Daily Roshni News

میری تحریریں

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )میرا نام اقصی سعید ہے میں اس وقت گلاسگو میں اپنے شوہر اور بچوں کے ہمراہ مقیم ہوں درحقیقت میرے ساس سسر یہاں منتقل ہوئے تھے ان کی اولاد نے یہاں ہی پرورش پائی میں یہاں تعلیم حاصل کرنے کے لیے ائی تو میرے شوہر جن کا نام سعید خان ہے وہ میری ہی یونیورسٹی میں میری ہی کلاس میں تھے وہاں ہماری ہیلو ہائی ہوئی جو دوستی میں بدلی اور پھر وہ دوستی اہستہ اہستہ محبت میں بدل گئی

جب تک ہم دونوں نے ایک دوسرے کے سامنے اظہار محبت کیا اس سے پہلے میں سعید کے سارے خاندان کے بارے میں جان چکی تھی اس کے والدین سے بہن بھائیوں سے ملاقات کر چکی تھی میرے والدین پاکستان میں مقیم تھے لیکن میرے والد صاحب ایک اچھے عہدے پر تھے بیوروکریٹ تھے میں نے جب اپنے والد صاحب کے سامنے اپنے دل کا حال رکھا تو وہ باقاعدہ طور پر پاکستان سے یہاں میرے پاس ائے ا کر سعید کی فیملی سے ملے اور پھر انہوں نے میری پسند پر اپنے اطمینان کا اظہار کر دیا یوں میرے والدین کی مرضی سے ہم دونوں کا نکاح کر دیا گیا

میرے والدین کی یہ خوبی ہے کہ انہوں نے کبھی بھی پاکستان کی اکثریت ایلیٹ کلاس کی طرح ہمیں ازادی نہیں دی محبت اور لاڈ پیار کے نام پر ہمیں بگڑنے نہیں دیا بلکہ باقاعدہ طور پر مذہب کی تعلیم دی اور علماء کرام سے دلوائی ہمارے دلوں میں اسلام ایمان اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت جگائی ہمیں بالکل بھی بے جا لاڈ پیار نہ دیا ہمارے دل و دماغ پر اپنا ڈر قائم رکھا البتہ ہمیں ہمارے حق سے بڑھ کر پیار محبت دی اور جہاں کہیں ہم سے غلطی ہوئی وہاں ہمیں انتہائی پیار سے سمجھایا ہماری ہر مشکل میں ہمارے ساتھ کھڑے ہوئے خیر شادی کے بعد میں سسرال ائی جن کو میں شادی سے پہلے اچھی طرح جان چکی تھی تو میرے لیے یہاں ایڈجسٹ ہونا مشکل نہ رہا کیونکہ میرے والدین نے میری ایسی تربیت کی تھی کہ اگر میرے ساتھ کسی نے کوئی اونچ نیچ کر بھی لی تو میں نے اس کو نظر انداز کر دیا ہر شادی شدہ خاتون یہ بات جانتی ہے کہ سسرال میں جا کر وہاں ایڈجسٹ ہونے میں عورت کو کم سے کم چار سے پانچ سال کا عرصہ لگتا ہے اور مجھے اس سے بھی زیادہ لگا اس دوران مجھ پر میری نندوں اور ساس کی طرف سے سخت رویہ اپنایا گیا مجھے بلا وجہ  بیعزت کیا گیا مجھ پر طنز کیا گیا لیکن میں نے ان سب باتوں کو نظر انداز کر دیا اور کبھی گھر کے ماحول کو خراب نہیں ہونے دیا وقت اپنی رفتار سے گزرتا ہے گزرتا رہا میرے تین بچے پیدا ہوئے تیسرے بچے کی پیدائش سے پہلے تک میں ملازمت کرتی رہی لیکن پھر میں نے ملازمت چھوڑ دی اور اپنے بچوں کی پرورش پر توجہ دینے کا فیصلہ کر لیا

میری ساس اب بستر سے لگ چکی تھی وہ بالکل اٹھنے کے قابل نہ تھی یہاں تک کہ ان کا اخری وقت قریب اگیا اخری وقت میں وہ انتہائی تکلیف میں چلی گئی وہ ایک کمرے میں سانس لیتی تھی تو دوسرے کمرے تک اواز اتی تھی میرے بچے ہر وقت اس کی سانس لینے کی اواز سن کر سہمے رہتے تھے یہاں تک کہ بچوں کی حالت کو دیکھتے ہوئے ہم نے ساتھ والا گھر کرائے پر لے لیا اور میں بچوں کے ساتھ وہاں منتقل ہو گئی گو کہ میرا سارا وقت میری ساس کے پاس گزرتا بس درمیان میں اپنے بچوں کے پاس جاتی اور چکر لگاتی خاص طور پر اس وقت جب میری ساس کی کوئی نہ کوئی بیٹی اس کے پاس موجود ہوتی تھی

جب ایک ہفتہ یہی حال رہا اور ایک ہفتے کے دوران میری ساس نے صرف ایک ہی فقرا میرے شوہر سے کہا کہ

“بھابھی بابا جی کو لے کر ا گئی ہے اور بابا جی غصے میں ہیں”

وہ جب بھی ہوش میں اتی ہے صرف اسی ایک فقرے کو دہراتی حتی کہ ہوش کے دوران بھی نہ ان کی انکھیں کھلتی ہیں اور نہ ہی وہ کوئی اور بات کرتیں

بس ہم اس بات سے اندازہ لگاتے ہیں کہ جب وہ ہوش میں ہوتی ہیں اور ہم کوئی بات کرتے تو ہماری اواز کی طرف وہ اپنا چہرہ پھیرنے کی کوشش کرتی جس سے ہمیں اندازہ ہو جاتا کہ اس وقت یہ ہوش میں ہے ان کو نالیوں کے ذریعے خوراک فراہم کی جا رہی تھی اور وہ صرف یہ ایک فقرہ دہرا رہی تھی

میں نے اپنے شوہر سے اس کے متعلق پوچھا تو میرے شوہر نے بتایا کہ

میری ماں نے اپنی بھابھی پر بہت ظلم کیا تھا ان کی بھابھی سے نہیں بنتی تھی انہوں نے اپنے بھائی کے لیے اپنی کوئی دوست پسند کر رکھی تھی اور ان کے بھائی یعنی میرے مامو نے کسی اور لڑکی سے شادی کر لی

انہوں نے پہلے اپنی بھابھی کو طرح طرح کے اذیتیں دی تکالیف دیں لیکن وہ برداشت کرتی رہی ان کی کوشش تھی کہ ان کا گھر چل جائے جب میری ماں کے کہنے پر ان کے بھائی نے اپنی بیوی کو طلاق نہ دی اور یہ اپنی بھابی کو گھر سے نہ نکال سکیں تو پھر انہوں نے جادو ٹونے کا سہارا لیا

جادو کے ذریعے انہوں نے حالات اس نہج تک پہنچا دیے گئے ان کی بھابھی کے بچے اس کے پیٹ میں ہی مر جاتے یعنی ان کے لیے ان کی ماں کی کوکھ ہی قبر ثابت ہوتی کئی بار گھر کے اندر خود بخود اگ لگ جاتی اور جب اگ لگتی تو ان کی بھابھی کا جسم بالکل مفلوج ہو جاتا وہ صرف شور مچا پاتی تھی ہل جل نہیں سکتی تھی اب ان کی خوش قسمتی یہ تھی کہ جب بھی گھر میں اگ لگتی کوئی نہ کوئی بندہ گھر میں موجود ہوتا تھا جو ان کی مدد کو ا پہنچتا تھا پہلے پہل تو یہ لگا کہ اگ ان کی بھابھی کی غلطی کی وجہ سے لگتی ہے مگر بعد میں یہ بھی ثابت ہو گیا کہ کمرے میں ایسی کوئی چیز نہیں ہوتی جس سے اگ جلائی جا سکے اور دوسری اہم وجہ بھابھی کا اپنا جسم مفلوج ہونا تھا

کئی بار اگ ان کے جسم کے قریب پہنچ جاتی تھی اور ان کا جسم تھوڑا بہت جل بھی جاتا تھا

ان حالات کو دیکھتے ہوئے میرے مامو یعنی میری امی کے بھائی نے ایک عالم دین سے رابطہ کیا انہوں نے حالات کو نزاکت کو سمجھتے ہوئے بتایا کہ یہ جادو ٹونا ہے

لیکن میں معافی چاہتا ہوں میں اس کا کوئی توڑ نہیں کر سکتا البتہ میری یہ رائے ہے کہ اپ لوگ معوذتین کا ورد کرتے رہیں امید ہے اللہ تعالی اپ کو شفا دے گا

پھر کسی اور عالم عامل سے حساب لگوایا گیا تو پتہ چلا کہ جادو کروانے والا کوئی اور نہیں بلکہ میری والدہ ہے یعنی میرے ماموں کی سگی بہن میرے ماموں نے میری ماں کے سامنے ہاتھ باندھے اور کہا کہ ہمیں اس ازمائش میں نہ ڈالو  میری والدہ نے اپنی غلطی کو تسلیم کر لیا مگر اس کو سدھارنے کی حامی نہ بھری اور صاف الفاظ میں کہا کہ تم اسے طلاق دے دو اسی میں تمہارا فائدہ ہے یہ نہ تو تمہاری نسل کو اگے بڑھا سکتی ہے اور نہ ہی یہ زیادہ عرصہ جی سکتی ہے میری والدہ کی ان الفاظ کے بعد میرے ماموں نے ہمیشہ کے لیے میری والدہ سے قطع تعلق کر لیا مگر ان کو پھر بھی کئی بار ہماری دہلیز پر انا پڑتا کیوںکہ میری ممانی کو کہیں سے بھی افاقہ نہیں ہو رہا تھا

میرے مامو ایک بہت ہی مشہور بزرگ حضرت کرماں والا شریف کے گدی نشین کو لے کر بھی میری والدہ کے پاس ائے اور ان کی منت سماجت کی مگر میری والدہ نے ان بزرگوں کا بھی کوئی احترام نہ کیا اور کہا کہ میں اس عمل سے باز نہیں آوں گی

ان بزرگوں نے میری والدہ کو مخاطب کر کے کہا کہ انہوں نے میرے پاس انے میں دیر کر دی ورنہ تمہاری اور اس عمل کی کیا جرات تھی کہ ہمیں نقصان پہنچا سکتا اور پھر انہوں نے میری والدہ سے کہا کہ یاد رکھنا اس کی زندگی مشکل ہے لیکن موت اسان ہوگی جب کہ تمہاری زندگی اسان ہوگی لیکن تمہاری موت عبرت ناک ہوگی

اب جب میری والدہ کہتی ہے کہ میری بھابھی اس بزرگ کے ساتھ ا گئی ہے درحقیقت میری والدہ کو ماضی کا وہ وقت یاد اتا ہے جب میرے ماموں ان بزرگوں کو لے کر ہمارے گھر ائے تھے

خیر جب میرے شوہر کی بات مکمل ہو گئی تو میں خود بھی پریشان ہو گئی اور اس مسئلے کا حل ڈھونڈنے لگی میرے شوہر نے بھی ادھر ادھر بات کی اپنے جاننے والوں سے پوچھا اور میں نے بھی اپنے جاننے والوں سے اس مسئلے کے حل کے متعلق پوچھا مگر ہم کسی منطقی فیصلہ تک نہ پہنچ سکے یہاں تک کہ میرے شوہر نے یہ ذہن بنا لیا کہ

“یا تو میری ساس کو کسی فلاحی ادارے کے سپرد کر دیا جائے جو ان کی دیکھ بھال کرے یا پھر ان کو انجیکشن لگوا کر موت کی ابدی نیند سلا دیا جائے “

میں اپنے شوہر کے ان دونوں باتوں سے متفق نہ ہوئی میں نے کہا کہ ہمیں کوشش کرنی چاہیے اللہ تعالی ان کے اس گناہ کو معاف کر دے اور ان کے لیے کم از کم اگلی دنیا اسان کر دے میں اور میرا شوہر کوشش کرتے رہے یہاں تک کہ اخر میرے شوہر نے فیصلہ کیا کہ وہ پاکستان جائے گا جا کر ان بزرگوں سے یا پھر ان کی نسل میں سے کسی سے ملے گا اس کو سارا ماجرہ بتائے گا اور پھر ان سے اس معاملے کا حل پوچھے گا میں نے اپنے شوہر کو پاکستان جانے کی اجازت دے دی اور وہ پاکستان چلا گیا

پاکستان جا کر جب وہ کرماں والا شریف کے اس وقت کے گدی نشین سے ملا اور اس کو سارا معاملہ بتایا تو گدی نشین نے کہا کہ ہم تمہارے ہی منتظر تھے پھر انہوں نے ہمیں ایک ڈائری دکھائی جس ڈائری میں وہ دن  لکھا ہوا تھا جب وہ بزرگ میری ساس سے ملنے اور ان سے کہنے ائے تھے کہ اپنی بھابھی کو جینے دو اس کی زندگی کو عذاب نہ بناؤ اور میری ساس نے انکار کر دیا تھا گو کہ جو بزرگ میری ساس کے پاس ائے تھے وہ فوت ہو چکے تھے یہ ان کی اولاد میں سے کوئی بزرگ تھے انہوں نے وہ ڈائری میرے شوہر کو دکھائی جہاں یہ ذکر تھا وہیں یہ بھی لکھا ہوا تھا کہ جس عامل نے یہ عمل کیا ہے اس عامل کا یہ عمل اخری ہے اس عمل کے بعد وہ انسان دوبارہ کبھی کسی مسلمان کو تکلیف نہیں پہنچا سکے گا میرے شوہر نے خود یہ ہر چیز اپنی انکھوں سے پڑی اور حیران رہ گیا وہ اپنی والدہ کا سوچ کر رو پڑا اور ان سے کہا کہ اب بھی اس مسئلے کا کوئی حل ہے تو وہ بزرگ تھوڑی دیر خاموش ہوئے مراقبے کی حالت میں گئے اور پھر اپنی انکھیں کھول لیں انکھیں کھول کر فرمایا کہ اس خاتون نے تین غلطیاں کی اور تینوں  بہت بڑی غلطیاں تھیں

پہلے یہ کہ مسلمان ہوتے ہوئے انہوں نے کالا جادو کروایا

دوسرا یہ کہ انہوں نے ایک انسان کو ایک مسلمان خاتون کو اتنی اذیت دی کہ اس کے بچے اس کی کوکھ میں مرتے رہے

اور تیسرا یہ کہ اس خاتون کی دہلیز پر اللہ تعالی کا ایک نیک بندہ گیا اور اس خاتون کے بھلے کی بات کی لیکن اس کے باوجود یہ خاتون اپنے ان اعمال سے باز نہ ائی اور اللہ تعالی کی طرف سے بھیجی گئی ہدایت کو قبول نہ کیا

اپنی بات مکمل کرنے کے بعد انہوں نے فرمایا کہ بظاہر اس مسئلے کا کوئی حل میرے پاس نہیں ہے لیکن میں اپ کو ایک چیز تجویز کرتا ہوں کہ اپ اس خاتون کے ہاتھوں سے صدقہ خیرات کروائیں

کیونکہ یہ بات اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بتائی گئی ہے کہ صدقہ بلاؤں کو ٹال دیتا ہے مصائب کو ٹال دیتا ہے مشکلوں کو ٹال دیتا ہے یقیناً اللہ کی راہ میں دیا گیا صدقہ تمہاری ماں کی تکلیف کو کچھ کم کر دے کیونکہ یہ اللہ تعالی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے اس میں شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں بچتی مجھے یقین ہے کہ اگر تم اپنی ماں کے ہاتھ سے صدقہ کرواؤ گے یا خود اپنی والدہ کی نیت سے اللہ تعالی کی راہ میں کچھ صدقہ خیرات کرو گے تو اس کے بدلے میں تمہاری ماں کی تکلیف میں کمی ضرور ائے گی میرے شوہر اس ملاقات کے بعد واپس گلاسگو ا گیے

واپس ا کر نہ صرف یہاں کے فلاحی اداروں کی معاونت کی بلکہ پاکستان میں بھی غریب غرباء کے لیے رقم بھیجی اور ساتھ ہی لوگوں سے دعا کی التجا کرتے ہوئے کہا کہ

“دعا کرنا میری ماں کے جسم سے روح نکل جائے تاکہ اس کی تکلیف کچھ کم ہو جائے “

میری ساس تقریبا ڈیڑھ سے دو ماہ اس کی حالت میں رہی اور ڈیڑھ سے دو ماہ بعد شاید ان کے ہاتھوں سے دیے گئے صدقے کے وسیلے سے اللہ تعالی نے ان کے لیے کچھ اسانی کر دی ان کی روح پرواز کر گئی اور جان نکلنے سے پہلے انہوں نے ایک بار انکھیں کھولیں انہوں نے میرے شوہر کو بلایا ان کا ہاتھ چوما اور کہا کہ

ماؤں کے اولاد پر احسان ہوتے ہیں مگر تمہارا ماں پر احسان ہے جب میرے شوہر نے اپنی والدہ کی طرف دیکھا تو اس کو حالت بتا رہی تھی کہ اس کی ماں کا اخری وقت ہے اس نے ماں کے سرہانے بیٹھ کر کلمہ طیبہ اور کلمہ شہادت کا ورد شروع کر دیا میں بھی پاس بیٹھ گئی ہم لوگوں نے اونچا اونچا پڑھنا شروع کیا اور میری شوہر کی گود میں سر رکھے ہوئے میری ساس نے جان افرین کے سپرد کر دی البتہ ان کے ہاتھوں سے اور ان کے نام پر صدقہ خیرات کروانے کا میں یہ فائدہ ہوا کہ ان کو مرتے وقت کلمہ نصیب ہوا

میرا شوہر اج بھی کہتا ہے کہ میری والدہ نے پتہ نہیں اور کتنا عرصہ ازمائش دیکھنی تھی اور کتنا عرصہ تکلیف میں رہنا تھا اللہ تعالی نے اس کے لیے جو اسانی کی ہے وہ یقینا اسی صدقے کے وسیلے سے کی ہے اس واقعہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ صدقہ اپ کو کتنی کتنی بڑی مشکلات اور اذیتوں سے نجات دلوا دیتے ہیں اگر اپ کو اللہ تعالی نے نواز رکھا ہے تو اپ مخلوق خدا پر خرچ کرنے سے بالکل بھی نہ  کترائیں اپ ازما لیں اپ جتنا اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کریں گے اللہ تعالی اس سے کئی گناہ بڑھا کر اپ کو واپس لوٹا دے گا اور پتہ نہیں اپ کی کتنی کتنی مشکلیں اسان کر دے گا مسائل حل کر دے گا تکالیف اور اذیت دور کر دے گا بلائیں ٹال دے گا حادثات سے بچا لے گا میری ساس کی مثال اپ کے سامنے ہے اللہ تعالی ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور راہ ہدایت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے

اختتام

Loading