Daily Roshni News

مصنوعات برائے خواتین۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم

مصنوعات برائے خواتین

تحریر۔۔۔حمیراعلیم

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ مصنوعات برائے خواتین۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم )مغرب نے ہمیشہ خود کو خواتین کی آزادی اور حقوق کا علمبردار شو کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے۔لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اس نے خواتین کو ہمیشہ کمتر ہی جانا اور ان کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کیا جیسے وہ محض ایک شو پیس اور مرد کے لیے انجوائے منٹ کا ذریعہ ہیں۔اس کا سب سے بڑا ثبوت مغربی ممالک میں خواتین کی مردوں سے کم تنخواہیں اور زنانہ مصنوعات کی زیادہ قیمتیں ہیں۔

     اگرچہ ہمارے ہاں بھی یہ تفاوت پایا جاتا ہے لیکن ہم اس بارے میں زیادہ فکرمند نہیں تھے۔جب تک کہ  وکیل اور حقوقِ نسواں کی سرگرم کارکن ماہ نور عمر نے حکومت کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر نہیں کیا کہ سینیٹری پیڈز پر غیر منصفانہ ٹیکس عورتوں کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔حکومت نے سینیٹری پیڈز، کو بنیادی ضرورت کی بجائے پرتعیش شے قرار دے کر ان پر 18 فیصد سیلز ٹیکس اور بعض صورتوں میں 25 سے 40 فیصد تک کسٹمز اور درآمدی ڈیوٹیز عائد کر رکھی ہیں۔ ان کے مطابق یہ ٹیکس دراصل خواتین کے اس حیاتیاتی عمل پر معاشی بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے جس پر ان کا کوئی اختیار نہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں صرف 12 فیصد خواتین تجارتی طور پر تیار کردہ سینیٹری پیڈ استعمال کر پاتی ہیں۔ جب کہ باقی خواتین مجبوری کے عالم میں غیر محفوظ متبادل اپناتی ہیں۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ یہ صورتحال آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 25 (برابری کا حق) اور آرٹیکل 14 (عزتِ نفس اور وقارِ انسانیت کے تحفظ) کے منافی ہے۔

    دنیا بھر میں خواتین کے لیے مخصوص مصنوعات اکثر مردوں کی مصنوعات کے مقابلے میں زیادہ مہنگی ہوتی ہیں۔ یہ فرق محض قیمت یا برانڈنگ کا نہیں بلکہ ایک گہرا سماجی اور معاشی مسئلہ ہے۔ اس حقیقت کو عام طور پر پریڈ ٹیکس یا پنک ٹیکس کہا جاتا ہے۔ یعنی خواتین کی حیاتیاتی ضرورت کو ایک تجارتی موقع سمجھ کر اس پر اضافی قیمت یا ٹیکس لگا دینا۔

   یہ مسئلہ محض ٹیکس کا نہیں بلکہ بنیادی صحت، معاشرتی رویوں اور صنفی انصاف کا ہے۔ اگر ایک عورت کو اپنی حیاتیاتی ضرورت پوری کرنے کے لیے بھی ٹیکس ادا کرنا پڑے تو یہ ایک ایسی زیادتی ہے جو مردوں پر لاگو نہیں ہوتی۔  اس دوہرے معیارکا سامنا دنیا بھر کی خواتین کو ہے۔ مردوں کی مصنوعات پر اکثر کم ٹیکس یا زیادہ سہولتیں ہوتی ہیں۔ جب کہ خواتین کے لیے بنائی جانے والی اشیاء پر اضافی بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ رجحان نہ صرف معیشت میں بلکہ سماجی رویوں میں بھی عورت کو ایک ثانوی درجے پر دھکیل دیتا ہے۔

      سینیٹری پیڈز  پر ٹیکسزایک تو مالی بوجھ، اور دوسرے سماجی شرمندگی ہیں ۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں خواتین کی بڑی تعداد دیہی علاقوں میں رہتی ہے اور محدود وسائل رکھتی ہے وہاں یہ مہنگائی انہیں صحت کے شدید خطرات سے دوچار کرتی ہے۔ ایسے حالات میں کپڑا یا دیگر غیر محفوظ متبادل استعمال کرنا عام بات ہے، جو انفیکشن اور دیگر بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے۔

     ماہ نور عمر نے ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ اپنے اسکول کے دنوں میں پیڈز کو بازو کے نیچے چھپا کر لے جایا کرتی تھیں کیونکہ معاشرے میں یہ تاثر دیا گیا ہے کہ پیریڈز پر بات کرنا شرمناک ہے۔ یہی رویہ اس وقت مزید خطرناک ہو جاتا ہے جب حکومت بھی اس خاموشی میں شریک ہو کر ایسی مصنوعات پر ٹیکس لگا دیتی ہے جیسے وہ کوئی غیر ضروری شے ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ پیریڈز کوئی عیب نہیں بلکہ عورت کی جسمانی صحت کا ایک قدرتی حصہ ہیں۔ اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس فطری عمل کے دوران سہولت فراہم کرےنہ کہ مالی بوجھ بڑھائے۔”

      دنیا کے کئی ممالک میں اسی نوعیت کی تحریکیں چل چکی ہیں۔ مثال کے طور پر اسکاٹ لینڈ دنیا کا پہلا ملک ہے جس نے 2020 میں خواتین کی تمام مصنوعات کو مفت قرار دے دیا۔ کینیا 2004 میں سینیٹری پیڈز پر ٹیکس ختم کرنے والا پہلا افریقی ملک بنا۔ آسٹریلیا اور کینیڈا نے بھی 2018 میں ویلیو ایڈیڈ ٹیکس (VAT) ختم کیا تاکہ خواتین کو اس بوجھ سے نجات مل سکے۔ بھارت میں بھی 2018 میں عوامی دباؤ کے بعد جی ایس ٹی (Goods and Services Tax) ختم کیا گیا، اور اب وہاں سینیٹری مصنوعات بنیادی ضروریات کی فہرست میں شامل ہیں۔ اس کے برعکس، پاکستان میں 2025 تک یہ مسئلہ برقرار ہے اور ٹیکس شرح دیگر بنیادی اشیاء کے مقابلے کہیں زیادہ ہے۔

     یہ بات بھی اہم ہے کہ حکومت کے نزدیک شاید یہ محض ریونیو کا معاملہ ہو۔ مگر دراصل یہ پالیسی خواتین کی صحت، تعلیم اور روزگار پر براہِ راست اثر ڈالتی ہے۔ ماہرین کے مطابق جن علاقوں میں سینیٹری مصنوعات مہنگی ہوتی ہیں۔ وہاں اسکول جانے والی لڑکیاں مخصوص ایام کے دوران غیر حاضر رہتی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) اور یونیسف کی رپورٹس بھی بتاتی ہیں کہ صفائی اور سہولت تک عدم رسائی خواتین کی تعلیم اور روزگار کے مواقع کو متاثر کرتی ہے۔

     یہ مقدمہ پاکستان میں صنفی مساوات کی تحریک کے لیے ایک سنگِ میل بن سکتا ہے۔ اگر عدالت ماہ نور عمر کے حق میں فیصلہ دیتی ہے تو یہ نہ صرف ایک آئینی فتح ہوگی بلکہ خواتین کی صحت کے حوالے سے عملی پیش رفت بھی ہو گی۔ اس فیصلے سے حکومت پر دباؤ بڑھے گا کہ وہ اپنی ٹیکس پالیسیز کا ازسرِ نو جائزہ لے اور صنفی بنیاد پر غیر منصفانہ فرق ختم کرے۔

    تاہم اس راستے میں مشکلات بھی کم نہیں۔ حکومت شاید یہ مؤقف اختیار کرے کہ ٹیکس کا نظام عمومی ہے اور کسی ایک صنف کے لیے رعایت دینا ممکن نہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ معاملہ عام ٹیکس کا نہیں بلکہ صنفی انصاف کا ہے۔دنیا بھر میں پنک ٹیکس یا پریڈ ٹیکس کے خلاف جدوجہد جاری ہے۔ فرانس، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، بھارت، کینیا، اور کئی یورپی ممالک میں عوامی دباؤ کے بعد ٹیکس ختم کر دیے گئے ہیں۔ ان مثالوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جب حکومتیں سنجیدگی سے قدم اٹھاتی ہیں تو نہ صرف خواتین کو سہولت ملتی ہے بلکہ سماجی شعور بھی بہتر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، جہاں خاموشی اور شرم غالب رہتی ہے، وہاں خواتین کے مسائل دب کر رہ جاتے ہیں۔

    ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت سمیت معاشرہ یہ سمجھے کہ خواتین کی بنیادی ضرورت کو عیاشی نہیں ۔میڈیا، تعلیمی ادارے اور سول سوسائٹی اس مسئلے کو اجاگر کریں تاکہ پیریڈز اور سینیٹری مصنوعات جیسے الفاظ عام بول چال میں شرم یا تضحیک کا باعث نہ رہیں۔کیونکہ عورت کوئی پراڈکٹ نہیں وہ اس معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اور جب تک ہم اس کی فطری ضرورتوں کو عزت اور اہمیت نہیں دیں گے تب تک ترقی نہیں کر پائیں گے۔

Loading