ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )قران مجید اللہ تعالٰی کی ایسی الہامی کتاب ہے جس کے اندر پوری کائنات کا ریکارڈ موجود ہے، کائنات کا کوئی بھی شعبہ یا جزو ہو اس کی پوری وضاحت قرآن میں کر دی گئی ہے۔
مثلا سورہ فاتحہ روحانی مقام ” فتح ” کو حاصل کرنے کے لیے معاون ہے۔
سورہ بقرہ گائے کو زندہ کرنے کا فارمولا، آدم علیہ السلام کی تخلیق علم الاسماء کی منتقلی اور کائنات کے دیگر علوم پر مشتمل ہے ۔
سورہ آل عمران روحانی علوم کے حامل لوگوں اور انسانی معاشرتی رویوں کے متعلق ہے،
سورہ نساء عورت کے تخلیقی نظام کے متعلق فارمولوں کا انکشاف کرتی ہے
سورہ انعام اللہ تعالٰی کے تخلیقی نظام اور زندگی کے تقاضوں کے متعلق ، چوپایوں کی زندگی کی طرف متوجہ کرتی ہے، عنکبوت، نمل، فیل، عادیات، ہدہد اور دیگر جانوروں کا انسانوں کے ساتھ تعلق کو ظاہر کرتی ہے۔
سورہ اعراف، اسراء، نباء، بروج۔ جن، ملک، معرفت و حکمت اور، آسمانی دنیا، جنات اور فرشتوں کے ساتھ بعدازموت کی زندگی کے متعلق انکشاف کرتی ہے
سورہ الناس، ابراہیم، یوسف، نوح، محمد، لقمان، ہونس، مریم وغیرہ ، نبوت، ربوبیت اور انسانوں کے متعلق تفصیلات فراہم کرتی ہے
سورہ شمس، فجر، واضحا، دن روشنی اور سورج کے متعلق
سورہ قمر ، لیل ، قدر، رات اور چاند کے متعلق اطلاعات دیتی ہے
سورہ نجم ستاروں کے متعلق وغیرہ
غرض قران کریم کی ایک سو چودہ سورتیں ایٹم کے ذرات یعنی” سورہ ذاریات ” سے لیکر کائنات کے سب سے بڑی کہکشانی نظام “سورہ تکویر، انشقاق، ” تک کی ہر چیز کو بیان کرتی ہے، اسرار و رموز کی سورت اسراء میں ارشاد ہے
“وَ كُلَّ شَیْءٍ فَصَّلْنٰهُ تَفْصِیْلًا( 12)”
اور اس( قرآن ) میں کل اشیاء کی تفصیل موجود ہے “
روحانی علوم کے مطابق موجودہ جدید ٹیکنالوجی کے سائنسی دور میں قرآنی علوم کی کسی ایک سورت کا علم بھی نوع انسانی کے ترقی یافتہ شعور کے سامنے نہیں آسکا، کیونکہ قرآن کا چیلنج ہے اج بھی قائم ہے
” فَأْتُواْ بِسُورَةٍۢ مِّن مِّثْلِهِۦ
تم اس مثال کی کوئی سورت لےآو “
قران مجید جگہ جگہ نوع انسانی کو جھنجھوڑ رہا ہے
افلا تعقلون، تم عقل کیوں نہیں کرتے
افلا تتفکرون، تم تفکر کیوں نہیں کرتے
افلا تدبرون، تم تدبر کیوں نہیں کرتے
افلا تشعرون، تم شعور کیوں نہیں رکھتے
افلا تبصرون، تم دیکھتے کیوں نہیں
اللہ تعالٰی کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اس کے کرم اور توفیق سے سورہ طارق کی پہلی تین آیات کے اندر تفکر کرنے سے جو کچھ منکشف ہوا اس کے باطنی اور روحانی اسرار و رموز کا یہاں تذکرہ کیا جارہا ہے
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
وَ السَّمَآءِ وَ الطَّارِقِ(1)وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا الطَّارِقُ(2)النَّجْمُ الثَّاقِبُ(3)
آسمان کی قسم اور قسم ہے طارق کی
کیا تم کو ادراک ہے طارق کیا ہے؟
ایک چمکتا ہوا ستارہ ہے ۔
پہلی آیت میں اللہ تعالٰی نے آسمان کی قسم کھائی ہے اور دوسری قسم طارق کی کھائی ہے، آسمان کیا ہے، کیسے وجود میں آیا، ابھی تک بڑے بڑے فلسفی، دانشور، عالم فاضل اور مادی دنیا کے ذہین سائنسدان بھی اسکی کوئی وضاحت اور حیثیت بیان نہیں کر سکے، سوائے اس کو خلاء یا اسپیس کا نام دے دیا جاتا ہے، جبکہ اللہ تعالٰی نے اس کی قسم کھائی ہے، ہمارے معاشرے میں قسم اس وقت کھائی جاتی ہے جب کسی چیز کی صداقت اور حقیقت بیان کرنا مقصود ہو گویا آسمان ایسی اٹل حقیقت اور سچائی ہے کہ اس کا کوئی انکار نہیں کیا جاسکتا، حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس کو کوئی حتمی طور پر بیان بھی نہیں کر سکا، انسان کے حواس ہمیشہ مادی اجسام اور اشیاء سے ٹکرا کر شعور کو وجود میں لاتے ہیں، ذہن کی اس حالت کو عرف عام میں مادی” شعور ” کا نام دیا جاتا ہے، لیکن جب یہی حواس خلاء یا اسپیس سے ٹکراتے ہیں تو ذہن خالی ہوجاتا ہے اور خیالات و تصورات کی کوئی بھی شکل دماغ کے اندر نہیں بنتی، ذہن کی اس حالت کا نام ” لاشعور ” ہے، سماوات یا آسمان دراصل لاشعور ہیں جہاں مادے یا مٹریل کا کوئی عمل دخل نہیں، زمان، آسمان، خلاء یا اسپیس کی قسم کھا کر اس کی لاشعوری حقیقت اور سچائی کو بیان کیا گیا ہے، گویا اس سورت کی پہلی آیت لاشعوری یا غیب کی دنیا کے اندر داخل کرتی ہے، جب ذہن لاشعور یا غیب کے اندر داخل ہوجاتا ہے تو لاشعوری حواس میں ایک روشنی غیبی یا لاشعوری مناظر کو منظر عام پر لاتی ہے، اس روشنی کو روحانی علوم میں” طارق ” بولا گیا ہے، اس سورہ کی پہلی آیت میں آسمان یعنی لاشعور کے بعد دوسری قسم لاشعور میں کام کرنے والی روشنی یعنی طارق کی قسم کھا کر اس روشنی کی حقیقت وصداقت کو بیان کیا گیا ہے۔
دوسری آیت میں طارق کے “ادراک” کے متعلق پوچھا گیا ہے کہ وہ حاصل ہے یا نہیں، قران مجید میں ادراک لفظ بہت سے مقامات پر دہرایا گیا ہے۔ جہاں” ما ادراک” آیا ہے وہاں سوال پوچھا گیا ہے اور پھر اس کا جواب بھی دیا جاتا ہے، یہ جواب حواس کو باقاعدہ مرکزیت عطا کرکے مشاہدہ کراتا ہے دوسری آیت میں جب سوال پوچھا گیا کہ ” کیا تم کو ادراک ہے کہ طارق کیا ہے ” تو سوال کے جواب کے لئے تجسس کی پرواز شعور سے آزاد ہوکر کائناتی نظام میں گردش کرتی ہے تو اس کی حقیقت سے متعارف کرانے کے لئے اللہ تعالٰی فرماتے ہیں ” نجم الثاقب ” یعنی لاشعور میں روشنی کا منبع یا ستارہ جو مشاہدہ کراتا ہے،
لفظ “طارق” کے بہت سے لغوی معنی ہیں چند ایک معنی درج کیے جارہے ہیں،
رات کو آنے والا یا رات کو نکلنے والا، رات کو دیکھانے والا، رات کو رہنمائی کرنے والا ،رات کا مسافر، رات کا حادثہ، رات کو دروازہ کھٹکھٹانے والا ،راستہ بنانے والا یا کھولنے والا ، رہنمائی کرنے والا، گویا طارق کے معنی لاشعور، رات یا تاریکی کے ہیں
” ثاقب” کے لغوی معنی ثقب والا یعنی روشنی کا حامل
چمکدار– ایسی چیز جو روشنی دے یا چمک میں نمایاں ہو۔ تیز روشن ذہن والا – ایسا شخص جو ذہین ہو اور چیزوں کو جلد سمجھنے والا ہو، روشنی کے ذریعے رہنمائی کرنے والا، اب
“النجم الثاقب” کا معنی یہ ہوا ایک چمکدار اور روشن ستارہ یا وہ روشنی جو لاشعور یا رات میں رہنمائی کرے،
قابل احترام مفسرین و مترجمین صاحبان نے مادی طرزوں میں ان آیات کا جو بھی ترجمہ کیا ہے وہ بندے کو لاشعور اور غیب کے ہی قریب کرتا ہے اور اس نظام کو متعارف کرا کر اللہ کی صفات کا عرفان دلاتا ہے۔
ان ساری باتوں کا لباب روحانی طرزوں میں اس طرح بیان کیا جاتا ہے۔
” لاشعوری حواس یعنی آسمانی دنیا کے اندر مشاہدہ کرنے والی صلاحیت “طارق” کا ادراک ایسی روشنیوں کا ستارہ ہے جو غیب وشہود کی حقیقت کو سامنے لانا ہے جس کی باقاعدہ قسم کھائی گئی ہے “
انشاءاللہ اگلی پوسٹ میں سورہ طارق کی آیت نمبر 4 تا 7 تک کے باطنی اسرار و رموز اور ان کی روحانی تشریح پیش کی جائے گی۔