Daily Roshni News

موسم برسات اور وبائی امراض

موسم برسات اور وبائی امراض

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اگست2017

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ موسم برسات اور وبائی امراض)شدید گرم موسم کے بعد جب موسم اپنے رنگ بدلنا شروع کرتا ہے ، آسمان پر کالے سیاہ بادل نمودار ہوتے ہیں اور گرم اور جھلسا دینے والی ہوا کی جگہ ٹھنڈی ہوائیں پیام مسرت لاتی ہیں اور پھر جب بارش برستی ہے تو لوگ فرط مسرت سے اپنے گھروں سے باہر نکل آتے ہیں۔ مرجھائی ہوئی زمین کھل اٹھتی ہے۔ کھیتیاں لہلہا اٹھتی ہیں۔ غرضیکہ موسم برسات مسرت و شادمانی کا پیغام لاتا ہے۔ لیکن جہاں یہ موسم ماحول پر نہایت خوشگوار اثرات مرتب کرتا ہے وہاں اس موسم کی لمحہ بہ لمحہ بدلتی صور تحال صحت کے کئی مسائل اور وبائی

امراض بھی اختیار کر لیتی ہے۔

ملک بھر میں بارشوں کا موسم ہے۔ ہمارے ہاں موسم برسات عام طور پر جولائی میں شروع ہوتا ہے اور ستمبر کے شروع میں ختم ہو جاتا ہے۔ برسات کا موسم گرمی کی شدت کو کم تو کرتا ہے، مگر ساتھ ہی ساتھ کئی مسائل میں اضافے کا سبب بھی بنتا ہے۔ موسم تبدیل ہونے پر موثر احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی جائیں تو کئی امراض انسان کو گھیر لیتے ہیں۔ انہیں اکثر وائرل انفیکشن کہا جاتا ہے۔ اگر موثر احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی جائیں تو یہ انفیکشن گھر کے ان افراد کو متاثر کر سکتا ہے جن کی قوت مدافعت کم ہوتی ہے۔ جو آدمی جس قدر کمزورقوت مدافعت کا حامل ہوتا ہے وہ اس قدر جلد مرض کی لپیٹ میں آجایا کرتا ہے۔ اس موسمی تبدیلی میں بچوں اور بزرگوں کو زیادہ احتیاط کرنی چاہئے چونکہ اچانک ہونے والی موسمی تبدیلی کو ان کے جسمانی دفاعی نظام برداشت کرنے کے متحمل نہیں ہوتے۔ اکثر وبائی امراض کا بنیادی سبب ناقص سیور بیج سسٹم کی وجہ سے سیلابی اور بارشوں کے پانی کا عرصہ در از تک جگہ جگہ کھڑا ہو جاتا ہے جو متعفن ہو کر وہائی امراض کا باعث بنتا ہے۔ موسم برسات میں پانی میں ہر قسم کی آلودگی شامل ہو جاتی ہے جس کے باعث طرح طرح کی موسمی بیماریاں پھیل سکتی ہیں جن میں ملیریا، ٹائیفائیڈ اور دیگر موسمی بخار، یرقان، ہیپاٹائٹس، گیسٹرو، ڈائریا، اسہال، پیچش و پیٹ کے امراض، جسم میں کھچاؤ، درد، خون کی خرابی، پھوڑے پھنسیاں اور گلے کی سوزش جیسے امراض سر فہرست ہیں۔ موسم برسات میں چونکہ فضا میں نمی پائی جاتی ہے اس لیے جراثیم کی افزائش بھی تیزی سے ہونے لگتی ہے۔ اس دوران وبائی امراض مثلاً ہیضہ ، ملیریا، اسهال و پیچش، خارش، قے، پھوڑے، پھنسیاں اور گرمی دانے وغیرہ کثرت سے پیدا ہوتے ہیں۔

ذیل میں چند اہم امراض اور ان کا علاج موسم برسات کو پیش نظر رکھتے ہوئے درج کر رہے ہیں۔

ہیضہ:موسم گرما میں گرمی کی شدت کے باعث مکھیاں، ۔ مچھر اور جراثیم بہت حد تک ختم ہو چکے ہوتے ہیں ۔ لیکن جو نہی بارشیں شروع ہوتی ہیں تو جگہ جگہ پانی جمع ہونے اور فضا میں زیادہ نمی کے باعث ان کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ ہیضہ بھی غذائی بد پرہیزی اور جراثیمی سرایت کی بنا پر غذا کے فاسد ہو جانے سے لاحق ہوتا ہے۔ مریض مریے کوتے اور اسہال آتے ہیں۔

یہ اس موسم کا عام ہزار مرض ہے، ذرا سی بد پرہیزی سے ہیضہ ہو جاتا ہے۔ ہیضہ کی کپکپی کے صورت میں فی الفور قریبی کی بھی معالج سے رجوع کریں۔ اگر معالج موجود نہ ہو تو اس مرض کو رفع کرنے کیلئے سب سے پہلے فاسد مواد کو جسم سے خارج کرنا چاہیے جب اس مقصد کیلئے نمک نیم گرم پانی میں حل کر کے محبین میں تھوڑا سا سر کہ ملا کر پلائیں۔ او آر ایس یا پھر درج ذیل قدرتی نسخہ استعمال کروائیں۔

نصف لیٹر پانی میں 21 گرام پودینہ، 3 عدد بریا، الائچی ڈال کر اچھی طرح ابال لیں اور اس میں نمک کے اور برف ملا کر وقفے وقفے سے استعمال کرائیں۔ اگر ما تے پھر بھی بند نہ ہو تو لیموں کے بیچ چند دانے لے کر – سم باریک پیس کر نگلوادیں۔ اس کے علاوہ پودینہ، لیموں مجھے کارس ، ادرک اور کریلے کا رس برابر مقدار میں لے کا کر محفوظ کر لیں۔ اور ہر ایک گھنٹے بعد 4 ملی لٹر کی مچھ مقدار میں استعمال کرائیں۔ یہ نسخہ ہیضہ کی علامات کو رفع کرنے کے لیے مفید ہے۔ ہیضہ سے بچاؤ کے لیے ان سرکہ بھگوئے پیاز کا استعمال بھی مفید ہے۔ ڈینگو، ملیریا

یہ مرض ماہ جولائی تا دسمبر اکثر دیکھنے میں آتا ہے۔ موسم برسات میں چونکہ مچھروں کی افزائش بہت بڑھ جاتی ہے اس لیے ڈینگو ملیریا بخار کے مریضوں کی تعداد بھی بڑھ جاتی ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال 50 ملین افراد اس بخار کا شکار ہوتے ہیں اور کئی ہزار موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ملیریا بخار مادہ مچھر کے کاٹنے سے پیدا ہوتا ہے۔ اس میں مریض کو بخار لاحق ہوتا ہے اور ساتھ لرزہ یا کپکپی بھی طاری ہو جاتی ہے۔ مریض کو سر درد اور قے کی بھی شکایت لاحق ہو جاتی ہے اور پھر پسینہ آکر بخار اتر جاتا ہے لیکن دوسرے روز بھی وہی کیفیت دوبارہ

طاری ہو جاتی ہے۔ مچھروں کی افزائش اور مچھروں کے کاٹنے سے بچنا ہی ڈینگو اور ملیریا بخار سے بچنے کا واحد راستہ ہے ۔ اس وبائی امراض سے بچنے کے لیے مناسب ماحولیاتی اقدامات اور صفائی کی ضرورت ہے۔ اپنے آس پاس کے ماحول کو پاک صاف رکھنا ، گھر یا گلی کے کسی بھی کونے میں پانی جمع ہونے کا موقع نہ دینا، مچھروں کی افزائش کو روکنے کے لیے مچھر مار سپرے کا استعمال ، فل آستین کے کپڑے پہننے ، کھلی جلد پر مچھروں کی روک تھام کے کریم وغیرہ لگانے جیسے اقدامات کے ذریعہ ڈینگو و ملیریا سے بچا جا سکتا ہے ۔ ان معمولی تدابیر کو اپنا کر ہم کسی بڑے نقصان سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

ملیریا ہونے کی صورت میں فوراً معالج سے رجوع کیا جائے۔ قدرتی نسخوں میں ملیریا سے حفاظت کے لیے ایک تولہ تلسی کے پتے، سو سو گرام کالی مرچ اور کالا نمک کے ساتھ ملا کر چنے کے برابر گولیاں بنالیں اور اسے روزانہ صبح نہار منہ اور رات کو دودھ یا پانی سے کھانا بھی مفید بتایا جاتا ہے۔

ڈائریا ، دست:بارشوں کی آمد کے ساتھ ہی مکھیوں کی بھی یلغار ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں وبائی امراض پھوٹ پڑتے ہیں۔ ان وبائی امراض میں سر فہرست دست کی بہاری یا ڈائریا ہے۔ ڈائر یا بچوں اور بڑوں کو یکساں طور پر اپنے نرنے میں لیتا ہے لیکن خصوصاً بچوں میں یہ بیماری اکثر جان لیوا ہوتی ہے۔ پاکستان میں ہر سال 5 لاکھ بچے ڈائریا کے مریض بنتے ہیں اور 2 لاکھ بچوں کی اموات اسی وجہ سے ہوتی ہیں۔ گندگی سے بھرا ماحول، اور غیر صحتمند غذائیں اس موسم میں مکھیوں کی یلغار کے باعث زہر آلود ہو سکتی ہیں۔ ڈائر یا ایسی ہی غذاؤں اور آلودگی سے لاحق ہوتا ہے۔ ڈائریا کے جراثیم منہ کے ذریعے جسم میں داخل ہوتے ہیں۔ گندے ہاتھ ، گندا پانی اور باسی یا خراب کھانا اس کے پھیلاؤ کا اہم ذریعہ ہیں۔

حفظان صحت کے اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ڈائریا سے بچاؤ ممکن ہے۔ خواتین کو چاہیے کہ کھانا پکانے سے پہلے گوشت اور سبزی ی اچھی طرح و دھو دھولیں تا کہ ان پر لگے جراثیم صاف ہو جائیں۔ کھانا پکانے کے برتن بھی صاف اور دھلے ہونے چاہئیں۔ مائیں کھانا پکانے اور بچوں کو کھانا کھلانے سے پہلے اچھی طرح ہاتھ دھو لیں۔ اس سے دستوں کی بیماری سے 50 فیصد تک بچاؤ ممکن ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پکے ہوئے کھانے اور کھانے پینے کی دیگر اشیا کو ہمیشہ ڈھانپ کر رکھیں تا کہ اس پر لکھیاں نہ بیٹھیں۔ ڈائریا میں مریض کے جسم سے پانی اور اور نمکیات۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اگست2017

Loading