ماں کا بوجھ
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیو زانٹرنیشنل )گاؤں کی پرانی گلی کے کچے مکان میں زینب بی بی رہتی تھی۔ زندگی کے کئی طوفان دیکھ چکی تھی۔ شوہر کی جوانی میں ہی موت ہو گئی تھی، پیچھے تین چھوٹے بچے رہ گئے تھے۔ اُس دن کے بعد زینب بی بی کے کاندھوں پر ایک ایسا بوجھ آ گیا تھا جسے اُٹھانے کے لیے شاید سو آدمیوں کی ہمت بھی کم پڑتی۔
وہ دن رات محنت کرتی، کبھی کسی کے گھر جھاڑو دیتی، کبھی کھیتوں میں مزدوری کرتی، کبھی کپڑے سی کر پیسہ کماتی۔ پیروں میں چھالے، ہاتھوں پر چھالے، چہرے پر جھریاں… مگر لبوں پر ہمیشہ صبر کی مسکراہٹ ہوتی۔ وہ اپنے بچوں کو بھوکا نہیں دیکھ سکتی تھی، اس لیے خود بھوکی رہ لیتی مگر بچوں کو نوالہ دے کر خوش ہو جاتی۔
سال گزرتے گئے۔ بچوں نے پڑھائی میں ترقی کی، ماں نے اپنا پیٹ کاٹ کر ان کو تعلیم دلوائی۔ وہ رات کو چراغ کے نیچے بیٹھ کر ان کے کپڑوں پر سیون لگاتی اور صبح اسکول کے خرچے کے لیے پیسے تیار رکھتی۔ ایک ایک کر کے بچے بڑے ہوئے، تعلیم مکمل کی اور نوکریاں حاصل کر لیں۔ زینب بی بی کے دل کو سکون ملا کہ اب اُس کی محنت رائیگاں نہیں گئی۔
پھر وقت آیا شادیوں کا۔ ماں نے اپنی چادر بیچ کر جہیز بنایا، اپنی چوڑیاں بیچ کر ولیمے کے اخراجات اُٹھائے۔ جب جب کسی نے کہا، “بہو کے بغیر گھر نہیں بنتا”، تو ماں نے خوشی خوشی بیٹوں کے ہاتھ پیلے کر دیے۔
لیکن شادی کے بعد منظر بدلنے لگا۔ پہلے بیٹے نے کہا،
“اماں! بیوی کہتی ہے کہ چھوٹے گھر میں سب نہیں رہ سکتے، آپ کچھ دن چھوٹے بھائی کے پاس رہ لیں۔”
ماں نے کچھ نہیں کہا۔ دل میں ہلکی سی کسک ہوئی مگر خاموشی اختیار کی۔ بیٹے کی خوشی میں اپنی تنہائی قبول کر لی۔
کچھ دن چھوٹے بیٹے کے پاس گزرتے، تو وہاں بھی یہی بہانہ سامنے آتا:
“اماں! بیوی کو تنہائی پسند ہے، آپ تیسرے بھائی کے پاس چلی جائیں۔”
یوں زینب بی بی ایک گھر سے دوسرے گھر تک “مہمان” بن گئیں۔ وہی ماں جس نے دن رات ایک کر کے ان کو پالا تھا، اب اپنے ہی گھروں میں اجنبی بن گئی۔
آخر کار ایک دن سب بیٹوں نے بیٹھ کر فیصلہ کیا کہ “اماں کو الگ رہنے دیا جائے۔” ہر بیٹے نے کچھ پیسے دینے کی ذمہ داری لے لی تاکہ اماں کی ضروریات پوری ہو سکیں۔
جب زینب بی بی کو یہ بات پتہ چلی تو اُس کے آنسو تھم نہ سکے۔ اُس نے کہا:
“میں نے تمہیں کبھی پیٹ بھر کر کھلایا، کبھی تمہاری تعلیم کے لیے اپنی بھوک برداشت کی، تمہیں اپنی نیند قربان کر کے پروان چڑھایا۔ تمہاری ایک ایک ضرورت پوری کی۔ اور آج تم سب کو میری سانسیں بوجھ لگنے لگیں؟”
بیٹے سر جھکا کر خاموش کھڑے تھے، مگر کسی میں ہمت نہ تھی کہ اپنی ماں کو دل سے گلے لگا سکے۔
زینب بی بی اس دن اپنے کمرے میں دیر تک روتی رہی۔ اُس نے بستر پر بیٹھ کر اللہ سے دعا کی:
“یا اللہ! میں نے اپنی ماں باپ کی خدمت نہ کر سکی، تو نے مجھے تین بیٹے دیے تاکہ بڑھاپے کا سہارا ہوں۔ مگر یہ بھی مجھے بوجھ سمجھنے لگے۔ یا اللہ! مجھے صبر دے اور میری اولاد کو ہدایت دے۔”
اگلے دن گاؤں والوں نے دیکھا کہ زینب بی بی دروازے کے سامنے چارپائی پر خاموش پڑی ہے۔ اُس کے چہرے پر ایک عجیب سکون تھا، جیسے ساری تکلیفیں ختم ہو گئی ہوں۔ اُس کی سانسیں بند ہو چکی تھیں۔
جب جنازہ اٹھا تو پورا گاؤں آنسو بہا رہا تھا، مگر وہ تینوں بیٹے جن کی خاطر اُس نے اپنی جوانی کھپا دی تھی، زمین پر نظریں جھکائے کھڑے تھے۔ شاید ان کو پہلی بار احساس ہوا تھا کہ “ماں بوجھ نہیں، دعا ہوتی ہے۔ ماں بوجھ نہیں، جنت ہوتی ہے۔”