مغیبات اکوان
شرح لوح و قلم
مصنف۔۔۔ خواجہ شمس الدین عظیمی ؒ
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ شرح لوح و قلم ۔۔۔ مصنف۔۔۔ خواجہ شمس الدین عظیمی ؒ )‘‘جُو’’ کی مختصر تعریف یہ ہے کہ کائنات اللہ تعالیٰ کی صفات پر قائم ہے۔جُو کی دوسری تعریف یہ ہے۔
کائنات از خود وُجود میں نہیں آئی، کسی ہستی نے اس کو تخلیق کیا ہے اس لئے ضروری ہے کہ تخلیق کا خالق کے ساتھ ربط ہو۔ یہ ربط ہمیں بتاتا ہے کہ:
① ہمارا پیدا کرنے والا اللہ ہے۔
② پیدا ہونے کے بعد وسائل فراہم کرنے والا اللہ ہے۔ کائنات بشمول انسان ہر ہر قدم پر خالق کی محتاج ہے۔
③ تیسرے نمبر پر ہم کائناتی حدود سے گزر کر نَوعی حدود میں داخل ہونے کے بعد انفرادی حدود میں داخل ہوتے ہیں۔ یعنی ہر بندے کو اپنا انفرادی شعور حاصل ہے۔ وہ شعوری طور پر یہ بات جان لیتا ہے کہ…. ‘‘میں ہوں’’۔
‘‘جُو’’ کے اوپر کے دونوں سلسلوں میں…. کائناتی اعتبار سے …. اور نَوعی اعتبار سے …. جاننا لاشعوری تحریکات کے تابع ہے۔
④ ‘‘جُو’’ کے چوتھے سلسلے میں انفرادی طور پر کوئی فرد اپنی شکل و صورت…. احساسات اور حسّیات سے واقف ہو جاتا ہے۔
⑤ پھر وہ ایک سیڑھی اور اترتا ہے یہ ‘‘جُو’’ کا پانچواں مرحلہ ہے۔ یہی وہ اِدراک ہے جس کی شرح میں یہ بات مخفی ہے کہ افراد کائنات کا تعلق افراد کائنات کا ربط یا افراد کائنات کی موجودگی ایسی ہستی کے ساتھ قائم ہے جو رگ جاں سے زیادہ قریب ہے اور جب کوئی بندہ نَوعی اعتبار سے اجتماعی ذہن کے ساتھ اس بات کا اِدراک کر لیتا ہے کہ میری موجودگی ایک ایسی ہستی کے تابع ہے جو جان سے زیادہ قریب ہے تو اسے اِدراک ہو جاتا ہے کہ میرا وُجود کائنات میں کہیں موجود ہے۔ ایسا بندہ ایک فرد کی حرکت کو دوسرے فرد کی حرکت کے ساتھ ایک ذرّے کی حرکت کو دوسرے ذرّے کی حرکت کے ساتھ دیکھ لیتا ہے۔
اس کی مثال زنجیر ہے۔ ایک زنجیر ہے، زنجیر میں بے شمار کڑیاں ہیں ہم ہر کڑی کا نام الگ الگ رکھتے ہیں۔ مثلاً
ایک کَڑی کا نام نَوعِ انسانی….
دوسری کَڑی کا نام جنات….
تیسری کَڑی کا نام فرشتے….
آسمانی کُرّہ یا کوئی اور کُرّہ ہے….
جب کوئی بندہ زنجیر کو بھرپور نظر سے دیکھے گا تو اس کی اجتماعی نظر ان تمام مخلوقات کو احاطہ کر لے گی۔ یعنی وہ زنجیر کی کڑی میں نَوعِ انسانی کو دیکھے گا، جنات کو دیکھے گا اور فرشتے بھی اس کے سامنے آ جائیں گے…. نہ صرف یہ کہ جنات اور فرشتے اس کے سامنے آ جائیں گے بلکہ آسمانوں کے اندر ستارے، سیّارے، کہکشانی نظام اور دیگر نظام سب کے سب اس کے سامنے آ جاتے ہیں۔
لوحِ محفوظ ایک ایسی اسکرین ہے یا ایسی فلم ہے جس میں کائنات کا اجتماعی پروگرام پورا کا پورا حرکت کے ساتھ محفوظ ہے۔
مغیبات اکوان
شرح لوح و قلم مصنف خواجہ شمس الدین عظیمی
‘‘جُو’’ کی مختصر تعریف یہ ہے کہ کائنات اللہ تعالیٰ کی صفات پر قائم ہے۔
جُو کی دوسری تعریف یہ ہے۔
کائنات از خود وُجود میں نہیں آئی، کسی ہستی نے اس کو تخلیق کیا ہے اس لئے ضروری ہے کہ تخلیق کا خالق کے ساتھ ربط ہو۔ یہ ربط ہمیں بتاتا ہے کہ:
① ہمارا پیدا کرنے والا اللہ ہے۔
② پیدا ہونے کے بعد وسائل فراہم کرنے والا اللہ ہے۔ کائنات بشمول انسان ہر ہر قدم پر خالق کی محتاج ہے۔
③ تیسرے نمبر پر ہم کائناتی حدود سے گزر کر نَوعی حدود میں داخل ہونے کے بعد انفرادی حدود میں داخل ہوتے ہیں۔ یعنی ہر بندے کو اپنا انفرادی شعور حاصل ہے۔ وہ شعوری طور پر یہ بات جان لیتا ہے کہ…. ‘‘میں ہوں’’۔
‘‘جُو’’ کے اوپر کے دونوں سلسلوں میں…. کائناتی اعتبار سے …. اور نَوعی اعتبار سے …. جاننا لاشعوری تحریکات کے تابع ہے۔
④ ‘‘جُو’’ کے چوتھے سلسلے میں انفرادی طور پر کوئی فرد اپنی شکل و صورت…. احساسات اور حسّیات سے واقف ہو جاتا ہے۔
⑤ پھر وہ ایک سیڑھی اور اترتا ہے یہ ‘‘جُو’’ کا پانچواں مرحلہ ہے۔ یہی وہ اِدراک ہے جس کی شرح میں یہ بات مخفی ہے کہ افراد کائنات کا تعلق افراد کائنات کا ربط یا افراد کائنات کی موجودگی ایسی ہستی کے ساتھ قائم ہے جو رگ جاں سے زیادہ قریب ہے اور جب کوئی بندہ نَوعی اعتبار سے اجتماعی ذہن کے ساتھ اس بات کا اِدراک کر لیتا ہے کہ میری موجودگی ایک ایسی ہستی کے تابع ہے جو جان سے زیادہ قریب ہے تو اسے اِدراک ہو جاتا ہے کہ میرا وُجود کائنات میں کہیں موجود ہے۔ ایسا بندہ ایک فرد کی حرکت کو دوسرے فرد کی حرکت کے ساتھ ایک ذرّے کی حرکت کو دوسرے ذرّے کی حرکت کے ساتھ دیکھ لیتا ہے۔
اس کی مثال زنجیر ہے۔ ایک زنجیر ہے، زنجیر میں بے شمار کڑیاں ہیں ہم ہر کڑی کا نام الگ الگ رکھتے ہیں۔ مثلاً
ایک کَڑی کا نام نَوعِ انسانی….
دوسری کَڑی کا نام جنات….
تیسری کَڑی کا نام فرشتے….
آسمانی کُرّہ یا کوئی اور کُرّہ ہے….
جب کوئی بندہ زنجیر کو بھرپور نظر سے دیکھے گا تو اس کی اجتماعی نظر ان تمام مخلوقات کو احاطہ کر لے گی۔ یعنی وہ زنجیر کی کڑی میں نَوعِ انسانی کو دیکھے گا، جنات کو دیکھے گا اور فرشتے بھی اس کے سامنے آ جائیں گے…. نہ صرف یہ کہ جنات اور فرشتے اس کے سامنے آ جائیں گے بلکہ آسمانوں کے اندر ستارے، سیّارے، کہکشانی نظام اور دیگر نظام سب کے سب اس کے سامنے آ جاتے ہیں۔
لوحِ محفوظ ایک ایسی اسکرین ہے یا ایسی فلم ہے جس میں کائنات کا اجتماعی پروگرام پورا کا پورا حرکت کے ساتھ محفوظ ہے۔
![]()

