Daily Roshni News

مصنف احسان فیصل کنجاہی اپنی معروف کتاب سکندر چوہان کو تحفتاً پیش کر رہے ہیں۔

مصنف احسان فیصل کنجاہی اپنی معروف کتاب

مٹی کے رنگ، معروف  سنیئر صحافی اور مصنف

سکندر چوہان کو تحفتاً پیش کر رہے ہیں۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز ڈیسک)جب ہم اپنے ادبی ماحول پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم کو بے شمار قدآور ادیب ،لکھاری اور معروف وغیر معروف قلم کاروں کے اسمامیں بطور لاحقہ ان کے آبائی علاقے کا نام نظر آتاہے جونہ صرف ادیبوں کے ناموں کاجزو بن جاتاہے بلکہ اگر اس علاقائی نام کے لاحقے کا ذکر نہ کریں یا اس کو لکھانہ جائے تو ادیب کی شناخت ہی ادھوری لگتی ہے۔اپنے آبائی علاقے کی یہ نسبت ایک جانب تو کسی بھی مصنف کے وطن سے روشناس کراتی ہے تو دوسری جانب اس شہر یاقصبے کو بھی ادب پرور حلقوں میں نمایاں شناخت ملتی ہے جس سے مٹی اور فرد مل کر کسی خوشنما باغیچے کا منفردپھول بنتے ہیں جس کے معطرپن سے فضائیں مہکتی ہیں۔ضلع گجرات بھی اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ اس کے بعض قصبات کے نامور لکھاریوں نے اپنے ناموں کے ساتھ اپنے آبائی علاقوں کو جوڑے رکھاہے جس سے نہ صرف گجرات بلکہ ان کے علاقہ جات کی بھی پہچان کو دوام پہنچا ہے،کنجاہ کا قصبہ بھی اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ یہاں پر مولانامحمد اکرم غنیمت کنجاہی سے لے کر جناب شریف کنجاہی تک بے شمار نامور ادیب گزرے ہیں اور کئی ایسے نام ہیں جن کی پہچان کنجاہی ہے اور وہ ملک کے طول عرض میں اپنے قصبہ کے نام کے لاحقہ سے جانے جاتے ہیں ان میں سے ایک نام جناب احسان فیصل کنجاہی کابھی ہے۔احسان فیصل کنجاہی ایک ہمہ جہت قلم کار کی صفات لیے ہوئے ہیں جن میں آپ کوصحافی،ادیب،محقق،منتظم اور سب سے بڑھ کر ایک دوست نظر آئے گا۔اِن کی جہد مسلسل کا اندازہ اس امر سے کیاجاسکتاہے کہ ان کی اب تک مختلف موضوعات جن میں شاعری،نثر،خطوط وغیرہ شامل ہیں کی بائیس کتب منظر عام پر آچکی ہیں جن کو پاکستان بھر مین پذیرائی حاصل ہوئی اور ان کو متعدد اسناداور ایوارڈزاور یادگاری شیلڈوں سے نوازاجاچکاہے جو ان کی اپنے کام سے محبت ولگن کا منہ بولتاثبوت ہے ۔آج کی ملاقات مین جناب احسان فیصل کنجاہی صاحب نے اپنی تازہ ترین اکٹھی شائع ہونے والی کتب “مٹی کے رنگ”جس میں ان کے افسانے ہین یہ افسانے ان کی محنت شاقہ کا نتیجہ ہیں خاص طورپر”سہرا،مکان،ایک سوروپیہ،غیرت اور سہارے وغیرہ بہترین سماجی منظر کشی پیش کرتے ہیں۔

ان کی ایک افسانوں کی کتاب پہلے بھی خواب ایک حقیقت کے عنوان سے شائع ہوچکی ہے۔احسان فیصل کنجاہی کی شاعری کی کتاب”بکھری زلفیں”سال2012ء میں شائع ہوئی اس کی ایک کاپی جناب نے اپنے دستخطوں کے ساتھ فروری2013ء میں میرے یونان سے لوٹنے پر محبت واپنائیت سے عنائیت فرمائی ۔احسان فیصل اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ اسی کتاب پر پاکستان کی مایہ ناز یونیورسٹی”نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز اسلام آباد(نمل)”کے شعبہ اردو نے ایم فل کا مقالہ لکھوایاجس کے لیے محترمہ انیسہ بتول صاحبہ نے انتہائی محنت ومشقت سے کام لیاجس پر وہ مبارک باد کی حق دار ہیں اور بکھری زلفیںپران کا مقالہ کتابی صورت میں آپ کے ہاتھوں میں ہے جس کوشیرانی مرکز تحقیق وتالیف نے شائع کیاہے۔مقالے میں محترمہ انیسہ بتول صاحبہ نے کتاب کے اشعار اور احسان فیصل کنجاہی کی شخصیت کا بھی بھرپور ذکرکیاہے اور یقینا آپ بھی ان کی اس محنت شاقہ سے مستفید ہونگے۔بکھری زلفیں دراصل ان کی نظموں ،غزلوں اور آزاد نظموں پر مشتمل کتاب ۔اس کے علاوہ بھی احسان فیصل کنجاہی پرنیشنل کالج آف بزنس ایڈمنسٹریشن اینڈ اکنامکس کے شعبہ اردو کی جانب سے سال2017ء 2019ءکے سیزن مین ایم فل اُردوکے لیے سکالر ارسلان احمد نے بعنوان ”احسان فیصل کنجاہی کی ادبی وصحافتی خدمات”پر مقالہ لکھا، علاوہ ازیں تیسرامقالہ گزشتہ سال(2023ء)یونیورسٹی آف سیالکوٹ کے فیکلٹی آف ہیومینٹیز اینڈ سوشل سائنسز کے تحت وقاص اکرم(ایم ایس سکالر)نے بعنوان”احسان فیصل کنجاہی کی افسانوی نثرکاموضوعاتی مطالعہ”لکھاجو احسان فیصل کنجاہی کی انتھک محنت کا ثمر ہیں اس کے علاوہ منہاج یونیورسٹی اورراولپنڈی کی ایک دانش گاہ کی جانب سے ان کے اخبار کامرانیاں اور نثر پر مقالہ جات پر کام ہورہاہے ۔انیسہ بتول صاحبہ کے مقالے کی کتابی شکل میں اشاعت کے بعد ہم ان سے یہ بھی بھرپور اصرار کررہے ہیں کہ بقیہ دونوں مقالہ جات اور بزم غنیمت وشریف کنجاہی ایوارڈز جو وہ ہرسال صاحبانِ کتب ادیبوں کو مختلف شعبہ جات میں دیتے ہیں کو بھی کتابی صورت میں شائع کرین اورجب آپ انتھک محنت کرتے ہیں اور دھن میں مگن ہوکرکام کرتے ہیں تب حاسدین اورراہ کھوٹی کرنے والیوں کوہونا کوئی اچنبھے کی بات نہین یہ فطری امر ہے جوان کی راہ میں مانع نہ ہوسکے ان کے لیے احسان فیصل کنجاہی خود کہتے ہیں۔

نشانہ تواس لیے خطاہوا فیصل

پرندہ  تو اونچی اُڑان میں تھا

اورکچھ احباب کی پسند نا پسند کی وجہ سے ان کا کچھ کام خراب کیاگیا اس کے بعد انھوں نے ٹھان لی کہ کتاب کے ہر مرحلے کو اپنی نگرانی میں مکمل کرائیں گے ،یوں انھوں نے اپنی ہر کتاب کو خود آخری مرحلے تک پہنچایاجس کے مثبت نتائج برآمد ہوئے کہ ان کاکام ہر سطح اور ملک بھر مین سراہاگیااوران کو پنجاب سمیت دیگر شہروں اور تنظیمات کی جانب سے بھی بھرپورپذیرائی ملی،ان کی محنت شاقہ کا ثبوت ان کی تازہ تصنیف” خط میرے نام ”ہے جس میں پاکستان کی نامور شخصیات سے ہونے والی ان خط وکتابت کو شامل کیاگیاہے۔سرکاری اداروں اور نامور ادبی تنظیموںمیں ان کی شرکت کو قدر کی نگاہ سے دیکھاجانے لگااور ان کے کلام آج بھی ذوق وشوق سے سناجارہاہے۔

خاروں کا  قرض  ہمیں  منظور  مگر

پھولوں کی ہر اِک اد ا سے  ڈر لگتاہے

اکثر دیکھاگیاہے کہ ادباء کے لواحقین کسی بھی ادیب کی کتابوں یاان کے کاموں کو آگے بڑھانے کی بجائے ان سے جان چھڑاتے ہیں احسان فیصل کنجاہی اس لحاظ سے بھی خوش قسمت ہیں کہ ان کی بیٹی مرحافیصل کا ادبی رجحان والد محترم کی طرح ہی ہے اور ان کی ایک کتاب۔۔۔۔۔۔۔بھی شائع ہوچکی ہے جس سے ہم امید رکھتے ہیں کہ یہ گھرانہ علمی ادبی میراث کاحامل ہوگا۔

ہماری دلی دعاہے احسان فیصل کنجاہی یوں ہی اپنااور اپنے قصبہ کنجاہ کا نام روشن کرتے رہیں اور قلم وکاغذ کے رشتے کاحق اداکرتے رہیں  اور ان نام کے ساتھ کنجاہ اور کاغذ قلم بطور لاحقہ قائم ودائم رہے آمین ، ایک مرتبہ پھر میں یہ امید رکھتاہوں کہ ان پر ہوئے اور مستقبل میں ان کی ادبی  خدمات کے ضمن میں آنے والے مقالہ جات کتابی صورت مین شائع کرنے کی سعی فرمائیں گے جبکہ اس کتاب کی اشاعت پر میںادارہ شیرانی مرکز تحقیق وتالیف کو بھی مبارک باد پیش کرتاہوں جنھوں نے معیاری کتب کی اشاعت کا بیڑہ اٹھایاہے۔

رہوں منسوب تیرے نام سے میں

یہی بس کام کرناچاہتاہوں

      دعاگو: سکندرریاض چوہان

7نومبر2024بروز جمعرات

Loading