Daily Roshni News

معاشی خودمختاری اور طلاق۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم

معاشی خودمختاری اور طلاق

تحریر۔۔۔حمیراعلیم

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوزانٹرنیشنل ۔۔۔ معاشی خودمختاری اور طلاق۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم )ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کی وال پر دو شادی شدہ بچیوں کی پوسٹس پڑھیں۔ایک کی اڑھائی سال کی بیٹی ہے وہ روز شوہر کے ہاتھوں پٹتی ہے اور جوائنٹ فیملی کے عذاب کی وجہ سے اس قدر تنگ ہے کہ خلع لینا چاہتی ہے مگر معاشی طور پر قلاش ہے۔ماسٹرز کے پہلے سال میں شادی کر دی گئی چنانچہ اب کسی اسکول میں ٹیچنگ کرے تو دس سے بیس ہزار ملتے ہیں کوئی اور جاب بھی کرے تو تیس چالیس ہزار میں کرائے کا گھر، بچی کے اخراجات ، بلز اور کھانے پینے کے لیے کچھ نہیں بچتا۔

    دوسری بچی کی بھی ایک چار سالہ بیٹی ہے۔وہ بھی ایسے ہی حالات کا شکار ہے مگر پی ایچ ڈی کر رہی ہے پھر بیوٹیشن،  بیکنگ کے کورسز کر کے اپنا بزنس کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ اپنے پاوں پر کھڑی ہو کر خلع لے سکے۔

     یہ صرف دو مثالیں نہیں بلکہ پاکستان کی 80% خواتین کا مسئلہ ہے۔طلاق دینے یا خلع لینے کی ہزاروں وجوہات ہو سکتی ہیں جو کہ ہر کپل کے لیے مختلف ہوتی ہیں۔لیکن خواتین کے چند مسائل مشترکہ ہوتے ہیں۔والدین اور بہن بھائی سماجی پریشر کی وجہ سے اپنی بیٹی یا بہن کو ہندووں کی طرح وقت رخصتی یہی نصیحت کرتے ہیں کہ اب یہی تمہارا گھر ہے یہاں ڈولی جا رہی ہے تو تمہارا جنازہ ہی نکلے۔کیونکہ ہم نے طلاق کو ایک حرام فعل بنا کر طلاق یافتہ عورت کو بدکردار ، بد اخلاق، بدزبان اور تمام بد والے الفاظ سے منسوب کر دیا ہے۔خواہ وہ کتنی ہی مظلوم کیوں نہ ہو قصور ہمیشہ اسی کا ہوتا ہے۔ایسی صورت میں جب وہ بچی خلع لینے کا ارادہ ظاہر کرتی ہے یا اسے طلاق کی دھمکی ملتی ہے تو فیملی پریشرائز کرتی ہے کہ جیسے بھی ہو ، جو بھی برداشت کرنا پڑے وہیں گزارہ کرو۔اور اگر بچے ہوں تو اسے بچوں کے مستقبل کے نام پر بلیک میل کیا جاتا ہے۔شوہر اور سسرال اسے بچے چھیننے کی دھمکی دے کر اپنے ظلم سہنے پر مجبور کرتے ہیں۔اور اگر وہ پھر بھی اس دردناک سچویشن سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاوں مارنے کی کوشش کرے تو یہ سوچ کہ بچوں کو لے کر کس جگہ جائے انہیں گھر اور ضروریات زندگی کیسے مہیا کرے اسے ظلم سہنے پر مجبور کرتی ہے۔کیونکہ جیسا بھی ہے محفوظ ٹھکانہ ہے اور دو وقت کا کھانا تو نصیب ہے۔اس ٹھکانے اورکھانے کی قیمت بعض اوقات اس کی ذہنی جسمانی صحت اور بعض اوقات اس کی زندگی ہوتی ہے۔

     اسلام نے بیوہ اور طلاق یافتہ عورت اور اس کے بچوں کی کفالت پر اجر کا وعدہ کیا ہے۔خصوصا والدین سے کہا کہ تمہارا بہترین صدقہ وہ ہے جو تم اس بیٹی پر کرو جو تمہاری طرف لوٹ آئے۔طلاق یافتہ یا بیوہ اور اس کے بچوں کی کفالت کے لیے ان سے نکاح کا حکم دیا۔اور اگر نکاح نہ ہو سکے تو پہلے محرم پھر نام محرم ورثا حتی کہ حکمران کو ان کی کفالت کا ذمہ دار ٹھہرایا مگر جیسے ہم دیگر احکام الہی کو بھلائے بیٹھے ہیں ان احکام کو بھی پس پشت ڈال کر ہندوانہ رسوم کا شکار ہو چکے ہیں۔جس وجہنسے معاشرہ بد امنی کا شکار ہو چکا ہے۔

    ایسی تمام بچیاں جو اپنی شادی سے ناخوش ہیں اور خلع چاہتی ہیں۔انہیں سب سے پہلے اپنے اور شوہر کی فیملیز کو انوالو کر کے مسئلے کا حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔اگر مسئلہ حل نہ ہو تو پہلے کوئی جاب یا بزنس کرنے کی کوشش کریں پھر کسی ہاسٹل یا ایک کمرے کے کرائے کے گھر میں شفٹ ہوں اور خلع کا کیس ، بچوں کی کسٹڈی کا کیس کریں۔پاکستان میں بہت سی این جی اوز ہیں جو لیگل ایڈ، شیلٹر اور جاب کا بندوبست بھی کرتی ہیں۔مگر چند حقائق کو ذہن میں رکھ کر خلع کا فیصلہ کریں۔

     ہم میں سے بہت سی خواتین گورنمنٹ جاب کرتی ہیں مگر شادی کے بعد سسرال یا شوہر ساری پے بھی لے لیتے ہیں اور گھر کی ماسی بھی بنا دیتے ہیں۔اگر عورت احتجاج کرے تو جاب چھڑوا دی جاتی ہے۔پھر ایسی عمر میں طلاق کا تحفہ دے دیا جاتا ہے جب عورت جاب کے قابل بھی نہیں رہتی۔اس صورت میں وہ بچوں کے ساتھ ہو تو چھوٹی موٹی نوکری کر کے بھی بچوں کو پال لیتی ہے۔اور اگر بچے بھی چھین لیے جائیں تو ذہنی مریض بن جاتی ہے۔اس لیے جاب کرنے والی خواتین نکاح نامے میں لکھوا لیں کہ جاب کسی صورت نہیں چھوڑیں گی نہ ہی ان کے شوہر یا سسرال کو ان کی پے پر کوئی حق حاصل ہے۔کیونکہ یہی شرعی اصول بھی ہے۔

      جب خلع لینے کا سوچیں تو سارے پروز اور کونز پر سوچیں۔کس جگہ آپ اور آپ کے بچے محفوظ رہیں گے۔خرچے کے لیے کتنا پیسہ چاہیے اور اکیلے آپ کس کس محاذ پر لڑ سکتی ہیں۔کیونکہ این جی اوز، شیلٹر ہومز اور دیگر ادارے آپ کو شہ تو دے دیتے ہیں مگر رہائش اور خرچہ نہیں دیتے۔اپنی جنگ آپ کو خود ہی لڑنی ہوتی ہے۔دارالامان کسی بھی طرح سے محفوظ جگہ نہیں کیونکہ ہم آئے روز ایسی خبریں سنتے ہیں جن میں یہاں مقیم خواتین کو غلط کاموں کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔اور بچے ہوں تو انہیں ابیوز سے بچانا ماں کی اولین ذمہ داری ہے۔جب آپ جاب پر ہوں تو بچوں کی حفاظت کا بندوبست بھی کرنا ہو گا۔

     این جی اوز وکیل تو شاید مفت میں مہیا کر دیں مگر ان کے ہر ہیرنگ پر تین سے پانچ ہزار کا خرچہ آپ کو برداشت کرنا ہو گا۔اور پاکستانی عدالتی نظام سے سب واقف ہیں ایک دو تین ہیرنگ کا کیس کم از کم پانچ سے آٹھ سال طویل ہو سکتا ہے۔اس لیے بچوں کی کفالت یا کسٹڈی کا کیس کرنے سے پہلے ان سب پہلووں کو ذہن میں رکھیں۔

    آپ کے والدین یا بھائی اگر آپ کو ساتھ رکھنے پر آمادہ ہو بھی جائیں گے تو کم ہی ایسے ہوں گے جو بخوشی ایسا کریں گے ورنہ سماجی دباؤ کے تحت وہ بھی کچھ عرصے بعد آپ کے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو سسرال کرتی تھی۔خصوصا جب بھائیوں کی شادیاں ہوں گی تو بھابھیوں کو آپ کا وجود کانٹے کی طرح کھٹکے گا۔بچے بھی سفر کریں گے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ ڈاکٹر، انجینئر، کرنل اور اعلی عہدے پر فائز مرد بھی بیوی پر تشدد کرتے ہیں۔خواہ ذہنی و جسمانی ہو یا زبانی۔اس لیے یہ مت سوچیے کہ آپ کی شادی شدہ زندگی آپ کی کزن یا دوست جیسی رومانٹک کیوں نہیں۔بظاہر بڑے رومانٹک اور خوش نظر آنے والے کپل کی زندگی بھی درحقیقت آپ سے انیس بیس کے فرق جتنی ہی مختلف ہے۔یہ الگ بات ہے کہ چند کپل سوشل میڈیا اور دوسروں کے سامنے اپنی زندگی کو کامیاب ترین پورٹرے کرتے ہیں جب کہ حقیقت میں وہ بھی طلاق خلع کی حد پر کھڑے ہوتے ہیں۔اس دھوکے کی کئی وجوہات ہوتی ہیں جو ہمارا موضوع نہیں۔بس یہ جان لیجئے کہ معاشی خودمختاری ہو یا نہ ہو جو اذیت آپ کے مقدر میں لکھی ہے وہ سسرال میں بھی سہنی ہے اور کسی اپنے گھر میں بھی۔کیونکہ معاشرہ کسی کو کسی بھی حال میں جینے نہیں دیتا۔خصوصا تنہا عورت تو ایسا آسان شکار سمجھی جاتی ہے جو ہلکے سے اشارے پر پکے پھل کی طرح گود میں گر جائے گی۔اپنی اور اپنے بچوں کی حفاظت کا سب سے پہلے انتظام کیجئے۔جس کا بہترین حل اپنے والدین کے ساتھ رہنا ہے۔اگر وہ نہ ہوں تو پھر کسی فلیٹ یا ایسے ہاسٹل میں رہیے جہاں سیکورٹی کا انتظام ہو۔جہاں مینٹیننس کا انتظام ہو تاکہ آپ کو پلمبر، ٹیکنیشن اور دیگر لوگوں کے لیے بھی خوار نہ ہونا پڑے۔

    یہ سب لکھنے کا مقصد خدانخواستہ ہرگز ہرگز یہ نہیں کہ آپ تشدد برداشت کرتی رہیں۔بلکہ صرف یہ حقائق سامنے لانا ہے کہ شوہر کے گھر یا سسرال میں صرف آپ ہی ان مصائب کا شکار نہیں بلکہ 80% خواتین جو خود ڈاکٹر، فیشن ڈیزائنر، کامیاب بزنس ویمن اور ورکنگ لیڈیز ہیں وہ بھی ہیں۔اگر وہ اس سب کو برداشت کر رہی ہیں تو وجہ کیا ہے وہ بہتر بتا سکتی ہیں۔مجھے یہی لگتا ہے کہ سماجی دباو، بچوں کی حفاظت اور کسی کی سپورٹ نہ ہونا، تنہائی کا خوف انہیں ہر ظلم برداشت کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ 

    طلاق یا خلع حرام نہیں وجہ یہی ہے کہ ہرانسان کو سکون دہ زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔لیکن اگر اس کے بعد زندگی پہلے سے بھی بدتر ہونی ہے تو پھر فیصلہ کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لیجئے۔چند ماہ کے لیے ایک دوسرے سے دور رہیے تاکہ اپنی اور دوسرے کی کوتاہیوں پر نظر ثانی کر سکیں اپنی غلطیوں کو سدھار سکیں اور اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے قابل ہو سکیں۔کسی پروفیشنل میرج کونسلر اور عالم دین سے رجوع کریں ان کی مدد سے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔پہلے ہر طرح سے کوشش کریں اگر بات نہ بنے تو آخری قدم اٹھائیے۔

   آنے قریب کسی قابل اعتبار این جی او سے رابطہ کیجئے جاب، رہائش،  وکیل کے مشورے کے لیے مدد لیجئے۔پھر کوئی انتہائی قدم اٹھائیے۔کراچی میں صارم برنی ٹرسٹ اور اسلام آباد میں مسجد رحمت للعالمین ایسے ادارے ہیں جو واقعی مدد کرتے ہیں۔مسجد رحمت للعالمین نے تو ایک پراجیکٹ کا آغاز بھی کیا ہے جس کے تحت بیوہ مطلقہ خواتین کو ایک بلڈنگ میں اسٹوڈیو اپارٹمنٹس مہیا کیے جائیں گے اور روزگار کا بھی بندوبست کیا جائے گا۔ایسے پراجیکٹس مخیر حضرات یا مخیر بیوہ اور مطلقہ خواتین مل کر بھی شروع کر سکتی ہیں۔کیونکہ یہ بھی صدقہ کی ایک قسم ہے۔اللہ تعالٰی سب بہنوں بیٹیوں کی ازدواجی زندگی پرسکون بنائے۔

Loading