریوں کے علاج کی سہولتیں بھی ہیں۔ مکانات ہو دار اور روشن رکھنے کے احکام اسلام میں موجود ہیں۔

حضور پاک ﷺ نے منجملہ اور باتوں کے تعلیم پر بہت زور دیا ہے۔ تاریخ اسلام میں پہلا نصاب تعلیم رسول اللہ صلی الیم نے ہی ترتیب دیا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے مسجد نبوی کی تعمیر کے وقت ایک چبوترہ بنا کر اسلام کی پہلی اقامتی درس گاہ کی بنیاد ڈالی تھی جہاں آپ ﷺ خود درس دیا کرتے تھے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ نومبر2019

Loading