مشینی اور عجلت بھری زندگی
تحریر۔۔۔عیشا صائمہ
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ مشینی اور عجلت بھری زندگی ۔۔۔ تحریر۔۔۔عیشا صائمہ)انسان ہمیشہ کام کرنے اور اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے نت نئے طریقے اپناتا رہا تبدیلی چونکہ انسان کی فطرت میں شامل ہے اور وہ اپنی اس عادت سے مجبور نئے نئے تجربات کرتا رہتا ہے انسان نے مٹی کے گھروں کو سیمنٹ، ریت اور بجری سے بنانا شروع کیا
دیکھتے ہی دیکھتے ان گھروں نے محلوں، پھر کالونیوں کی شکل اختیار کر لی – ایسے ہی انسان نے خط لکھنے کے سلسلے کے ساتھ ساتھ بات کرنے کے لیے ٹیلی فون کی سہولت سے فائدہ اٹھایا خط کو آدھی ملاقات سمجھا جاتا تھا پھر ٹیلی فون نے رابطوں کو اتنا آسان کیا کہ اپنے پیاروں سے بات کر کے خوشی محسوس ہونے لگی اس زندگی میں اک سکون تھا جہاں اپنے اپنوں سے بات کرتے تھے وہیں محلے میں موجود لوگوں کو ایکدوسرے کی خبر ہوتی تھی سب ایکدوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے
پورے محلے میں ایک ٹیلی فون ہوتا تھا اور لوگ ہمسایوں کے گھر جاکر فون سنتے تھے اس بات کا الگ ہی مزہ تھا، شادی بیاہ میں ہمسائے ایسے حق سے شریک ہوتے تھے جیسے ان کے سگے بہن بھائی کی شادی ہو رہی ہے
کسی کے انتقال پر پورا محلہ ایسے کام کرتا تھا جیسے ان کے گھر کا کوئی بندہ رخصت ہو گیا ہو کئ کئ دن تک ماتم والے گھر چولہا نہیں جلتا تھا کھانے کا انتظام سب پڑوسی مل کر کیا کرتے تھے – رشتوں کا احترام تھا
کوئی کسی سے نہیں ڈرتا تھا منہ بولے بہن بھائیوں میں بھی یہ پتہ ہوتا تھا کہ یہی رشتہ ہے اسی رشتے کو نبھانا ہے –
رشتوں میں اخلاص اور محبت تھا -بچوں کی تربیت بہترین انداز میں ہوتی تھی دادیاں اور نانیاں انبیاء کے قصے اور کہانیاں بچوں کو سناتی تاکہ ایک اچھا سبق ان کے ذہنوں میں محفوظ ہو جائے، بچوں کی پرورش سب کی نگرانی میں ہوتی تھی – تاکہ انہیں اچھے برے کی تمیز ہو سکے – لوگ کاموں سے فارغ ہو کر ایکدوسرے کے پاس بیٹھتے، مسائل پہ بات چیت ہوتی ، گھر اور محلے کے بڑے بیٹھ کر ان مسائل کو حل کرتے یوں سمجھیے زندگی پر خوشیوں کا راج تھا – پھر ایسی ہوا چلی کہ انسان نے مزید ترقی کی اپنی زندگی کو مزید آسان بنایا بہت سی مشینیں ایجاد کیں تاکہ وقت بچ سکے اور کم وقت میں زیادہ کام ہو سکے –
جدید آلات نے انسان کی زندگی کو بہت سہل بنا دیا پھر آدھی ملاقات کے لیے موبائل فون آگیا جس نے دور بیٹھے انسانوں کو ایکدوسرے سے تو ملایا لیکن اصل میں قریب کے رشتوں سے دوری نے بھی جڑ پکڑ لی آج کل کی زندگی اتنی مصروف ہے کہ کسی کے پاس کسی کے لیے وقت نہیں یہاں تک کہ خونی اور قریبی رشتےبھی ایک دوسرے سے انجان بن گئے ہیں – پاس رہنے والوں کو دوسرے کی خبر نہیں باقی پوری دنیا سے رابطہ ہے –
اس کی اہم وجہ ہم سب نے اپنی اصل کو چھوڑ دیا ہے، پہلے لوگوں نے بہترین اخلاق کو اپنایا، عبادات اور معاملات کا جو بہترین نظام ہمیں دین اسلام سکھاتا ہے ان پہ عمل پیرا ہو کر زندگی بسر ہوری تھی معاشرتی اقدار کا بھی لحاظ تھا اور معاشرتی اقدار مذہب اسلام سے الگ نہیں تھیں لیکن آج مسلمانوں کی پستی کی اصل وجہ دین سے دوری ہے،
نہ صرف گھروں میں بلکہ پورا معاشرہ جدیدیت اور دکھاوے کی حرص و دلدل میں ایسا پھنس چکا ہے کہ اس سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی – لیکن امید ہے کہ جب انسان اپنی اصل کی طرف لوٹے گا تو فلاح نصیب ہو گی اس مشینی اور عجلت بھری زندگی سے نکل کر اپنے مقصد کو پہچانے گا تو ہر قسم کی حرص ختم ہو جائے گی اور انسان اپنے مقام سے نیچے نہیں گرے گا –