“ماں، نور اور نکتے کا راز”
تحریر۔۔۔مقیتہ وسیم
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔”ماں، نور اور نکتے کا راز”۔۔۔ تحریر۔۔۔مقیتہ وسیم )مجھے معلوم ہے کہ وہ نور ہے…مگر وہ نور کیسا ہے؟یہ راز لفظوں میں نہیں سماتا۔ جب میں اُس کے حسن کی بات کرتی ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ بولنے والی میں نہیں ہوتی، کوئی اور میرے ہونٹوں پر اپنے معانی رکھ جاتا ہے۔سنو… غور سے سنو…
انسان کی حقیقت تب تک نامکمل رہتی ہے جب تک وہ خود کو نہ ہونے کی کیفیت سے نہ گزر لے۔
جب ہم کچھ نہیں ہوتے تو ہمارا وجود بھی نہیں ہوتا۔
اور جب ہمیں وجود دیا جاتا ہے تو نہ ہمارا اپنا کوئی نام ہوتا ہے، نہ ہمارا کوئی اختیار…
ہم بغیر مرضی کے دنیا میں آتے ہیں، یہ سب اُس کے حکم سے ہوتا ہے۔
اور چونکہ یہ وجود لینا بھی اُس کی طرف سے ہے،
اس لیے استقبال بھی وہی کرتا ہے۔
وہ نور ہے۔
اور نور کا پہلا حرف ن…
یہ حرف ماں کے جسم سے لگے ہمارے پہلے رزق میں جھلکتا ہے۔
ماں کی گرم گود میں، دل کی دھڑکن کے قریب، ایک نورانی غذا ہمیں خوش آمدید کہتی ہے
یہی وہ “ن” کا نکتہ ہے،
زندگی کی پہلی روشنی،
جسے دنیا دودھ کہتی ہے۔
لیکن یہ ملاقات پہلی نہیں ہوتی۔
اس سے قبل، جب ہم وجود اور عدم کے درمیانی وقفے میں ہوتے ہیں،
وہی ہمیں نو ماہ تک اپنے نظام کے اندر سنبھالے رکھتا ہے۔
وہی ہے جو تین پردوں کے اندر ہماری مصوری کرتا ہے،
ہمارے نقوش تراشتا ہے،
ہڈیوں پر گوشت چڑھاتا ہے۔
یہ سب کسی اور کا کام نہیں
یہ اس کا ذاتی امر ہے۔
قرآن کھولو۔
وہ سب کچھ بیان کرتا ہے:
هُوَ الَّذِي يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحَامِ كَيْفَ يَشَاءُ
وہی تو ہے جو تمہیں ماؤں کے ارحام میں جس طرح چاہے شکل دیتا ہے۔
پھر ماں تمہیں گود میں لیتی ہے…
لیکن غور کرو:
چند لمحوں پہلے جو عورت تمہیں جانتی تک نہیں تھی،
اس کے اندر اچانک اتنی محبت کہاں سے آ گئی؟
یہ اس کی محبت نہیں؛
یہ رب کے نور کی پہلی تجلی ہے
جو ماں کے دل کو تمہاری طرف پھیر دیتی ہے۔
اگر تم پہلی اولاد ہو تو پورا خاندان تمہارا استقبال کرتا ہے،
اگر آخری ہو تو بہن بھائیوں کی محبت تمہارے حصے میں آتی ہے۔
ماں کی ہر ادا، ہر قربانی، حقیقت میں اسی نور کی بازگشت ہے۔
ورنہ کون کسی کی کمزوری، ناتوانی اور جسمانی گندگی تک برداشت کرتا ہے؟
رب کی محبت صرف ماں تک محدود نہیں ہوتی۔
وہ ہمارے اپنے وجود میں بھی سانس لے رہا ہوتا ہے۔
ہمارا چہرہ ہماری صورت نہیں
یہ اس کی سورت ہے۔
ہمارے لفظوں میں جو معانی چھپے ہوتے ہیں، وہ انہی میں پنہاں ہوتا ہے۔
ہمارے ہاتھ دراصل اس کے سپرد کردہ امانت ہوتے ہیں۔
نور کے حرف “ن” کی شکلیں دیکھو:
جہاں جہاں “ن” اور “و” اکٹھے سامنے آئیں، وہاں روشنی ضرور ہوگی۔
جگنو کے نام میں “ن” اور “و” دونوں ہیں، اس میں روشنی بھی ہے
اور یہ روشنی “ر” کے اندر پوشیدہ نور کا سراغ دیتی ہے۔
وہ تمہارے پاس ہے…
نہیں، صرف پاس نہیں
دل کے اندر ہے۔
جس کے اندر دل دھڑکتا ہے، سانس چلتی ہے،
وہ نور بھی اس کے اندر ہے۔
کتاب اور کتابِ مبین میں فرق ہے۔
مصحف اور صوت میں فرق ہے۔
ہم اس وقت لوحِ محفوظ میں جی رہے ہیں
یہ کائنات، یہ نظام، یہی وہ لوح ہے۔
وہ ہمارے اندر چھپ گیا ہے،
اور جو اندر چھپا ہو، وہ آنکھوں کے سامنے کیسے آئے؟
اسی لیے قرآن کہتا ہے:
لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ
آنکھیں اسے نہیں گھیر سکتیں،
مگر وہ سب نگاہوں کو گھیر لیتا ہے۔
وہ جسے اپنے نور کی طرف لے جانا چاہے،
خود اس کی آنکھ بن جاتا ہے۔
اور آخر میں، ایک راز:
ہم سجدہ زمین کو نہیں کرتے،
ہم سجدہ نقطۂ نور کو کرتے ہیں
اس کعبہ کو جو شش جہات میں پھیلا ہوا ہے۔
حطیم “ن” کا غنہ ہے،
کعبہ نکتہ ہے،
اور نکتے سے نور پھوٹتا ہے۔
اسی لیے خدا نظر نہیں آت
کیونکہ ہم نے ابھی تک یہ نہیں جانا
کہ خدا کو دیکھنا کیسا ہوتا ہے۔
#مقیتہ وسیم
#مقیتہ_وسیم #نور #قرآنی_حقیقتیں #روحانی_سفر #باطنی_ادراک #سائنس_اور_روحانیت #Mysticism #SpiritualWisdom
![]()

