Daily Roshni News

مسلمان پچھلے 14سو سال سے آپس  میں ہی نبردا ٓزما ہے۔۔۔انتخاب۔۔۔محمد آفتاب سیفی عظیمی (آسٹریا)

مسلمان پچھلے 14سو سال سے آپس  میں ہی نبردا ٓزما ہے۔۔۔

انتخاب۔۔۔محمد آفتاب سیفی عظیمی (آسٹریا)

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ انتخاب۔۔۔محمد آفتاب سیفی عظیمی )ھم نے اپنی 14 سو سالہ تاریخ میں اغیار کو اتنا فتح نہیں کیا جتنا ہم ایک دوسرے کو فتح کرتے رھے‘آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ھو گی کہ

مسلمانوں نے  اسلامی عروج کی پہلی صدی میں دنیا

کا 75 فیصد علاقہ فتح کر لیا تھا ، اس کے بعد

مسلمان ساڑھے تیرہ سو سال اس علاقے کے لیئے

ایک دوسرے سے لڑتے رھے‘

ھمارے علم‘ فلسفے‘ سائنس اور ایجادات کی ساری

تاریخ بھی ابتدائی تین سو سال تک محدود تھی

ھم نے پچھلے ھزار سال میں سوائے ایک دوسرے

سے جنگیں کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا‘

آپ 2018ء سے ھزار سال پیچھے چلے جائیے‘

آپ کو سوائے مسلمانوں کی آپس کی جنگوں اور

مسلمان حکمرانوں کی عیاشیوں کے علاؤہ کچھ نہیں

ملے گا ۔ ۔ ۔

آپ 1018ء سے آگے آتے چلے جائیں‘ آپ کے سارے طبق روشن ھوتے چلے جائیں گے‘ آپ کو مسلمان ، مسلمان کو

قتل کرتے اور قتال کے درمیانی وقفے میں حرام خوری

کرتے نظر آئیں گے۔

عالم اسلام ھزار سال سے نیل کٹر سے لے کر کنگھی تک

ان لوگوں کی استعمال کر رھا ھے جنھیں ھم دن میں

پانچ بار بددعائیں دیتے ھیں‘

آپ کمال دیکھئے‘

ھم مسجدوں میں یہودیوں کے پنکھے اور اے سی لگا کر‘

عیسائیوں کی ٹونٹیوں سے وضو کر کے‘

کافروں کے ساؤنڈ سسٹم پر اذان دے کر اور لادینوں کی جائے نمازوں پر سجدے کر کے ، ان سب کی بربادی کے لئے بددعائیں کرتے یا ان پر سازشوں کے الزام لگانے کے علاؤہ

کچھ کرتے دکھائی نہیں دیں گے

ھم ادویات بھی یہودیوں کی کھاتے ھیں‘ بارود بھی کافروں کا استعمال کرتے ھیں اور پوری دنیا پر اسلام کے غلبے کے خواب بھی دیکھتے ھیں‘

آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ھو گی کہ ھم خود کو دنیا کی بہادر ترین قوم سمجھتے ھیں لیکن ھم نے پچھلے پانچ سو برسوں میں کافروں کے خلاف کوئی بڑی جنگ نہیں جیتی‘

ھم پانچ صدیوں سے مار اور صرف مار کھا رھے ھیں‘ پہلی جنگ عظیم سے قبل پورا عرب ایک تھا‘ یہ خلافت عثمانیہ کا حصہ ھوتا تھا‘ یورپ نے 1918ء میں خطہ عرب کو 12 ملکوں میں تقسیم کر دیا اور دنیا کی بہادر ترین قوم دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی۔

ھم اگر جنگجو تھے‘ ھمارا اگر لڑنے کا چودہ سو سال کا تجربہ تھا ، تو ھم کم از کم لڑائی ھی میں ’’پرفیکٹ‘‘ ھو جاتے۔

اور کم از کم دنیا کے ھر ہتھیار پر ’’میڈ بائی مسلم‘‘ کی مہر ھی لگ جاتی اور ھم اگر دنیا کے بہادر ترین فوجی ھی تیار کر لیتے تو ھم آج مار نہ کھا رھے ھوتے‘

آج کم از کم عراق‘ لیبیا‘ مصر‘ افغانستان اور شام انسانی المیہ نہ بن رھے ھوتے۔

آپ اسلامی دنیا کی بدقسمتی ملاحظہ کیجئیے‘ ھم لوگ آج یورپی بندوقوں‘ ٹینکوں‘ توپوں‘ گولوں‘ گولیوں اور امریکی جنگی جہازوں کے بغیر خانہ کعبہ کی حفاظت بھی نہیں کر سکتے‘

ھماری تعلیم کا حال یہ ھے کہ دنیا کی 100 بڑی یونیورسٹیوں کی فہرست میں اسلامی دنیا کی ایک بھی یونیورسٹی نہیں آتی‘ ساری اسلامی دنیا مل کر جتنے ریسرچ پیپرز تیار کرتی ھے ، وہ امریکا کے ایک شہر بوسٹن میں ھونے والی ریسرچ کا نصف بنتا ھے۔

پوری اسلامی دنیا کے حکمران علاج کے لیئے یورپ اور امریکا جاتے ہیں‘

یہ اپنی زندگی کا آخری حصہ یورپ‘ امریکا‘ کینیڈا اور نیوزی لینڈ میں گزارنا چاھتے ھیں‘

دنیا کی نوے فیصد تاریخ اسلامی ملکوں میں ھے ، لیکن اسلامی دنیا کے نوے فیصد خوشحال لوگ سیاحت کے لیئے مغربی ملکوں میں جاتے ھیں‘

ھم نے پانچ سو سال سے دنیا کو کوئی دواء‘ کوئی ہتھیار‘ کوئی نیا فلسفہ‘ کوئی خوراک‘ کوئی اچھی کتاب‘ کوئی نیا کھیل اور کوئی اچھا قانون نہیں دیا۔

ھم نے اگر ان پانچ سو برسوں میں کوئی اچھا جوتا ھی بنا لیا ھوتا تو ھمارا فرض کفایہ ادا ھو جاتا‘

ھم ھزار برسوں میں صاف ستھرا ، استنجہ خانہ نہیں بنا سکے‘ ھم نے موزے اور سلیپر اور گرمیوں میں ٹھنڈا اور سردیوں میں گرم لباس تک نہیں بنایا‘

ھم نے اگر قرآن مجید کی اشاعت کے لیئے کاغذ‘ پرنٹنگ مشین اور سیاھی ھی بنا لی ھوتی ، تو آج ھماری عزت رہ جاتی‘ ھم تو خانہ کعبہ کے غلاف کے لیئے کپڑا بھی اٹلی سے تیار کراتے ھیں۔

ھماری تسبیحات اور جاء نمازیں بھی چین سے آتی ھیں اور ھمارے احرام اور کفن بھی جرمن مشینوں پر تیار ھوتے ھیں‘

ھم مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ھے کہ دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمان صارف سے زیادہ اھمیت نہیں رکھتے‘  یورپ نعمتیں ایجاد کرتا ھے‘ بناتا ھے‘ اسلامی دنیا تک پہنچاتا ھے۔

اور ھم استعمال کرتے ھیں اور اس کے بعد بنانے والوں اور ایجاد کرنے والوں کو آنکھیں نکالتے ھیں۔

آپ یقین کیجئیے جس سال آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے سعودی عرب کو بھیڑیں دینے سے انکار کر دیا ، اس سال مسلمان حج پر قربانی بھی نہیں کر سکیں گے۔

اور جس دن یورپ اور امریکا نے اسلامی دنیا کو گاڑیاں‘ جہاز اور کمپیوٹر بیچنا بند کر دیئے۔

ھم اس دن گھروں میں محبوس ھو کر رہ جائیں گے‘ ھم شہر میں نہیں نکل سکیں گے‘ یہ ھیں ھم اور یہ ھے ھماری اوقات۔

لیکن آپ کسی دن اپنے دعوے سن لیں۔

آپ ان نوجوانوں کے نعرے سن لیں جو میٹرک کا امتحان بھی پاس نہیں کر سکے‘

جنہیں پیچ تک نہیں لگانا آتا اور جس دن ان کے بوڑھے والد کی دیہاڑی نہ لگے ، اس دن ان کے گھر چولہا تک نہیں جلتا‘

آپ ان کے نعرے‘ ان کے دعوے سن لیجئیے‘ یہ لوگ پوری دنیا میں اسلام کا جھنڈا لہرانا چاھتے ھیں‘

یہ اغیار کو نیست و نابود کرنا چاھتے ھیں‘

ھم نے آخر آج تک کیا کیا ھے؟ ھم کس بل بوتے پر خود کو دنیا کی عظیم ترین قوم سمجھتے ھیں؟ مجھے آج تک اس سوال کا جواب نہیں مل سکا۔

ھم اگر دل پر پتھر رکھ کر یہ حقیقت مان لیں تو پھر ھمیں پتہ چلے گا کہ ھماری حرام خوری ھمارے جینز کا حصہ بن چکی ھے اور اب ہم اسی کے عادی ہو چکے ہیں

اس کے علاؤہ کچھ بھی سوچنے، سمجھنے سے عاجز ہو

چکے ہیں لیکن اس کے باوجود ہم اپنے اندھیروں سے باہر

نکل کر کچھ دیکھ اور سن نہیں سکتے ۔ ۔۔

اس امت میں اب صرف  چند ایسے مومن ہیں جو کفار کے لیے درد سر ہیں باقی سب تو سو رہے ہیں…

نوٹ اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے

Loading