مسیح الدجال
نام و معنی :
دجال کو مسیح کیوں کہا جاتا ھے ؟
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ مسیح الدجال۔۔۔ تحریر۔۔۔ڈاکٹر عبدالرؤف) جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ یہودی دجال کو مسیح یا مسیحا یا مسیاہ بھی کہتے ہیں۔ جبکہ عیسائی اسے جھوٹا مسیح ، یا مسیح الدجال بھی کہتے ھیں مسیح کا مادہ “مَسَحَ” یا “مَسْحْ” ھے
مسیح دراصل عبرانی میں ’ماشیح‘ یا ’مشیحا‘ تھا جس کے معنی مبارک کے ہیں
مسح کا ایک معنی چھونا ، مٔلنا یا مالش کرنا ہے اس مادہ سے مسیح کا مطلب ھوا۔تیل کی مالش کیا ہوا۔۔(بنی اسرائیل کے ہاں قدیم طریقہ یہ تھا کہ کسی چیز یا کسی شخص کو جب کسی مقدس مقصد کے لیے مختص یا تیار کیا جاتا تھا تو اس چیز یا اس شخص پر تیل مل کر اسے متبرک کردیا جاتا تھا۔
مسیح یا مسیحا کا ایک مجازاً معنیٰ، معشوق، محبوب اللہ کا پیارا، اور خلیل بھی ھے، جس کے پاس عاشق کے مرض کا علاج ہوتا ہے اور جو اس کو نئی جان عطا کر سکتا ہے۔ زندہ کرنے والا، بہت زیادہ سیر کیا ھوا۔ اسی معنٰے میں مسیح حضرت عیسیٰ (ع) کا لقب بھی ہے جو معجزے کے طور پر مردے کو زندہ اور اندھے اور کوڑھی کو اچھا کر دیتے تھے۔ حضرت عیسی (ع) کو مسیح کہنے کی ایک وجہ علماء نے یہ بھی بیان فرمائی ھے کہ وہ پہلے زمین پر آئے ، پھر آسمان پر زندہ اٹھائے گئے پھر آخری دور میں دوبارہ آسمان سے اتارے جائیں گے۔ اس طویل سیر و سیاحت کی وجہ سے بھی حضرت عیسی کو مسیح کہا جاتا ھے۔ اور یہودی دجال کو بھی مسیح اس وجہ سے کہتے ھیں کہ یہ فتنہ بھی ساری روئے زمین کا احاطہ کریگا۔
گویا لفظ مسیح کا اطلاق حضرت عیسٰی (ع)اور دجال ملعون دونوں پر ہوتا ہے اور انکےدرمیان امتیازی فرق یہ ہے کہ جب صرف ” مسیح” لکھا اور بولا جاتا ہے تو اس سے حضرت عیسی(ع)کی ذات گرامی مراد لی جاتی ہے اور جب دجال ملعون مراد ہوتا ہے تو لفظ مسیح کو دجال کے ساتھ ملا کر” مسیح دجال” لکھتے اور بولتے ہیں۔
المَسِيحُ :عيسى بنُ مريم (ع). المَسِيحُ المَمْسُوح بمثل الدُّهْن وبالبركة ليكون مَلِكًا أَو نَبيًّا، وهذه من عادات اليهود والنَّصارى.المَسِيحُ الأَعْوَرُ.ورجلٌ مَسِيحُ الوجه: ليس على أحد شِقَّيْ وجهه عَيْنٌ ولا حاجب. والجمع : مُسَحَاءُ، ومَسْحَى. المَسِيحُ العَرَقُ يُمْسَحُ من الوجه. المَسِيحُ المِنْدِيلُ الخَشِن يُمْسَحُ به۔ (معجم الوسيط)
یہود کے نزدیک مسیح الدجال کی اصطلاح کا استعمال
اب ھم دجال کو مسیح کہنے کی کچھ مزید وجوہات پر بھی غور کرتے ھیں ۔ جیسا کہ میں لفظ مسیح کے معانی کے حوالے سے پہلے ذکر کر چکا ہوں کہ مسیح کا معنی بزرگ اور بڑا شخص ، قد آور اور مالش کیا ھوا ، کسی خاص مقصد کے لیے تیار شدہ ، طاقتور ہستی اور ایک ایسا شخص ہے جس کے پاس لوگوں کے دکھوں کا مداوا اور مسائل کا حل ہو ۔ اس لئے یہودی بھی دجال کو اس معنی میں مسیح الدجال کی ذو معنی اصطلاح سے تعبیر کرتے ھیں ۔
وہ ایسا کیوں کرتے ھیں اور مسیح الدجال سے ان کا مقصود کیا ھوتا ھے ؟؟ اس کو سمجھنے کے لیے ھم یہود کی تاریخ پر ایک سرسری اور طائرانہ نظر ڈالتے ھیں ۔ تفصیلا ذکر ان شاءاللہ آگے چل کر آئے گا ۔
چونکہ یہود تاریخی طور پر دنیا میں ہمیشہ ہر صدی میں یا ہر ایک دو صدی بعد ضرور مار کھاتے رہے ھیں اور تباھی کا شکار ھوتے رہے ہیں ۔ (درحقیقت یہ ان پر اللہ کی پھٹکار ھے ) اور جب کبھی بھی دنیا میں کہیں انہیں کچھ وقت کے لیے پناہ یا ٹھکانا ملا تو اس کی وجہ یا تو لوگوں کی حمایت رہی، یا پھر اللہ کی پکڑ میں انہیں کچھ ڈھیل میسر آ گئی ۔
جیسا کہ قرآن حکیم میں سورہ آل عمران آیت 112 میں ارشاد ھے.
ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ اَیْنَ مَا ثُقِفُوْۤا اِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ حَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَ بَآءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الْمَسْكَنَةُؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ یَقْتُلُوْنَ الْاَنْۢبِیَآءَ بِغَیْرِ حَقٍّؕ-ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّ كَانُوْا یَعْتَدُوْنَۗ۔( آل عمران 112)
ترجمہ:
یہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے رہے اور انبیاء کو ناحق کرتے رہے اس لیے یہ جہاں بھی ہوں ان پر (اللہ کی طرف سے ) ذلت اور خواری چسپاں کر دی گئی ھے ۔ (اگر ان کو کچھ مہلت ملی بھی تو صرف اس صورت میں کہ ) اللہ کی رسی (کی ڈھیل) سے یا انسانوں کی رسی کی ڈھیل سے۔ لیکن اس کے معاً بعد ہی وہ وہ اللہ کےغضبِ کا شکار ہوئے اور اُن پر مسکنت اور محتاجی دے ماری گئی ۔ ان کی اس ذلت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ نافرمان اور سرکش ھیں ۔
قرآن پاک کے اس تاریخی بیان کا ثبوت خود یہود کی تاریخ اور تاریخ عالم سے بھی ملتا ھے اور قرآن مجید نے متعدد جگہوں پر اس کا ذکر کیا ھے ۔ اس کا ثبوت یہ بھی ہے کہ یہ قوم ہمیشہ سے اپنے اوپر ہونے والے مظالم کا رونا بھی روتی آئی ہے۔ اور اپنی سیکورٹی اور بقا کے معاملے میں شدید خوف زدہ اور تحفظات کا شکار بھی رہی ھے۔ اور صدیوں سے تعصب اور عناد اور انتقام کی آگ میں جل کر دیگر اقوام کی تباہی کے لیے گڑھے کھودتی رہی ہے ، سازشیں کرتی رہی ہے اور اپنے زخم چاٹتی رہی ھے ۔یہ ایک ایسا زخمی سانپ ہے جو ڈسنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ۔
اب ان کے خیال میں اگر یہودی قوم کامیاب ھو سکتی ہے تو صرف چند صورتوں میں ۔
1. ساری دنیا کو اپنی سازشوں کے ذریعے لڑا کر ہلاک کر دے۔
2. پیسے اور دولت کے بل بوتے پر دنیا کو اپنا زیر دست کر لے اور قابض ہو جائے ۔
3. یا پھر کسی ایسے انقلاب ، یا شیطانی فتنے کا ساتھی بن کر ما فوق الفطرت قوتیں پا لے، جو ساری دنیا کو تباہی کا شکار کر دے ۔ اس مقصد کے لیے ان کی فری میسن اور ایلومیناتی جیسی انتھائی خفیہ تنظیمیں شیطان کی عبادت کرتی ھیں ۔ اور موساد اور انڈر ورلڈ جیسی خفیہ تنظیمیں دنیا کے ہر ملک میں گھناؤنی سازشیں کرتی ھیں ۔
ان کا خیال ہے کہ اب ان کے دکھوں کے مدواے کا ایک طاقتور طریقہ دجال کی آمد پر اس کی حمایت ھے۔ کیونکہ اس سے عیسائی اور مسلمان دونوں خوف زدہ ھیں ۔ اس لیے یہود کے ہاں دجال کو مسیح الدجال کہ کر پکارا جاتا ھے کہ وہ طاقتور شیطان ھوگا ، بڑا ھو گا اور بے پناہ طاقتوں کا مالک ھو گا ۔ اس لیے وہ صہیون کی پہاڑی کے دامن میں موجود دیوارِگریہ کے پاس جا کر روتے اور گڑگڑاتے ھیں اور اس مسیح الدجال کو پکارتے ھیں ۔ اس عمل کا مقصد ایک طرف ان کے عقیدے کی تسکین ،اور ان کے دل کو سہارا فراھم کرنا ہے اور دوسری طرف ان کی نسل کی تربیت کرنا ہے تاکہ آنے والی نسل فتنہ دجال سے خوب واقف ھو اور اس کی آمد پر اس کی حمایت اور اس کی ہموار کرنے کی بھرپور تیاری کرسکے ۔