ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )مصر کے جنگل میں ایک شہزادہ چند بکریاں چراتا۔ اور ان سے حاصل ہونے والے دودھ اور جنگل کے پھلوں پہ گزارہ کرتا۔ وہ تھا شہزادہ مگر نہ تو اس میں شاہوں والاغرور تھا۔ اور نہ ہی وہ جاہ وجلال۔ وہ عام انسانوں کی طرح زندگی بسرکرتا۔ روکھی سوکھی کھاتا۔ بیشتر وقت اپنی رعایا کی خدمت، اور خدا کی یاد میں بسرکرتا۔ اس کی نیک چلنی کا پوری ریاست میں چرچا تھا۔ اسے یہ خصوصیات اپنے رحم دل باپ سے وراثت میں ملی تھیں۔ ایک دن شہزادہ معمول کے مطابق رعایا کے مسائل سننے کے بعد، جنگل میں، دنیا سے بے نیاز، خدا کی یاد میں محو تھا، کہ اس نے دیکھا، کہ ایک غریب لکڑہارا اپنے گدھے کوساتھ لئے ہوئے لکڑیاں کاٹ رہاہے۔ اور اور اس سے باتیں بھی کیے جارہا ہے۔ حالانکہ اسے معلوم تھا کہ نہ تو گدھا اس کی بات سن رہاہے، نہ ہی سمجھ رہا ہے۔ اور پھر وہ زاروقطار رونے لگا۔
شہزادہ یہ دیکھ کر بہت حیران ہوا، کہ لکڑہارا روزانہ لکڑیاں کاٹتا، گدھے سے چند باتیں کرتا، اور پھر پھوٹ پھوٹ کے رونے لگتا۔ چند روز یہی معاملہ رہا، جب رحم دل شہزادے سے اس کا رونا دیکھا نہ گیا۔ اور وہ یہ گتھی سلجھانے میں ناکام رہا۔ تو بلا آخر درخت کی اوٹ سے باہر آگیا۔ اور لکڑہار سے پوچھا: اے لکڑہارے تیرے اس طرح بلک بلک کر رونے کی وجہ کیا ہے؟ غریب بوڑھا ،ہمدرد انسان سامنے پاکر اور شدت سے رونے لگا۔ اور سسکیوں کے ساتھ اپنی بدبختی کی کہانی سنانے لگا۔
میرایک بیٹا تھا، جسے خدا نے بے تحاشہ دولت سے نوازا تھا۔ ہر طرح کا عیش اسے میسر تھا۔ ،مگر اس دولت کاغرور، اس کے تن بدن پر اس قدر حاوی ہوچکا تھا۔ کہ اسے اپنی دولت کے سوا کچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔ اپنے غریب رشتہ داروں کو دھکے دیتا، انہیں ذلیل ورسوا کرتا۔ پھر اس کی بربادی کا دن آگیا۔ ایک دن میری دور کی ایک رشتہ دار دوسری ریاست سے میرے گھر سوالی بن کر آئی۔ یہ سوچ کرکہ مشکل میں اپنے ہی کام آتے ہیں۔ وہ بہت غریب تھی اس کی بیٹی کی شادی قریب تھی مگر کوئی انتظام نہ ہوپایا تھا۔ اسے کچھ رقم کی ضرورت تھی۔ وہ اللہ کی نیک بندی تھی ۔بیشتر وقت عبادت میں گزارتی تھی۔ مگر میرا بیٹا دولت کے نشے میں اندھا ہوچکا تھا۔ اس عورت کودھکے مارکر گھر سے نکال دیا۔ یہی وہ وقت تھا جب ہماری بربادی شروع ہوئی۔ اسی رات سرخ آندھی چلی بجلی کڑکی اور تیز بارش ہوئی۔ میں اور میرا بیٹا اپنے نرم بستر پر میٹھی نیند سورہے تھے۔ اور وہ عورت پوری رات ہمارے دروازے سے لگی روتی رہی۔ شدید طوفان اور رات کے گھنے اندھیرے میں دوسری ریاست واپس جانا اس کیلئے ممکن نہ تھا۔ اور وہ ضعیف عورت پوری رات اس طوفان کا مقابلہ کرتی رہی۔ اور میرے بیٹے کورحم نہ آیا۔ صبح جب میری آنکھ کھلی تو مجھ پہ قیامت ٹوٹ پڑی۔
میرا بیٹا گدھے کی صورت اختیار کرچکا تھا۔ گھر کاسارا سامان آسمانی بجلی گرنے سے، جل کر خاک ہوچکا تھا۔ سب کچھ برباد ہوگیا تھا۔ اس سب میں میرا قصور یہ ہے۔ کہ میں نے اپنے بیٹے کو غرور و تکبر کرنے سے نہ روکا۔ برائی کی طرف بڑھتا ہوا، اس کا کوئی قدم نہ روکا۔ اور اب یہ عالم ہے، کہ میں جنگل سے لکڑیاں کاٹتا ہوں۔ اور اپنے ہی بیٹے پہ لاد کر، بیچنے لے جاتا ہوں۔ ،اور اسی سے ہم باپ بیٹے کا گزرا چلتا ہے۔یہ سن کر شہزادے کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ اور وہ لکڑہارے سے مخاطب ہوا: اے ضعیف انسان! تو نے بہت ظلم کیا۔ بے شک برائی پر خاموش رہنا، اور اسے نہ روکنا، اس کا ساتھ دینے کے متراوف ہے۔ تو نے اپنے بیٹے کو برائی سے نہ روکا۔ ،مجھے تیری حالت پر افسوس ہے۔ اب میں اپنی اس غریب رشتہ دارکی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہوں۔ اس کی تلاش مجھے رلاتی ہے۔ شاید وہ میری امدد کرسکے۔ وہ مجھے مل جائے میں اس سے معافی مانگوں گا۔ شاید میرے گناہوں کاازالہ ہوسکے۔ مگر افسوس وہ مجھے کہیں نہیں ملتی۔ یہ کہہ کر لکڑہارا رونے لگا۔ شہزادے نے اس کے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔ تو اپنے گناہوں کی معافی اللہ سے مانگ۔ وہ بہت رحیم ہے، اگر اس نے تجھے معاف کردیا ۔تو وہ تجھے اس عورت تک پہنچانے کاکوئی نہ کوئی سبب ضرور بنا دے گا۔ وہ بہت مہربان ہے۔ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ بوڑھا لکڑہارا، اسی وقت سجدے میں گرکر بلک بلک کر اپنے گناہوں کی معافی مانگنے لگا۔اچانک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قسط #2 کے لیے انتظار کیجئے ۔ تیار کرکے اپلوڈ کیا جائے گا ۔
اگر کسی نے ابھی پڑھنا ہے تو کمنٹ میں لنک موجود ہے ۔