مبلّغ ظاہری حُلیے پہ جب اصرار کرتاہے
وہ جب سنت پہ چلنے کی بہت تکرار کرتاہے
تو میرا ذہن میرے دل سے استفسار کرتاہے
مجھے غوروتدبرکے لیے تیار کرتاہے
توپھرمیں سوچتاہوں کیا فقط حلیہ ہی سنت ہے؟
فقط سُرمہ، فقط خُوشبُو، فقط جلوہ ہی سنت ہے؟
فقط داڑھی بڑھالینا، فقط مونچھیں کٹالینا
فقط شلوار اُونچی باندھ کرچلناہی سنت ہے؟
یقیناً یہ سبھی اعمال سنت ہیں، یقیناً ہیں
مگر کچھ اور معقولات بھی سنت میں شامل ہیں
کہ جیسے کام کے اوقات بھی سنت میں شامل ہیں
حضوری قلب کے جذبات بھی سنت میں شامل ہیں
خلوصِ دل کے احساسات بھی سنت میں شامل ہیں
رواداری کی ترجیحات بھی سنت میں شامل ہیں
بشفقت اپنے اہل بیت کو تکنا بھی سنت ہے
مخالف کی بہو بیٹی کا سرڈھکنا بھی سنت ہے
لُٹے جب اپنی بستی میں یتیموں کا کبھی ترکہ
توپھرغاصب کو دھرلینا، ڈراسکنا بھی سنت ہے
جوانی میں معاشی فکر کا رہنا بھی سنت ہے
بنا ماں باپ کے حالات کو سہنا بھی سنت ہے
اگرگھر کا کمانے والا تنہا ہو ، پریشاں ہو
تو اس کو کوئی حرفِ حوصلہ کہنا بھی سنت ہے
صداقت پہلی سنت ہے رہِ کارِ حکومت میں
تووعدے سے وفاداری بیابانِ سیاست میں
توکّل رزق میں اور صدق اعمالِ تجارت میں
تو سنت ہے کبھی ڈرنا نہیں دولت سے غربت میں
امانت ایسی سنت ہے جو سرداری کی ضامن ہے
تو خوش خُلقی جہاں میں کارمختاری کی ضامن ہے
زباں کا دل ہو رکھوالا ، زباں گنجینہ ہو سچ کا
خبرکاروں کا حرفِ مدعا آئینہ ہو سچ کا
حیاداری کا شیوہ یوں محافظ ہو نگاہوں کا
کہ جیسے چاند کا جُگنو نگہباں شب کی راہوں کا
سماجی خیر کا ضامن ہو ہرہرگیت، ہرنغمہ
مفادِ اجتماعی کا ہراک عکاس ہو کلمہ
غم انسانیت کچھ یوں لہو کے ساتھ بہتا ہو
کہ جیسے دوسروں کا درد ہردم دل رہتا ہو
مہِ کامل کہ جس کی ہر کرن دستورلکھتی ہے
وہ تابانی جو سنگِ بے نشاں کو طُور لکھتی ہے
وہ قندیلِ محبت جو بَنوں میں رہ دکھاتی ہے
وہ قدسی کہکشاں جو آسماں کو نُور لکھتی ہے
وہی، قوموں کو جس نے نفس کی تہذیب سمجھائی
اوراس تہذیب کے بل پر رہِ تغلیب سمجھائی
وہ جس نے چشم ِ دِل کو حسن کی ترکیب سمجھائی
وہ جس کے عشق سےبزمِ جہاں آبادہوتی ہے
زمیں کے خبط سے انسانیت آزاد ہوتی ہے
تو میں اس رہبرِ تہذیب کی سنت کا شیدا ہوں
میں اس انسانِ کامل کی ہراک عادت کا شیدا ہوں
کہ میں اُس شہسوارِ اشہبِ دوراں کی اُمت ہوں
میں اس دنیا کے سب سے معتبر انساں کی اُمت ہوں
ادریس آزاد