18؍مئی 1936مشہور خطاط، ڈرامہ نگار اور ممتاز جدید شاعر ” عادل منصوری صاحب“ کا یومِ ولادت….
ہالینڈڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )نام عادل منصوری اور تخلص عادلؔ تھا۔
18؍مئی 1936ء کو احمد آباد، گجرات میں پیدا ہوئے۔ تشکیلِ پاکستان کے وقت عادلؔ کے والد کراچی چلے گئے جہاں انہوں نے کچھ سال تعلیم حاصل کی۔ 1955ء میں وہ اپنے والد کے ساتھ دوبارہ شہر گجرات آئے۔ مگر اس اثنا میں ان کا علمی شوق ابھر آیا اور انہوں نے شاعری شروع کردی تھی۔ عادلؔ منصوری 1985ء میں امریکا چلے گئے۔ عاؔدل منصوری 1960ء کی دہائی میں جدیدیت کے نمائندہ رسالہ ’شب خون‘ سے ایک شاعرانہ اظہاریہ کے طور پر وابستہ ہوئے۔ یہ تعلق آخر تک برقرار رہا۔ ان کی زیادہ تر غزلیں اور نظمیں شب خون میں شائع ہوا کرتی تھیں۔ عاؔدل منصوری انٹرنیٹ کے دور میں اردو کے لیے نئی جہتیں تلاش کرنے کے قائل تھے۔
عادلؔ منصوری 06؍نومبر 2008ء کو نیوجرسی، ریاستہائے متحدہ امریکہ میں انتقال کر گئے۔
👈 #بحوالہ_ویکیپیڈیا
✨🌹 پیشکش : شمیم ریاض
🛑🚥💠➖➖🎊➖➖💠🚥🛑
💫🍁 معروف شاعر عادلؔ منصوری کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت…..🍁💫
کس طرح جمع کیجئے اب اپنے آپ کو
کاغذ بکھر رہے ہیں پرانی کتاب کے
—–
کیوں چلتے چلتے رک گئے ویران راستو
تنہا ہوں آج میں ذرا گھر تک تو ساتھ دو
—–
میرے ٹوٹے حوصلے کے پر نکلتے دیکھ کر
اس نے دیواروں کو اپنی اور اونچا کر دیا
—–
چپ چاپ بیٹھے رہتے ہیں کچھ بولتے نہیں
بچے بگڑ گئے ہیں بہت دیکھ بھال سے
—–
کوئی خودکشی کی طرف چل دیا
اداسی کی محنت ٹھکانے لگی
—–
ذرا دیر بیٹھے تھے تنہائی میں
تری یاد آنکھیں دکھانے لگی
—–
ایسے ڈرے ہوئے ہیں زمانے کی چال سے
گھر میں بھی پاؤں رکھتے ہیں ہم تو سنبھال کر
—–
جو چپ چاپ رہتی تھی دیوار پر
وہ تصویر باتیں بنانے لگی
—–
تو کس کے کمرے میں تھی
میں تیرے کمرے میں تھا
—–
پھولوں کی سیج پر ذرا آرام کیا کیا
اس گلبدن پہ نقش اٹھ آئے گلاب کے
—–
دریا کے کنارے پہ مری لاش پڑی تھی
اور پانی کی تہہ میں وہ مجھے ڈھونڈ رہا تھا
—–
مجھے پسند نہیں ایسے کاروبار میں ہوں
یہ جبر ہے کہ میں خود اپنے اختیار میں ہوں
—–
پھر بالوں میں رات ہوئی
پھر ہاتھوں میں چاند کھلا
—–
دروازہ کھٹکھٹا کے ستارے چلے گئے
خوابوں کی شال اوڑھ کے میں اونگھتا رہا
—–
حدود وقت سے باہر عجب حصار میں ہوں
میں ایک لمحہ ہوں صدیوں کے انتظار میں ہوں
—–
ہم کو گالی کے لیے بھی لب ہلا سکتے نہیں
غیر کو بوسہ دیا تو منہ سے دکھلا کر دیا
—–
دروازہ بند دیکھ کے میرے مکان کا
جھونکا ہوا کا کھڑکی کے پردے ہلا گیا
—–
کب تک پڑے رہوگے ہواؤں کے ہاتھ میں
کب تک چلے گا کھوکھلے شبدوں کا کاروبار
—–
خودبخود شاخ لچک جائے گی
پھل سے بھرپور تو ہو لینے دو
—–
نیند بھی جاگتی رہی پورے ہوئے نہ خواب بھی
صبح ہوئی زمین پر رات ڈھلی مزار میں
—–
انگلی سے اس کے جسم پہ لکھا اسی کا نام
پھر بتی بند کر کے اسے ڈھونڈتا رہا
—–
کھڑکی نے آنکھیں کھولی
دروازے کا دل دھڑکا
—–
حمام کے آئینے میں شب ڈوب رہی تھی
سگریٹ سے نئے دن کا دھواں پھیل رہا تھا
—–
وہ تم تک کیسے آتا
جسم سے بھاری سایہ تھا
—–
تصویر میں جو قید تھا وہ شخص رات کو
خود ہی فریم توڑ کے پہلو میں آ گیا
—–
بسمل کے تڑپنے کی اداؤں میں نشہ تھا
میں ہاتھ میں تلوار لیے جھوم رہا تھا
—–
دریا کی وسعتوں سے اسے ناپتے نہیں
تنہائی کتنی گہری ہے اک جام بھر کے دیکھ
—–
تم کو دعویٰ ہے سخن فہمی کا
جاؤ غالبؔ کے طرف دار بنو
—–
کب سے ٹہل رہے ہیں گریبان کھول کر
خالی گھٹا کو کیا کریں برسات بھی تو ہو
—–
خواہش سکھانے رکھی تھی کوٹھے پہ دوپہر
اب شام ہو چلی میاں دیکھو کدھر گئی
—–
نشہ سا ڈولتا ہے ترے انگ انگ پر
جیسے ابھی بھگو کے نکالا ہو جام سے
—–
جانے کس کو ڈھونڈنے داخل ہوا ہے جسم میں
ہڈیوں میں راستہ کرتا ہوا پیلا بخار
—–
جسم کی مٹی نہ لے جائے بہا کر ساتھ میں
دل کی گہرائی میں گرتا خواہشوں کا آبشار
—–
یادوں نے اسے توڑ دیا مار کے پتھر
آئینے کی خندق میں جو پرچھائیں پڑی تھی
—–
گرتے رہے نجوم اندھیرے کی زلف سے
شب بھر رہیں خموشیاں سایوں سے ہمکنار
—–
وہ جان نو بہار جدھر سے گزر گیا
پیڑوں نے پھول پتوں سے رستہ چھپا لیا
—–
آواز کی دیوار بھی چپ چاپ کھڑی تھی
کھڑکی سے جو دیکھا تو گلی اونگھ رہی تھی
—–
پھر کوئی وسعت آفاق پہ سایہ ڈالے
پھر کسی آنکھ کے نقطے میں اتارا جاؤں
👈 #بشکریہ_ریختہ_ڈاٹ_کام
💠♦️🔹➖➖🎊➖➖🔹♦️💠
🌹 عادلؔ منصوری 🌹
✍️ انتخاب : شمیم ریاض
Shameem Riyaz