مربھی جاؤں تو کہاں ،لوگ بھلا ہی دیں گے
*لفظ میرے ،مرے ہونے کی گواہی دیں …
اردو شاعری سے ذرہ برابر بھی شغف رکھنے والا یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسے پروین شاکر کا کوئی شعر یاد نہیں ہے یا اس نے پروین شاکر کا کوئی شعر نہیں سنا ہے -عام طور پروین شاکر کو نسوانی شاعری کی نمائندہ شاعرہ کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے لیکن میرے نزدیک یہ ان کی فن شاعری کے ساتھ سرا سر نا انصافی ہے..کیونکہ موصوفہ نے ہر رنگ اور ہر انداز میں شاعری کی ہے..ان کے کلام میں کسک ہے ٹیس ہے خوشبو ہے عشق ہے حسرت ہے غم ہے شکایت ہے تمنا ہے صبر ہے التجا ہے..ان کے اشعار ہر خاص وعام کے زبان زد ہیں…محترمہ نے جس خوبصورتی سے غزل کی پلکوں کو سنوارا ہے اتنی ہی سحر انگیز نظمیں بھی کہی ہیں…. محترمہ کو اردو شاعری کا افتخارو شان کہنا غلط نہیں ہوگا….جو مقبولیت انہیں حاصل ہوئی ہے وہ خال خال ہی کسی شاعر کو ملی ہے..پروین شاکر کو جتنا پڑھا سنا اور دیکھا گیا ہے شاید ہی کسی شاعر کو نصیب ہوا ہے…سوشل میڈیا اور یو ٹیوب سے اس بات کی تصدیق و شہادت حاصل کی جا سکتی ہے…موصوفہ کے کچھ منتخب اشعار باذوق قارئین کی خدمت میں پیش ہیں
کبھی کبھار اسے دیکھ لیں کہیں مل لیں
یہ کب کہا تھا کہ وہ خوش بدن ہمارا ہو
اب ان دریچوں پہ گہرے دبیز پردے ہیں
وہ تانک جھانک کا معصوم سلسلہ بھی گیا
وہ مجھ کو چھوڑ کے جس آدمی کے پاس گیا
برابری کا بھی ہوتا تو صبر آ جاتا
زندگی میری تھی لیکن اب تو
تیرے کہنے میں رہا کرتی ہے
رخصت کرنے کے آداب نبھانے ہی تھے
بند آنکھوں سے اس کو جاتا دیکھ لیا ہے
تری چاہت کے بھیگے جنگلوں میں
مرا تن مور بن کر ناچتا ہے
کسی کے دھیان میں ڈوبا ہوا دل
بہانے سے مجھے بھی ٹالتا ہے
بس یہ ہوا کہ اس نے تکلف سے بات کی
اور ہم نے روتے روتے دوپٹے بھگو لئے
بہت سے لوگ تھے مہمان میرے گھر لیکن
وہ جانتا تھا کہ ہے اہتمام کس کے لئے
ہاتھ میرے بھول بیٹھے دستکیں دینے کا فن
بند مجھ پر جب سے اس کے گھر کا دروازہ ہوا
یوں بچھڑنا بھی بہت آساں نہ تھا اس سے مگر
جاتے جاتے اس کا وہ مڑ کر دوبارہ دیکھنا
حسن کے سمجھنے کو عمر چاہیئے جاناں
دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھلتیں
کچھ تو ترے موسم ہی مجھے راس کم آئے
اور کچھ مری مٹی میں بغاوت بھی بہت تھی
کون جانے کہ نئے سال میں تو کس کو پڑھے
تیرا معیار بدلتا ہے نصابوں کی طرح
میرے چہرے پہ غزل لکھتی گئیں
شعر کہتی ہوئی آنکھیں اس کی
یوں دیکھنا اس کو کہ کوئی اور نہ دیکھے
انعام تو اچھا تھا مگر شرط کڑی تھی
دینے والے کی مشیت پہ ہے سب کچھ موقوف
مانگنے والے کی حاجت نہیں دیکھی جاتی
بند کر کے مری آنکھیں وہ شرارت سے ہنسے
بوجھے جانے کا میں ہر روز تماشا دیکھوں
نہ جانے کون سا آسیب دل میں بستا ہے
کہ جو بھی ٹھہرا وہ آخر مکان چھوڑ گیا
مقتل وقت میں خاموش گواہی کی طرح
دل بھی کام آیا ہے گمنام سپاہی کی طرح