مولانا رُومیؒ کے مطابق رُوح کے خصائص
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ مولانا رُومیؒ کے مطابق رُوح کے خصائص) مولانا رُومیؒ آپ فرماتے ہیں کہ بھیڑیوں اور کُتوں کی رُوحیں اور ہیں مگر شیرانِ خُدا یعنی اَولیائے کرام کی رُوحیں اِن سب سے اور دیگر انسانوں سے بھی اولٰی ہیں. روح کے لیے لازم ہے کہ وہ خیر اور شر کو پہچانے اور اللّٰہ کے خوف سے ڈرے اور گریہ و زاری کرے. انسان سوتا ہے مگر اُس کی روح آفتاب کی طرح آسمان اور زمین کے گرد چکر لگاتی ہے.
مولاناؒ فرماتے ہیں کہ عام انسان تو کھانے پینے اور سونے میں مشغول رہتا ہے مگر جب وہ ایمان، اسلام اور اخلاص سے مُشرف ہوجائے تو وہ ایک چیزِ دِگر بن جاتا ہے اور ملائک سے بھِی بہتر ہوجاتا ہے. رُوح کے کمالات کو اللّٰہ تعالٰی نے مخفی رکھا ہے اس لیے جو بھی مثال بیان کی جائے وہ بے معنی ہوگی. مثنوی شریف کے دفتر چہارم میں آپؒ نے فرمایا ؎
جانِ گرگان و سَگان هَر یَک جُداست
مُتحد جانهای شیرانِ خُداست
[کُتے اور بھیڑیوں کی رُوحوں میں اختلاف ہے، مگر شَیرانِ خدا کی سب رُوحیں متحد ہیں].
پھر آگے چوتھے دفتر میں ہی فرمایا ؎
مَرد اوّل بَستهٔ خَواب و خَورست
آخرُ الاَمر اَز مَلایک بَرتَرست
[انسان پہلے صرف کھانا اور سَونا چاہتا ہے، لیکن بعد میں (اِیمان اسلام اور اخلاص سے مشرف ہو کر) ملائکہ سے بازی لے جاتا ہے].
چھٹے دفتر میں ارشاد ہوتا ہے ؎
جان چَه باشُد با خَبر اَز خَیر و شَر
شاد با اِحسان و گِریان از ضَرر
[رُوح کی تعریف یہ ہے کہ کہ وہ خیر و شر سے باخبر ہو، نیکی سے خُوش اور برائی سے غمگین ہو اور خدا کے حضور رونے والی ہو].
اِسی دفتر میں ہی آپؒ فرماتے ہیں ؎
مَرد خُفته رُوحِ اُو چُون آفتاب
دَر فَلک تابان و تَن دَر جامه خواب
[مرد سَویا ہوتا ہے مگر اُس کی رُوح مثلِ آفتاب آسمان پر تاباں ہوتی ہے، اور جسم لباسِ خواب میں ہوتا ہے].
پھر چھٹے دفتر کا ہی ایک اور شعر ملاحظہ کریں ؎
رُوح چُون مِن اَمرِ رَبِّی مَختَفِیست
هر مثالی که بَگَویم مُنتَفِیست
[ہماری روح “امرِ آبی” کے لفظ سے مخفی ہے، اس کے لیے جو بھی مثال ہوگی وہ بے معنی اور غیر حقیقی ہوگی].