Daily Roshni News

میری تو قسمت ہی خراب ہے۔۔۔قسط نمبر1

میری تو قسمت ہی خراب ہے۔۔۔

قسط نمبر1

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )اکثر اوقات حسرت و پشیمانی کے یہ الفاظ سننے کو ملتے رہتے ہیں کہ کاش میں نے ایسا نہ کیا ہوتا، افسوس میں نے فلاں کا مشورہ نہ مانا…. اگر میں اس وقت یوں کر لیتا تو میری حیثیت آج کچھ اور ہوتی …. کیا کروں میری تو قسمت ہی خراب ہے۔

جب انسان اس حد تک مایوس ہو جائے تو پھر وہ اپنے آپ کو حقیر اور دوسروں کو قصور وار سمجھنے لگتا ہے اور اللہ تعالی سے بھی شکایت کرنے لگتا ہے۔ اپنی قسمت کو کوسنے لگتا ہے کہ میری قسمت میں یہ کامیابی لکھی ہی نہیں تھی یا میں جتنی بھی کوشش کروں لیکن مقدر ساتھ نہیں دیتا۔ ایسے میں انسان اپنی تمام کوششیں ختم کر دیتا ہے اور ہاتھ پاؤں چھوڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔ یوں وہ آگے بڑھنے کی تمام راہیں گویا خود اپنے لیے مسدود کر دیتا ہے۔ اگر ہم سوچیں تو پتہ چلتا ہے کہ مایوسی ہمیں کچھ نہیں دیتی۔ مایوسی کفر ہے۔ مایوسی ایساز ہر ہے جو انسان کو ذہنی طور پر مفلوج کر دیتا ہے۔ حوصلوں کے سارے ہنر ضبط کر لیتا ہے۔

جب مایوسی اس حد تک بڑھ جاتی ہے تو انسان اسے بد قسمتی، مقدر کی خرابی، نحوست، آسمان کی گردش، ستاروں کی چال و غیرہ کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتا اور ان کار و ناروتا ہے، یہ رجحان مستقل صورت اختیار کر لینے پر خود ترسی کی صورت میں ذات کی دلدل بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ جس طرح دیمک قیمتی کتاب کے صفحات چاٹ جاتی ہے۔ مضبوط لکڑی کے خوبصورت فرنیچر کو مٹی میں تبدیل کر دیتی ہے۔ اسی طرح خود ترسی، شخصیت کی توانائی چوس لیتی ہے۔ اگر چہ ذاتی موست، بد قسمتی، مقدر کی خرابی جیسے الفاظ دن رات استعمال کیے جاتے ہیں لیکن بالعموم ان سے وابستہ وجوہ پر توجہ نہیں دی جاتی، اس لیے نہیں کہ یہ بہت مشکل کام اور پیچیدہ عمل ہے بلکہ اس لیے کہ ذاتی نحوست، بد قسمتی اور مقدر کی خرابی طے شدہ امور سمجھے جاتے ہیں یعنی کوئی فرد اس بات کا قائل ہو چکا ہے کہ وہ منحوس ہے یا وہ بد قسمت ہے یا اس کا مقدر خراب ہے اور اس کا کوئی کام بھی ڈھنگ سے نہ ہو گا۔

تقدیر کیا ہے اور تدبیر کے اثرات کیا ہیں….؟ نحوست کیا ہے اور کوئی اپنے لیے کیسے منحوس ہو سکتا ہے….؟ یہ صدیوں قدیم مباحث ہیں ان کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے، یہاں اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں، نہ ہی یہ بات کسی کو سمجھائی جاسکتی ہے کہ کروڑوں میل کے فاصلے پر چکنے والے ستارے مقدر کی خرابی کا باعث کیسے بن سکتے ہیں …. ؟ لیکن جو انہیں تسلیم کرتے ہیں اور ذاتی خوشی، کامرانی، ناکامی، پریشانی، مصیبت، ابتلائی، دکھ الغرض تمام اچھے برے واقعات ان ہی سے منسوب کرتے ہیں وہ اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار ستاروں کی چال کو سمجھ کر خود کو کوستے رہتے ہیں۔

بہت سے لوگ بعض تکلیف دہ اتفاقات کو تو بد قسمتی پر محمول کرتے ہیں مگر حسب حال اتفاقات کو خوش قسمتی قرار نہیں دیتے۔ یہ ہے خود ترسی، خود رحمی، جس کی وجہ سے بعض مرد خود کو المیہ ہیر واور خواتین ٹریجڈی کوئین سمجھتی ہیں۔ بعض لوگ دکھ نگری، پاس نگری اور روگ آباد نظر آتے ہیں تو یہ خود ترسی کے مارے اور خود رحمی کے قفس کے اسیر ہوتے ہیں۔ کامیابی کے حصول کے لیے اس قفس سے نکلنا ضروری ہے۔

ذرا غور کیجیے کہ خدا نے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ عطا کیا ہے اور بے شمار صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ خدا نے انسان کو اتنا بلند درجہ دیا ہے تو اس کی کوئی وجہ ہو گی ….؟ اگر کبھی کسی کو آزمائش کی سخت گھڑی کا سامنا ہو تو اسے خدائے مہربان سے صبر و یقین اور عمل کی طاقت طلب کرنا چاہیے نہ کہ مایوس ہو کر سب کچھ چھوڑ دیا جائے۔ آزمائش کی گھڑیوں کو ناکامیوں سے تعبیر نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی دنیا کے سامنے شکستگی و کم ہمتی کی مثال بن کر رہ جائیں بلکہ یہ سوچیں کہ کامیابی سے ہمکنار رہنے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جو ناکامیوں کے باوجود وقت سے نظریں ملا کر حوصلہ و ہمت کے علم ہاتھ میں لیے سر اٹھا کر منزل کی تلاش میں مصروف رہتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی ناکامیوں کو چوٹ سمجھ کر آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ آخر ایک دن فاتح قرار پاتے ہیں۔ ایسے ہی باہمت افراد کو تاریخ سنہرے الفاظ کا تحفہ دے کر خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ یہ لوگ جگہ جگہ اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑتے ہوئے منزل مقصود پر پہنچ جاتے ہیں۔ ایک بادشاہ اپنی سلطنت گنوا دینے کے بعد دشمنوں سے بچتا بچاتا ایک غار میں چھپا بیٹھا اپنی ناکامی پر آنسو بہا رہا ہے۔ اپنی بد قسمتی کا ماتم کر رہا ہے۔ اچانک اس کی نظر غار میں بنے ہوئے ایک مکڑی کے جالے پر پڑی۔ ککڑی اپنے جال تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہے مگر کئی مرتبہ کی ناکامی کے باوجود تھک کر بیٹھ نہیں جاتی اور اس کی کوشش جاری رہتی ہے۔ وہ چھ بار نیچے گری مگر اس نے اپنی جد و جہد نہیں چھوڑی آخر ساتویں کوشش میں وہ اپنی منزل حاصل کرنے میں کامیاب ہو ہی گئی۔ شکست خوردہ، قسمت کی خرابی کا گلہ کرنے والے بادشاہ کے ذہن میں خیال آیا کہ اگر مکڑی کامیاب ہو سکتی ہے تو میں ایک انسان ہو کر کامیاب کیوں نہیں ہو سکتا …. یہ منظر دیکھ کر شکست خور وہ بادشاہ کی کھوئی ہوئی توانائی بحال ہو گئی۔ وہ ایک نئے عزام، نئے حوصلے کے ساتھ اٹھا۔ اس نے اپنی بکھری ہوئی افواج کو جمع کیا۔ پر جوش تقریر کر کے انہیں اپنا ملک اپنا وطن آزاد کرانے کے لیے آمادہ کیا۔ پھر نئی حکمت عملی کے ساتھ دشمن پر حملہ کر دیا۔ زیر دست معرکہ ہوا۔ آخر شکست خوردہ افواج اپنی جد و جہد سے کامیابی سے ہمکنار ہو ئیں۔ دشمن اور اس کی سپاہ اپنی جانیں بچانے کے لیے ان کا ملک خالی کر کے واپس بھاگ کھڑی ہوئیں۔ یوں ایک مکڑی کی مسلسل محنت و جدوجہد کو نظر میں رکھتے ہوئے کوشش کرنے والا بادشاہ پھر سے حکمران بن گیا۔ اس طرح یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اصل کامیابی اچھی حکمت عملی کے مطابق کوشش اور جد وجہد کرنے ہی میں ہے۔

ہمارے جاننے والوں میں ایک ایسا لڑکا بھی ہے جس کے پاس اسکول جانے کے لیے بس کا کرایہ تک نہ ہوتا تھا، سردی سے بچنے کے لیے بازار سے استعمال شدہ کوٹ خریدنے کے لیے دس روپے کی رقم بھی نہیں ہوتی تھی۔ آج وہ اپنی محنت، لگن اور جد وجہد سے ایک بڑا آدمی ہے۔ وہ دس روپیہ کا کوٹ خرید نہ سکنے والا لڑ کا آج مہنگا ترین لباس زیب تن کرتا ہے۔ ایک شپنگ کمپنی کے مالک کے والدین بچپن میں ہی وفات پاگئے تھے۔ اس یتیم بچے نے بڑی کسمپرسی میں اپنی زندگی گزاری مگر محنت سے منہ نہ موڑا۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ  روحانی ڈائجسٹ  ستمبر 2021

Loading