Daily Roshni News

محسن انسانیتﷺ کے خواتین پر احسانات

محسن انسانیتﷺ

کے خواتین پر احسانات

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ نومبر 2019

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ محسن انسانیتﷺ کے خواتین پر احسانات)وہ مرد اور عورت ایک دوسرے کی ضرورت، ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ مرد اور عورت کے ازدواجی رشتے کو اللہ نے ایک دوسرے کے لیے خوشیوں اور تسکین کا ذریعہ بنایا ہے۔ مرد اور عورت کا یہ رشتہ خاندان کی بنیاد بنتا ہے۔ خاندان یعنی میاں بیوی جب ماں باپ کا درجہ پاتے ہیں تو نئی نسل کی پرورش اور تربیت کے ذمہ دار بھی ہو جاتے ہیں۔ انسانی معاشرہ اور تمدن کے ارتقاء میں مرد اور عورت دونوں کا حصہ ہے۔ مرد اور عورت دونوں اپنا اپنا مقصد وجود رکھتے ہیں۔ اگر چہ دونوں کے کاموں میں کچھ فرق ہے لیکن دونوں مل کر ایک دائرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ لیکن تاریخ کے مختلف ادوار میں عورت کے ساتھ ایسا بر اسلوک کیا گیا ہے جیسے کہ انسان ہی نہیں۔ ماضی کی کئی قوموں نے عورت کو مال مویشی جتنی اہمیت بھی نہ دی بلکہ بعض ادوار میں تو اس کے ساتھ جانوروں سے بھی بد تر سلوک کیا گیا۔ امتیازی سلوک روا رکھتے ہوئے عورت کو کہیں برائی کی جڑ، کہیں ناپاک، کہیں گناہوں کی طرف راغب کرنے والی ، شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار قرار دیتے ہوئے اُسے کمتر ، پست اور حقیر شے قرار دیا گیا۔ مردوں نے یہ سب برے القابات اور غیر انسانی رویے عورت کے ساتھ رکھے حالانکہ مرد بھی عورت کی کوکھ سے ہی پید ا ہو ا تھا۔ قدیم معاشروں میں عورت کے کوئی حقوق نہیں تھے۔ وہ اپنے شوہر کی ملکیت قرار پاتی تھی ۔ بیوہ ہو جانے والی عورت کا معاشرے میں کوئی مقام نہ تھا بلکہ بعض خطوں میں تو شوہر کے مرنے پر اُس کی بیوی کو بھی زندہ جلا دیا جاتا تھا۔ عورت کو حقیر سمجھنا

کسی ایک خطے یاکسی ایک قوم تک محدود نہ تھا بلکہ یہ غیر انسانی روش ساری دنیا میں عام تھی۔ اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ دین اسلام میں لوگوں کو دنیا اور آخرت کی فلاح کی دعوت دی گئی۔ اسلام نے لوگوں کو ایک اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کے لیے کہا اور یہ بتایا کہ ساری کائنات بشمول انسان سب اللہ کی مخلوق ہیں اور ہر انسان کی جان ، مال اور عزت محترم ہے۔ مردوں کو ہر گز یہ حق نہیں کہ وہ عورتوں کو حقیر اور کمتر سمجھیں۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: “اے انسانو! اپنے رب کے سامنے تقویٰ اختیار کرو۔ اللہ نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور پھر ان سے مرد و عورت پھیلا دیئے“ ۔ (سورۃ النسا۔ 1)

دنیا کے دوسرے خطوں کی طرح عرب میں بھی عورت کے ساتھ انتہائی حقارت آمیز سلوک کیلے جاتا تھا۔ اسلام سے انسانوں کو جہاں اور بے شمار کتیں ملیں وہیں طبقہ نسواں کو بھی عزت ، احترام اور تحفظ سے نوازا گیا۔ رحمتہ اللعالمین، محسن انسانیت حضرت محمد رسول اللہ صلی الم نے عورت کو جو بے انتہاء عزت اور احترام عطا فرمایا ہے اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں حضرت محمدﷺنے عورت کا مرتبہ معاشرے میں بلند کرنے کے کئی اقدامات کئے۔ قدیم دور میں باپ کی جائیداد میں عورت کا کوئی تسلیم نہ کیا جاتا تھا۔ شوہر کے متروکہ ساز و سامان میں یا تو وہ خود بھی شامل کر دی جاتی تھی یا پھر اس کا حصہ صفر تھا۔ عورت بذات خود کسی منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد کی مالک نہیں بن سکتی تھی۔ شادی کے بعد تو اس کی ذاتی حیثیت یکسر ختم ہو جاتی تھی۔ اللہ کے آخری نبی حضرت محمد صلی علی عوام نے عورت کی قسمت کو مرد کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا بلکہ وضاحت کے ساتھ عورت کے حقوق اور ذمہ داریاں متعین فرمادیں۔ اسلامی معاشرے میں قانوناً عورت کی پوزیشن بہت مضبوط کر دی گئی۔ اسلام نے واضح طور پر بتادیا کہ دنیاوی معاملات ہوں یا عبادات ہر ایک یکساں جواب دہ ہے۔ قرآن کریم میں جہاں عمل خیر پر ثواب کی بشارت اور عمل شر پر عذاب کی وعید ہے وہاں بھی مرد و عورت دونوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ترجمہ : ”مردوں اور عورتوں میں سے جس کسی نے نیک کام کئے اور وہ مومن ہیں ہم ان کو اچھی زندگی سے سر فراز کریں گے اور جو کچھ انہوں نے کیا ہو گا اس کا بہتر سے بہتر اجر دیں گے“۔ (سورۃ النحل-97) ترجمہ: ”بے شک اللہ تم میں سے کسی عمل کرنے والے کے عمل کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت ضائع نہیں ہونے دے گا“۔ (ال عمران۔ 195) اسلام نے عورت کی شخصیت اور انفرادیت کا پورا پورا احترام ملحوظ رکھا ہے۔ عورت اپنے شوہر کے ساتھ رفقیہ حیات کی حیثیت سے زندگی بسر کرے گی باندی بن کر نہیں۔ عورت اپنے شوہر سے اس کی آمدنی کے مطابق اپنے لیے جیب خرچ کا مطالبہ کرنے کا حق رکھتی ہے۔ عورت چاہے تو اپنے شوہر سے اپنے لیے علیحدہ رہائش کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ عورت نا صرف اپنے والد اور والدہ کے ورثے میں شامل ہے بلکہ اپنے شوہر کے انتقال پر عورت شوہر کے ورثے میں بھی حق دار ہوئی ہے۔ ہمارے معاشرے میں بعض گھرانوں میں یہ کہا جاتا ہے کہ شادی کے وقت جو جہیز دے دیا تھا اس سے عورت کے حق ورثہ کی ادائی ہو گئی۔ ایسا سوچنا صحیح نہیں ہے۔ لڑکی کی پرورش، اس کی تعلیم یا اس کی شادی پر کیے جانے والے اخراجات اپنی جگہ والدین کے ورثے میں شادی شدہ بیٹی کا حق بہر حال قائم رہتا ہے۔ ایام جاہلیت میں اکثر گھرانوں میں لڑکی کی پیدائش کو بہت برا اور شرمندگی کا باعث سمجھا جاتا تھا بعض شقی القلب مرد اپنی بیٹی کو اپنے ہاتھوں سے زمین میں زندہ دفن کر دیا کرتے تھے۔ حضرت محمد رسول ﷺ نے لوگوں کو اس انتہائی بُرے فعل سے روکا اور اپنی بیٹیوں کے ساتھ اچھے سلوک کی تاکید فرمائی۔ آپ صلی ا یہ کلم نے بیٹیوں کی اچھی طرح پرورش کرنے والوں اور اُن کی ذمہ داری ٹھیک طرح ادا کرنے والوں کو اللہ کی رضا پانے کی خوشخبری سنائی۔ آپ صلی اللی کرم نے فرمایا ”جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی اور ان کے ساتھ حسن سلوک کیا تو اس کے لئے جنت ہے“۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے رسول اللہ صل الل ولم نے فرمایا تم میں ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک سے اُس کی رعایا کے متعلق باز پرس کی جائے گی خاوند اپنے گھر کا نگران ہے اور بیوی اپنے خاوند کے گھر اس کے بچوں کی نگران۔ پس تم میں سے ہر ایک اپنی اپنی رعیت کا نگران ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے متعلق باز پرس ہو گی“۔ (بخاری و مسلم) اس حدیث کے مطابق خاندان کی دیکھ بھال اور اچھی تربیت کے لیے مرد اور عورت دونوں ذمہ دار ہیں اپنی اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے مرد اورعورت دونوں سے جواب طلب کیا جائے گا۔ سورۃ البقرہ میں ارشاد الہی ہے: اور جیسے حقوق مردوں کے عورتوں پر ہیں ویسے عورتوں کے حقوق مردوں پر ہیں۔ نامور فرانسیسی مصنف آندرے سرو میئر نے لکھا ہے: “محمد (صلی امیرم) نے عورتوں کے بارے میں نہایت فراخدلی کا مظاہرہ کیا اور عورتوں کا مرتبہ بلند کیا۔ محمد علی ایم کی اصلاحات سے پہلے عورتوں اور بچوں کو ورثہ نہیں ملتا تھا اور پھر سب سے بُری عادت یہ تھی کہ متوفی کا سب سے قریبی رشتہ دار عورتوں اور املاک پر اس طرح قابض ہو جاتا جس طرح وہ اپنے غلاموں اور ان کی بچت پر قابض ہو جاتا ۔ محمد صلی ) کے آخری خطبے میں یہ تاریخی الفاظ شامل تھے کہ ”اپنی بیویوں سے اچھا سلوک کرو“۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں عورت کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ حضرت محمد رسول اللہ صلى العالم نے عورت کا احترام کرنے کی تاکید فرمائی، اس سے وابستہ ہر رشتے کے حقوق متعین فرمائے، بیٹیوں کی محبت اور شفقت کے ساتھ اچھی پرورش، تربیت اور  کی ذمہ داریوں کی احسن طریقے سے ادائیگی کی تاکیدفرمائی۔ بہنوں کے حقوق متعین فرمائے۔ ازدواجی رشتے

میں شوہر اور بیوی دونوں کے لیے حقوق اور فرائض واضح فرما دیے ، سب سے بڑھ کر یہ کہ بحیثیت ماں عورت کو وہ تقدیس اور وہ درجہ عطا فرمایا جس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ حضرت محمد رسول اللہ صلی الم نے فرمایا جنت ماں کے قدموں تلے ہے“۔ اسلام نے عورت کے بحیثیت ماں ، بحیثیت بہن، بحیثیت بیٹی اور بحیثیت جیون ساتھی ہی حقوق نہیں فرمائے بلکہ عورت کی انفرادیت کو بھی پورا احترام عطا کیا گیا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق ایک عورت اپنے لیے کوئی ذریعہ معاش اختیار کر سکتی ہے۔ عورت چاہے تو بزنس لیڈی بنے، چاہے تو ڈاکٹر بنے، چاہے تو ٹیچر بنے یا اپنے لیے کسی بھی شعبے کا انتخاب کرلے۔ پابندی صرف یہ ہے کہ وہ جائز اور حلال ذریعہ معاش کا انتخاب کرے اور یہ پابندی تو مردوں کے لیے بھی ہے۔

یہ دین اسلام ہی ہے جس نے آج سے چودہ سو سال پہلے دنیا کو انسانیت کے احترام کا درس دیتے ہوئے عورت کو پہلی بار حقوق عطا فرمائے۔ ان میں سے کئی حقوق اس صدی کے شروع تک بھی یورپی خواتین کو حاصل نہیں تھے۔ اسلام نے عورتوں کو جو حقوق دیے وہ ہمیشہ کے لیے ہیں۔ مسلمان عورت تا قیامت ان حقوق سے فیضیاب ہوتی رہے گی۔ یہ تو ہے قانونی اور شرعی پوزیشن ۔ آج ہم کئی اسلامی ملکوں میں یہ دیکھتے ہیں کہ وہاں عورت کو وہ حقوق نہیں دیے جارہے جو قرآن اور رسول صلی ا ونم نے عورت کو عطا فرمائے ہیں۔ خود پاکستان میں عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک عام ہے، دیہی علاقوں میں جہاں جاگیر دارانہ اور برادری سسٹم زیادہ مؤثر ہے عورت کے حقوق کی پامالی عام ہے لیکن شہری علاقوں میں بھی عورت کے حوالے سے صور تحال کچھ خاص اطمینان بخش نہیں۔

خوا پاکستان میں کئی علاقوں میں بیٹیوں کے ساتھ آتی۔ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے ۔ کئی گھرانوں میں بیٹی کی بعض پیدائش پر خوشی نہیں منائی جاتی اور اس کا ذمہ دار بازار بھی عورت کو قرار دے دیا جاتا ہے۔ اس منفی طرز کو فکر کے باعث کئی بیٹیاں خود کو Un Wanted اور کئی مائیں خود کو قصور وار اور غیر محفوظ سمجھنے لگتی ہیں۔ تعلیم دلانے میں لڑکیوں کے ساتھ امتیاز بھی طر ہمارے معاشرے میں عام نظر آتا ہے۔ کئی گھرانوں میں ورثے کی تقسیم کے وقت لڑکیوں سے کہا جاتا ہے کہ تم اپنے بھائی کے حق میں اُر دستبردار ہو جاؤ۔ جائیداد کو تقسیم سے بچانے کے لیے ہے کئی علاقوں میں لڑکیوں کی شادی ہی نہیں کی جاتی۔ کئی والدین اپنی بیٹی کی مرضی کے خلاف اُس کا رشتہ طے کر دیتے ہیں۔ بعض خطوں میں خاندانی یا قبائلی جھگڑوں میں تصفیہ کرتے ہوئے قصور وار قرار دیے جانے والے شخص کی بیٹی یا بہن بطور جرمانہ دوسرے فریق کے ساتھ جبر آبیاہ دی جاتی ہے۔ عورت کے حقوق کی پامالی کے یہ اقدامات ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں اور مختلف علاقوں میں ان روایات کے باقاعدہ نام بھی ہیں۔ ان میں سے چند نام یہ ہیں ونی، سوارہ، بازو ۔ عورت کے حقوق کو نظر انداز کر دینے والی رسموں میں وٹہ سٹہ جیسی روایات بھی شامل ہیں۔ عورت کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں میں شوہر اور سسرال والوں کے ہاتھوں بہو پر تشدد اور دیگر طرح کی زیادتیاں بھی شامل ہیں۔ مندرجہ بالا باتوں کے علاوہ ایک نہایت تکلیف دہ صورتحال عورت کے ساتھ برتا جانے والا عمومی رویہ ہے۔ یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ راستے میں آتی جاتی خواتین کو کئی مرد بری طرح گھورتے ہیں ۔ بعض اوباش لڑکے خواتین کو دیکھ کر جملے کستے ہیں، بازار میں یا سڑکوں پر کچھ لوگ دست درازی کی کوشش بھی کرتے ہیں ۔ ڈرائیونگ کرنے والی خواتین خصوصاً تنہا خاتون ڈرائیور کو مردوں کی طرف سے رکاوٹیں یا پریشانیاں پیش آتی ہیں۔ یہ اور اس طرح کے دیگر کئی افسوس ناک واقعات آئے دن سننے میں آتے ہیں۔ لڑکیوں اور عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک ، اُن کی حق تلفی اور ان کے ساتھ کی جانے والی بد تمیزیوں کی وجوہات کیا ہیں …..؟ دراصل ہمارا معاشرہ اپنی نئی نسل کو یہ تعلیم نہیں دے پا رہا کہ اسلام نے عورت کے حوالے سے مردوں پر اور معاشرے پر کیا ذمہ داریاں عائد کی ہیں۔ اسلام نے عورت کو جو عزت و احترام عطا کیا ہے، عورت کو جو حقوق عطا کیے ہیں خود عورتوں کو چاہیے کہ وہ ان سے بخوبی آگاہی حاصل کریں ۔ ہر نظر انسان کی اولین تربیت گاہ اُس کی ماں کی گود ہے۔ ماؤں کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرآن کی آیات اور ارشادات رسول صلی ا ورم میں غور و فکر کو اپنا معمول بنائیں۔ گھر میں ماں، باپ اسکول اور کالج میں استاد نئی نسل کو یہ بتائیں کہ ہمارے دین نے اللہ کی عبادت ، انسانوں کے حقوق کے احترام، خواتین کے احترام اور اُن کے حقوق کے تحفظ کے لیے کیا احکامات دیے ہیں۔ قرآن اور رسول اللہ صلی الہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرنا ہمارے لیے ہر شعبہ میں کامیابی کی ضمانت ہے۔ اللہ اور اللہ کے رسول صلی ال کے احکامات سے والا رو گردانی کرنا ، کسی کے بھی حقوق غصب کرنا دنیا اور میں آخرت دونوں جگہ خسارے کا سبب بنے گا۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ نومبر 2019

Loading