Daily Roshni News

مثبت سوچ سے شخصیت میں نکھار۔۔۔تحریر۔۔۔مشکور الرحمنٰ

مثبت سوچ سے شخصیت میں نکھار

تحریر۔۔۔مشکور الرحمنٰ

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ایک سیلز مین گاڑی میں مال بیچنے جارہا تھا۔ سڑک سنسان تھی۔ اسی دوران اندھیرے نے آگھیرا۔ اچانک گاڑی کے ایک پہلے کی ہوا نکل گئی۔ لڑکھڑاتی گاڑی کو روکا تو اسے علم ہوا کہ اس کے پاس تو پہیہ بدلنے کے لیے جیک نہیں ہے۔ وہ سخت پریشان ہوا۔ اسے دور ایک روشنی نظر آئی۔ وہ مدد حاصل کرنے کے لیے اس روشنی کی سمت چل دیا۔ چلتے چلتے وہ منفی خیالات کے تانے بانے بننے لگا: اگر وہ روشنی کسی گھر کی نہ ہوئی تو ….. اگر وہ گھر ہی ہوا اور دروازہ کھٹکھٹانے پر کوئی باہر نہ آیا تو …..

اگر ان کے پاس گاڑی نہ ہوئی تو ….. اگر گاڑی ہوئی اور میری طرح اس میں بھی جیک نہ ہوا تو …..

اور اگر گاڑی بھی ہوئی، جیک بھی ہوا اور گھر کےمالک نے جیک دینے سے انکار کر دیا تو ….. الغرض جوں جوں وہ آگے بڑھتا گیا توں توں وہ ایسی ہی منفی فضولیات سوچتا گیا حتی کہ وہ منفی سوچ سے ہیجان میں مبتلا ہو گیا اور جب پہلی ہی دستک پر دروازہ کھلا تو اس نے مالک مکان سے چلا کر کہا ”بھاڑمیں جائے تمہارا جیک۔“

اس لطیفہ نما کہانی سے ہنسی ضرور آتی ہے، مگر کس پر ….؟ ظاہر ہے اُس آدمی کی عقل پر، جو ایک شکست خوردہ ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔ اگر ذرا غور کیا جائے تو ہمارے ارد گرد کئی لوگ اکثر ایسی ہی اوٹ پٹانگ باتیں کرتے ہیں۔

انسانی ذہن پر ہر لمحہ سوچوں کا بہت زیادہ غلبہ رہتا ہے۔ یوں کہنا چاہئے کہ اس کی زندگی کا ہر زاویہ اس کی ذہنی سوچ سے ہی جنم لیتا ہے۔ سوچ و فکر سے انسانی جذبات کی تشکیل ہوتی ہے اور ان جذبات کی بنیاد پر ہی اس کا ہر عمل سامنے آتا ہے۔

ذہن کا زاویہ یہ فکر دو قسم کا ہوتا ہے، ایک منفی اور دوسرا مثبت۔ مثبت سوچ کامیابی کی طرف لے جاتی ہے جبکہ منفی سوچ ناکامی اور نامرادی کی طرف دھکیلتی ہے اور زندگی کی چمک دمک کو تاریک سیاہیوں میں بدل دیتی ہے۔ یہ سب صرف سوچوں کا ہی کھیل دکھائی دیتا ہے۔

ذہن میں خیالات کا پیدا ہونا قدرتی عمل ہے مگر اپنے خیالات کو عملی جامہ پہنانا تو انسان کے اختیار میں ہوتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کسی فرد کی شخصیت کو ابھارنے اور سنوارنے میں مثبت سوچ ہی اہم کردارادا کرتی ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ مثبت سوچ کامیابی کی وہ سیڑھی ہے جس پر قدم رکھنے والا انسان آخر کار کامیابی کی منزل پالیتا ہے۔

منفی یا مثبت خیالات کے ذریعے ہی انسان سے مختلف عمل سرزد ہوتے ہیں۔ مثبت سوچ سے انسان کے اندر مثبت رویہ پیدا ہوتا ہے۔ آئیے ….! دیکھتے ہیں کہ ایسا کیسے کیا جا سکتا ہے ….؟

نائلہ کو جب نئے معالج کے پاس لے جایا گیا تو اس نے ڈاکٹر سے جو پہلی بات کی وہ یہ تھی …..

ڈاکٹر صاحب! میں جانتی ہوں کہ آپ میری کوئی مدد نہیں کر سکتے۔ میں کام سے کتراتی ہوں۔ میرے باس نے مجھے کہہ دیا ہے کہ مجھے تبدیل کیا جا رہا ہے۔ وہ میری تبدیلی کو ترقی کا نام دے رہا ہے، لیکن میں جانتی ہوں کہ میں درست کام نہیں کر رہی ور نہ تبدیل کیوں ہوتی ….؟

ڈاکٹر نے نائلہ کو تمام باتیں ترتیب سے لکھنے کو کہا۔ نائلہ نے چند مذکورہ باتوں کے علاوہ لکھا کہ دو سال قبل میں نے ایم بی اے کیا تھا۔ تب سے وہ معقول تنخواہ پر ایک کپڑے کی مل کے انتظامی شعبے میں کام کر رہی تھی۔

نائلہ کی تحریر میں صرف یہ ایک بات تھی جو منفی نہیں تھی۔ پہلے روز کی ابتدائی ملاقات کے بعد ڈاکٹر نے نائلہ سے کہا کہ اگر وہ رات کو اپنے پریشان خیالات کی وجہ سے سو نہ سکے ، تو اپنے خیالات کی ایک مکمل فہرست بنائے۔

اگلی ملاقات پر نائلہ نے جو خیالات قلم بند کیے وہ یہ تھے:

میں حقیقتا وہ نہیں جو نظر آتی ہوں۔ میں حاضر دماغ اور حاضر جواب بھی نہیں۔ اگر میں کچھ لوگوں سے آگے ہوں تو یہ محض اتفاق ہے۔ میں کل بڑی آفت میں مبتلا ہو سکتی ہوں۔ میں نے کبھی کسی اجلاس کی صدارت نہیں کی۔ میر ا ڈائریکٹر آج بھی غصے میں کھول رہا تھا۔ میں نے کیا کیا ہے کچھ پتہ نہیں۔“ سوال و جواب کے دوران نائلہ نے تسلیم کیا کہ میں ہر وقت منفی خیالات میں کھوئی رہتی ہوں۔ میں ہمیشہ تھکی تھکی اور مایوس رہتی ہوں۔“

چند ملاقاتوں کے بعد جب اس کے معالج نے نائلہ کے اندیشوں اور قسمت کے فرضی چکروں کی فہرست مرتب کر کے نائلہ کو دکھائی تو وہ حیران رہ گئی۔ نائلہ روز مرہ کی ذرا ذراسی باتوں کے تصوراتی منفی انجام پر اپنی قیمتی توانائی ضائع کرتی رہی تھی۔ اس کی پریشانی، تھکن اور مایوسی اس کے اپنے منفی پیغامات کا شاخسانہ تھی۔

غم زدہ اور افسردہ حالت میں رہنے والے کو عموماً ہر چیز ہی غمگین نظر آتی ہے۔ منفی خیالات کو جب روکنا ہو تو ان کی جگہ ہمیشہ مثبت خیالات سے پر کیجیے۔ ایک شخص نے بتایا کہ وہ خیالی ذہن کو کس طرح پر کرتا ہے۔ ایک مرتبہ وہ ساری رات جاگتا اور خیالات میں پھنسا یہ سوچتا رہا کہ کیا وہ بچوں سے سختی برتا ہے ….؟

کیا اس نے فلاں گاہک کے فون پر ملنے والے پیغام کا جواب دیا تھا یا نہیں ….؟

جب وہ ایسی باتیں سوچ سوچ کر تھک گیا تو اس نے سر کو جھٹکا اور اس دن کے متعلق سوچا جب وہ بچوں کو چڑیا گھر لے گیا تھا۔

بچوں نے بندروں کی حرکتیں دیکھ کر بہت قہقہے لگائے تھے۔ قہقہوں کے ساتھ ہی اسے زندگی کے دوسرے خوش گوار لمحات بھی یاد آتے گئے اور اسے پتہ بھی نہ چلا کہ وہ کب گہری نیند سو گیا۔

اچانک پریشان کرنے والے خیالات سے مقابلے کے لیے خوش گوار لمحات اور واقعات کی

یادوں کو محفوظ رکھیں۔

مثبت طرز فکر کا انجام کامیابی اور منفی رویے کا انجام ناکامی و نامرادی ہے۔ زندگی میں مثبت سوچ اعلیٰ اخلاقی کردار کو تخلیق کرتی ہے، منزل تک رسائی آسان بناتی ہے۔ یہی نہیں مال و دولت میں خیر و برکت لاتی ہے۔ مثبت سوچ کے تحت دی جانے والی تربیت اولاد کو صالح بنا دیتی ہے۔ کامیابیاں سمیٹتی ہے او رمادی فلاح و بہبود کا باعث بنتی ہے۔ اس کے بر عکس منفی سوچ نہ صرف انسان کو ذہنی مریض بنا کر زندگی میں مایوسیاں پیدا کرتی ہے۔ حسد و جلن کے الاؤ جلاتی ہے۔ زندگی کو خوش گوار بنانے کے لئے ہمیں اپنی سوچ، اپنی فکر پر قابو پانا ہو گا۔ اس طرح ہماری زندگی میں بھی ہر طرف خوشیاں، شادمانیاں اور کامیابیاں ہوں گی۔ اگر مثبت خیالات رکھے جائیں تو اعمال اور اس کے نتائج بھی مثبت آئیں گے۔

منفی سوچ کی وجہ سے انسان ڈپریشن میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اس کی زندگی تلخ ہو کر رہ جاتی ہے۔ ایسی سوچ ایک ناگ بن کر ہر خوشی کو ڈسنے کے لئے تیار رہتی ہے۔

حکماء کی برسوں کی تحقیق اور غور و فکر کا حاصل یہ ہے کہ جب مختلف انداز سے سوچا جاتا ہے تو احساسات اور سرگرمیاں بھی مختلف ہو سب کچھ خیالات پر منحصر ہے جن پر گرفت ضروری ہے۔ یعنی ہم وہ ہیں جو ہماری سوچ ہے۔

مشہور رائٹر ملٹن نے کیا خوب کہا تھا کہ ….. یہ ذہن ہی ہے جو جنت کو دوزخ اور دوزخ کو جنت بنا سکتا ہے۔“ قلند ر بابا اولیاء فرماتے ہیں۔ انسان اپنی جنت اور دوزخ اپنے ساتھ لیے پھرتا ہے۔ اس کا تعلق طرزِ فکر سے ہے۔ طرزِ فکر انبیا کرام علیہم السلام کے مطابق ہے تو انسان کی ساری زندگی جنت ہے۔ طرزِ فکر میں ابلیسیت ہے تو تمام زندگی دوزخ ہے۔ ہر انسان پر سکون اور پر مسرت زندگی اپنا سکتا ہے۔ فارمولا یہ ہے کہ …. جو چیز حاصل ہے اس کو شکر کے ساتھ خوش ہو کر استعمال کیا جائے اور جو چیز حاصل نہیں ہے اس پر شکوہ نہ کیا جائے …. اس کے حصول کیلئے تدبیر کے ساتھ دعا کی جائے …. انسان کو چاہیے کہ کاروبار حیات میں مذہبی قدروں، اخلاقی و معاشرتی قوانین کا احترام کرتے ہوئے پوری پوری جدو جہد اور کوشش کرے، لیکن نتیجے پر نظر نہ رکھے۔ نتیجہ اللہ کے اوپر چھوڑ دے۔ ایک فرد نے اگر اپنی طرزِ فکر یہ بنائی کہ اُس کی ذات سے کسی دوسرے کی ذات کو تکلیف نہیں پہنچے گی ….. اُس کی دس اولادیں ہوئیں، دس کی دس نہیں تو پانچ تو اُس کی طرزِ فکر پر چلیں گی …. اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اچھائی کا ایک دروازہ کھول دیا، اس طرح کہ اس فرد کی یہ طرز فکر اس کی اولاد میں منتقل ہوگی اور پھر اولادوں کی اولادوں میں، یوں مثبت طرز فکر نسلوں پر محیط ہو جائے گی۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ  جنوری2021

Loading