مقامات عاشقان
تحریر۔۔۔ڈاکٹر صفدر محمود
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ مقامات عاشقان۔۔۔ تحریر۔۔۔ڈاکٹر صفدر محمود)حضرت اویس قرنیؓ عاشقان رسولؐ کے قافلے کے سرداروں میں شمار ہوتے ہیں اور ان کا ذکر ہی روح کو گرمانے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ روح کو گرمانا ہم محاورے کے طور پر لکھتے ہیں ورنہ اس سے مراد قلب کو گرمانا ہوتی ہے جس پر ہوس دنیا کی تہہ جم جاتی ہے۔ روح تو امر ہے، خدا کا نور ہے اور خدا کا نور آلائشوں سے پاک ہوتا ہے۔ روح غیر مرئی حقیقت ہے یعنی ایسا سچ جسے دیکھا نہیں جاسکتا۔ صاحبان نظر کی اور بات ہے ان پر اللہ پاک اپنے فضل و کرم سے پردے اٹھادیتے ہیں اور انہیں وہ کچھ دکھادیتے ہیں جو عام لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہوتا ہے۔
میں حضرت اویس قرنیؓ پر محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کالم پڑھ رہا تھاتو یاد آیا کہ طویل عرصہ قبل جب حضرت اویس قرنیؓ کے مزار کے قریب بم پھٹنے اور ان کے مزار شریف کو نقصان پہنچنے کی خبر چھپی تو میں نے بھی اس موضوع پر کالم لکھا تھا جس کے جواب میں ایک پڑھے لکھے صاحب نے مجھے مسیج بھیجا پھر میں نے ا ن سے فون پر بات بھی کی۔ ان کا خیال تھا کہ دراصل حضرت اویس قرنیؓ ایک خیالی ہستی ہیں ورنہ اس نام کا کوئی شخص موجود نہیں تھا، چنانچہ میں نے اس موضوع پر جس حد تک ممکن ہوسکتا ہے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ حضرت اویس قرنیؓ کے حوالے سے بیان کردہ حدیث مصدقہ ہے اور اس کا ذکر معتبر محدثین نے کیا ہے۔ حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کی حضرت اویس قرنی ؓسے ملاقات بھی مصدقہ ہے۔ ان صاحب کو اس واقعہ پر اعتراض تھا کہ غزوہ احد میں حضور نبی کریمؐ کے دندان مبارک کی شہادت کی خبر سن کر حضرت اویس قرنیؓ کا ایک ایک کرکے دانت توڑ لینا کہ نہ جانے حضورؐ کا کون سا دانت مبارک شہید ہوا ہے، سائنسی حوالے سے ممکن نہیں۔ سائنس اور کرامت کا ہمیشہ جھگڑا رہا ہے، یہ الگ بات ہے کہ خود سائنس نے بہت سے معجزات کو درست ثابت کردیا ہے۔ عشق ا ور پھر کائنات کا اعلیٰ عشق یعنی عشق رسولؐ وہ جذبہ ہے جس میں انسان آخری حدوں تک جاسکتا ہے اور اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کرسکتا ہے۔ یہاں تو صرف دانتوں کو توڑنے کی بات ہے عشق رسولؐمیں عاشقان نے شہادتیں قبول کرلیں۔ سچ یہ ہے کہ عشق الٰہی، عشق رسولؐ عقل سے ماوراء ہوتا ہے اور اسے ہم دنیادار نہ سمجھ سکتے ہیں نہ اس کی گہرائی ناپ سکتے ہیں۔ جن واقعات کا ذکر ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنے کل کے کالم میں کیا ہے ان کا ذکر حضرت علی بن عثمانؒہجویری المعروف داتا گنج بخش کی زندہ کتاب (کشف المحجوب) میں بھی ملتا ہے۔ میرا علم ناقص ہے، میں خود بھی ناقص ہوں لیکن میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ حضرت علی بن عثمانؒ ہجویری نبی کریم ؐ یا عاشق رسولؐ حضرت اویس قرنیؓ کے حوالے سے کوئی غیر مصدقہ بات لکھیں گے اور اسے کشف المحجوب جیسی کتاب کا حصہ بنائیں گے جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جس شخص کا کوئی مرشد اور روحانی رہنما نہ ہو وہ اس کتاب کو حرز جان بنالے تو اس کی یہ کمی پوری ہوجائے گی۔ حضرت علی بن عثمان ہجویریؒ نے ہی یہ بھی لکھا ہے کہ جنگ صفین میں حضرت اویس قرنیؓ حضرت علیؓ کی جانب سے میدان میں اترے اور شہادت پاکر عشق کی آخری منزل بھی طے کرگئے۔اس حوالے سے سمجھنے کی ایک بات ہے جسے اگر سمجھ لیں تو مسئلہ آسان ہوجاتا ہے لیکن اگر دنیاوی الجھنوں میں الجھے رہیں تو یہ گتھی سلجھ نہیں سکتی کیونکہ عیار عقل سچے عشق کے راستے میں رکاوٹیں ڈالتی رہتی ہے۔ ماننے اور سمجھنے کی بات فقط اتنی سی ہے کہ حضرت علی بن عثمانؒ جیسی عظیم روحانی ہستیوں اور اولیاء کرام کا ذہن دنیاوی علم سے اور باطن روحانی علم سے روشن ہوتا ہے اس لئے ان کی کچھ معلومات دنیاوی علم اور کچھ روحانی علم کا کرشمہ ہوتی ہیں لیکن وہ کبھی بھی ظاہر نہیں کرتے کہ کونسی معلومات روحانی علم یا کشف یا مراقبے کی دین ہیں ۔ اس میں بہرحال کوئی شبہ نہیں کہ ان کی معلومات شک سے بالاتر ہوتی ہیں اور ان پر غلط بیانی یا مبالغہ آمیزی کا الزام نہیں لگ سکتا۔ میری یہ عرض ان لوگوں کو سمجھ آئے گی جنہیں روحانی دنیا سے شغف یا’’ورک‘‘ یعنی ادراک ہے یا جنہیں روحانی شخصیات کے پاس بیٹھنے اور اس شعبے کا تجربہ و مشاہدہ ہوا ہے۔ محض دنیاوی علم پر فخر اور بھروسہ کرنے والے اسے نہیں سمجھ سکتے۔ میں اپنے تجربے اور مشاہدے کی بنا پر حضرت علی بن عثمان ہجویریؒ المعروف حضرت داتا گنج بخش کی اپنی شہرۂ آفاق کتاب کشف المحجوب میں لکھی گئی ہر بات کو سو فیصد درست سمجھتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ یہ کتاب لکھتے ہوئے جہاں انہیں بیشتر معلومات اس دور کی کتابوں اور معروف علمی ذرائع سے ملیں وہاں انہیں کچھ معلومات روحانی ذرائع سے بھی ملیں۔ اللہ سبحانہٗ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو جب قرب سے نوازتے ہیں تو اپنے علم کے بے پایاں سمندروں سے کچھ قطرے اپنے پسندیدہ لوگوں کو بھی عطا کردیتے ہیں۔یہ انعام ربی ہوتا ہے۔ یہ قرب الٰہی کی سند ہوتی ہے۔ کسی کو نصف قطرہ، کسی کو ایک اور کسی کو کئی قطرے مل جاتے ہیں،یہ تقسیم درجہ بدرجہ اور اپنے اپنے مقام کے مطابق ہوتی ہے۔ ہم دنیادار، ہماری آنکھوں پر پچاس سے زیادہ پردے پڑے ہوئے ہیں۔ ہم دنیاوی علم سے بہک کر تشکیک میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور اپنی’’علمیت‘‘ کے پندار میں گرفتار ہو کر اولیاء کرام پر شک و شبہ کے تیر چلانے شروع کردیتے ہیں۔ آخر کچھ تو ہے جس کی بنا پر صدیوں سے خلق خدا ان کے مزارات پر امڈی چلی آتی ہے، ان کے مزارات نہ دن میں بے رونق ہوتے ہیں اور نہ ہی رات میں۔ صاحبان باطن گھر بار اور دنیا کی راحتیں ترک کرکے وہاں چلے کاٹتے اور فیض یاب ہو کر جاتے ہیں۔ سندھ سے آئے ہوئے ایک سابق جج صاحب کو میں کئی برسوں سے داتا گنج بخش کے قدموں میں بیٹھے رشک سے دیکھتا ہوں وہ چوبیس گھنٹے وہیں لو لگائے بیٹھے رہتے ہیں اور مجھے یقین ہے کچھ لے کر ہی جائیں گے۔ انہیں کس نے بھیجا ہے، وہاں کیوں بیٹھے ہیں مجھے ہرگز علم نہیں البتہ ان کی استقامت قابل رشک ہے اور ’’پہاڑی‘‘ جیسی ہے جو ہم جیسے کمزور ، راحت پسند اور دنیاداروں کے بس کا روگ نہیں۔ یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گا۔
میں حضور ﷺ کے پیارے چچا اور شہید احد حضرت امیر حمزہؓ جنہیں لوگ محبت سے سید الاشہداء بھی کہتے ہیں، کے مزارپر فاتحہ خوانی کے لئے گیا۔ ان کامزارمدینہ منورہ سے باہر کوہ احد کے قریب بڑے احاطے میں موجود ہے۔ میرے ساتھ مدینہ منورہ میں تین دہائیوں سے مقیم ایک پاکستانی صاحب تھے۔ فاتحہ خوانی سے فارغ ہوا تو وہ مجھے چند فٹ کے فاصلے پر لے گئے اور زمین پر بیٹھ کر متوجہ کیا۔ وہاں ایک سرخ دائرہ لگا ہوا تھا۔ پوچھنے پر بتایا کہ ہندوستان سے ایک ولی کامل یہاں آئے تھے۔ انہوں نے مراقبہ کرکے کشف کے ذریعے وہ مقام معلوم کرنا چاہا جسے حضور نبی کریمﷺ کی دندان مبارک کے خون کے قطرے نصیب ہوئے اور پھر سرخ مارکر سے یہاں دائرہ لگادیا۔ انہیں یہ رہنمائی کہاں سے ملی یہ اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کا کرم تھا۔ ہوسکتا ہے اب تک وہ دائرہ مٹ چکا ہو لیکن سوال یہ ہے کہ ایسے نیک عبادت گزار اور سچے عاشق کو غلط بیانی کی کیا ضرورت تھی؟میں تو اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
ایک بار حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا تھا کہ میری امت کا پہلا لشکر جو قیصر کے شہر قسطنطنیہ (استنبول) پر جہاد کرے گا اس کے لئے مغفرت ہے۔ اس حدیث مبارکہ کی پیروی میں یہ جہاد سات سال تک جاری رہا اور اس میں بڑے بڑے صحابی رسولؐ شریک ہوتے رہے۔ اسی طرح کے ایک جہادی دستے میں حضرت ابو ایوب انصاریؓ بھی شامل تھے۔
ان کا وہیں انتقال ہوا اور وہیں شہر کی فصیل کے قریب دفن ہوئے۔ یہ شاید 52 ہجری کا واقعہ ہے۔ صدیاں گزر گئیں تو 857ء/1453ءمیں ساتویں عثمانی فرمانروا محمد فاتح نے قسطنطنیہ کو فتح کرکے اسلام کا علم لہرایا۔ میں حضرت ابوایوب انصاریؓ کے مزار پر حاضری دے چکا تو تحقیق کی کہ کئی صدیوں بعد حضرت کی قبر کیسے دریافت ہوئی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ فتح کے بعد محمد فاتح نے آپؓ کی قبر کی تلاش شروع کردی لیکن کچھ پتہ نہ چل سکا، پھر محمد فاتح نے اپنے شیخ الاسلام شیخ شمس الدینؒ سے درخواست کی، انہوں نے طویل مراقبے کے بعد ایک جگہ کی نشاندہی کی ، جگہ کھودی گئی تو سنگ مرمر کا ایک کتبہ ملا جس پر عبرانی زبان میں کچھ کندہ تھا۔ عبرانی جاننے والے حضرات کو بلایا گیا تو تصدیق ہوگئی کہ یہ حضرت ابوایوب انصاریؓ کی قبر مبارک ہے۔ یہ کتبہ آج بھی حضرت ا بوایوب انصاریؓ کے مزار کی دیوار میں نصب ہے۔ مطلب یہ کہ دنیاوی علم کے ساتھ ساتھ روحانی علم کے چشمے بھی بہہ رہے ہیں، روحانی علم اللہ پاک کی عنایت ہوتی ہے اور یہ صرف اللہ کے برگزیدہ بندوں کو نصیب ہوتا ہے، صرف روحانی علم ہی سچا ہوتا ہے، دنیاوی علم تو بدلتا رہتا ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اپریل 2016
![]()

