میرا اسلام، ایک کھیرے سے شروع ہوا۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )میں جاپان کے ایک پروٹسٹنٹ عیسائی خاندان میں پیدا ہوا، میرے والد صاحب نے میرا نام ناوکی یاماموتو رکھا۔ میرے والدین باقاعدگی سے بائبل پڑھتے تھے، لیکن ہم کوئی بہت زیادہ مذہبی گھرانہ نہیں تھے۔ میرے دل میں ہمیشہ خدا کو جاننے کی ایک خاموش سی جستجو رہتی تھی، اسی لیے جب میں نے کیوٹو کی دوشیشا یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو میرا ارادہ تھا کہ میں مسیحیت کو گہرائی سے سمجھوں اور شاید پادری بنوں۔
میں گھنٹوں لائبریریوں میں بیٹھ کر مختلف مذاہب پر کتابیں پڑھتا — بدھ مت، شنتو، مسیحیت — ہر مذہب کو سمجھنے کی کوشش کرتا۔ ایک روز اچانک میرا ہاتھ ایک کتاب پر جا ٹھہرا۔ یہ کتاب خدا، انسان کے مقصد اور روحانی حقیقت پر گفتگو کر رہی تھی۔ میں نے ایسا اس سے پہلے کبھی نہیں پڑھا تھا۔ بعد میں پتا چلا کہ یہ کتاب ایک جاپانی مسلمان خاتون نے لکھی ہے۔
میں نے مزید تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ ان کے شوہر اسی یونیورسٹی میں لیکچرار ہیں۔ میں نے انہیں ای میل کی۔ جلد جواب آیا اور ہماری ایک قریبی کیفے میں ملاقات ہوئی۔ اُس دن ہم نے دیر تک اسلام پر گفتگو کی۔ انہوں نے مجھے نصیحت کی:
“اگر تم واقعی اسلام کو جاننا چاہتے ہو تو عربی سیکھو اور مسلمانوں کے درمیان جا کر رہو، کتابیں کافی نہیں ہوتیں۔”
میں نے یہ بات دل سے قبول کر لی۔ میں نے عربی پڑھنی شروع کی اور پھر مختلف اسلامی ملکوں کا سفر شروع کیا۔ انہی سفر میں، انیس برس کی عمر میں میں مصر پہنچا۔
قاہرہ میرے لیے ایک بالکل نئی دنیا تھی۔ لوگوں کی نمازیں، روزے، باہمی محبت اور مدد کا جذبہ مجھے حیران کر دیتا تھا۔ سب کچھ جاپان سے مختلف تھا۔ ایک دن رمضان کا وقت تھا۔ میں اپنی عربی کلاس سے واپس آرہا تھا کہ میں نے اپنی عمارت کے بوّاب ( دربان ) کو دیکھا۔ وہ انتہائی سادہ انسان تھا۔ افطار میں اس کے پاس صرف ایک کھیرے کے سوا کچھ نہیں تھا۔
جیسے ہی اس نے مجھے دیکھا، وہ کھڑا ہوا، مسکرایا اور اپنا وہ واحد کھیر اٹھا کر میری طرف بڑھاتے ہوئے بولا:
“تفضل… آپ لے لیجیے۔”
میں چند لمحے ساکت رہ گیا۔ میں جانتا تھا کہ یہ وہی ایک چیز ہے جو اُس کے پاس افطار کے لیے تھی، اور اس نے بغیر کسی جھجک کے مجھے دے دی — ایک اجنبی، ایک غیر مسلم…
میں نے اسی لمحے اپنے دل میں کچھ ٹوٹتے اور کچھ بنتے دیکھا۔
میں نے اپنے آپ سے کہا:
“یہ اسلام ہے۔ صرف باتیں نہیں، بلکہ عمل۔”
اسی دن میری روح نے فیصلہ کر لیا تھا۔
بعد میں لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں:
“آپ نے اسلام کیوں قبول کیا؟”
اور میں مسکرا کر ایک ہی جواب دیتا ہوں:
“میں نے ایک کھیرے کی وجہ سے اسلام قبول کیا۔”
کیونکہ وہ کھیر اسلام کی روح کا عملی نمونہ تھا —
ایثار، محبت، بے لوثی اور انسانیت۔
اسلام قبول کرنا میرے لیے کسی معجزاتی لمحے جیسا نہیں تھا۔ کوئی روشن نور آسمان سے نہیں اترا۔ میں نے بس کلمہ پڑھا اور مسلمان ہو گیا۔ میں نے سمجھ لیا کہ:
مسلمان ہونا اہم ہے،
لیکن اصل بات ہے مسلمان بن کر جینا۔
جب جاپان لوٹا تو چند دوستوں نے مذاق بھی اڑایا۔ ایک نے تو ہنستے ہوئے کہا:
“یعنی تم دہشت گرد بن گئے؟”
یہ مذاق تھا، لیکن اس میں ایک تلخ حقیقت چھپی تھی۔ جاپان میں لوگ مذہب کو نہیں سمجھتے، لوگ تنہائی میں جیتے ہیں۔
مجھے جاپان کا سب سے بڑا مسئلہ یہی لگا:
خاندانی رشتوں کی کمزوری، معاشرتی تنہائی، اور بے معنی زندگی۔
جبکہ اسلامی معاشرے میں میں نے خاندان کی طاقت، بھائی چارہ اور ایک دوسرے کا سہارا بننے کا جذبہ دیکھا۔
بعد میں میری ملاقات ترکی کے عالم ریسپ سیپ سین ترک سے ہوئی، جنہوں نے مجھے ترکی آنے کی دعوت دی۔ ترکی جا کر میں نے ترکی زبان سیکھی، عربی کو آگے بڑھایا اور اسلامی علوم کی تعلیم حاصل کی۔ میں نے تہذیبوں کا حسین امتزاج دیکھا — جاپانی وقار اور اسلامی گرمجوشی۔
آج میں ترکی میں پڑھاتا ہوں۔ میں مَنگا کے ذریعے جاپانی ثقافت متعارف کرواتا ہوں، چائے کی روایتی تقاریب منعقد کرتا ہوں اور اسلامی جاپانی خطاطی کے ذریعے فن کے دو عظیم ورثوں کو جوڑنے کی کوشش کرتا ہوں۔
میرے لیے زندگی کا حاصل یہی ہے:
حقیقت خاموشی سے ملتی ہے،
اور کبھی کبھی…
ایک کھیرے کے ذریعے۔
یہ داستان کسی فلسفیانہ مناظرے سے نہیں،
بلکہ ایک غریب بوّاب کے عملی ایمان سے شروع ہوئی —
اور میں آج بھی کہتا ہوں:
میرا اسلام، ایک کھیرے سے شروع ہوا۔
#islamic #islamicposts #islamicpost #islamicquotes #islamicreminder
![]()

