مرزا غالب کی درخواست ، تنخواہ چھ ماہ کی بجائے ماہ بہ ماہ کی جائے۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )مرزا غالب جب بہادر شاہ ظفر کے نوکر ہو گئے تو انہیں تنخواہ ہر چھ ماہ بعد دی جاتی تھی اور مرزاسود پر قرض لے کر گزارا کرتے تھے اور تنخواہ ملتے ہی خرچ ہو جاتی ہے۔ لہٰذا مرزا غالب نے ایک منظوم درخواست لکھی کہ میری تنخواہ چھ ماہ کی بجائے ماہ بہ ماہ کی جائے۔
گزارش مصنّف بحضورِ شاہ
اَے شَہنشاہِ آسماں اَورنگ
اَے جہاندارِ آفتاب آثار
تھا میں اِک بے نَوَائے گوشہ نشیں
تھا میں اِک دردمندِ سینہ فگار
تُم نے مجھ کو جو آبرُو بخشی
ہوئی میری وہ گرمئ بازار
کہ ہوا مجھ سا ذرۂ ناچیز
رُوشناسِ ثوابت و سیّار
گر چہ از رُوئے ننگ و بے ہُنری
ہوں خود اپنی نظر میں اتنا خوار
کہ گر اپنے کو میں کہوں خاکی
جانتا ہوں کہ آئے خاک کو عار
شاد ہوں لیکن اپنے جی میں، کہ ہوں
بادشہ کا غلامِ کار گزار
خانہ زاد اور مُرید اور مداح
تھا ہمیشہ سے یہ عریضہ نگار
بارے نوکر بھی ہو گیا صد شُکر
نسبتیں ہو گئیں مُشخّص چار
نہ کہُوں آپ سے تو کس سے کہوں
مُدعائے ضروری الاظہار
پِیر و مُرشد ! اگرچہ مجھ کو نہیں
ذوقِ آرائشِ سر و دستار
کچھ تو جاڑے میں چاہیے آخر
تا نہ دے بادِ زَمہریر آزار
کیوں نہ درکار ہو مجھے پوشش
جسم رکھتا ہوں ، ہے اگرچہ نَزار
کچھ خریدا نہیں ہے اب کے سال
کچھ بنایا نہیں ہے اب کی بار
رات کو آگ اور دن کو دُھوپ!
بھاڑ میں جائیں ایسے لَیل و نہار !
آگ تاپے کہاں تلک اِنسان
دُھوپ کھاوے کہاں تلک جاندار
دُھوپ کی تابِش ، آگ کی گرمی !
وَقِنَا رَبَّنَا عَذَابَ النَّار !
میری تنخواہ جو مقرر ہے
اُس کے ملنے کا ہے عجب ہنجار
رسم ہے مُردے کی چھ ماہی ایک
خلق کا ہے اِسی چلن پہ مدار
مجھ کو دیکھو تو ، ہُوں بہ قیدِ حیات
اور چھ ماہی ہو سال میں دوبار !
بس کہ لیتا ہوں ہر مہینے قرض
اور رہتی ہے سُود کی تکرار
میری تنخواہ میں تہائی کا
ہوگیا ہے شریک ساہُو کار
آج مجھ سا نہیں زمانے میں
شاعرِ نغزگوئے خوش گُفتار
رزم کی داستان گر سُنئیے
ہے زباں میری تیغِ جوہر دار
بزم کا التزام گر کیجے
ہے قلم میری ابرِ گوہر بار
ظُلم ہے گر نہ دو سُخن کی داد
قہر ہے گر کرو نہ مجھ کو پیار
آپ کا بندہ ، اور پِھروں ننگا ؟
آپ کا نوکر ، اور کھاؤں اُدھار ؟
میری تنخواہ کیجے ماہ بہ ماہ
تا ، نہ ہو مجھ کو زندگی دُشوار
ختم کرتا ہُوں اب دُعا پہ کلام
شاعری سے نہیں مجھے سروکار
تُم سلامت رہو ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار
مرزا غالب ~