امرتسر میں بچپن کا رمضان اور سحری
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )اے حمید نے امرتسر میں اپنے بچپن کی ایک سحری اور دہی لانے کا نقشہ کچھ ایسا کھینچا کہ بیسیوں دفعہ پڑھ چکا ہوں لیکن ہر دفعہ وہی مزا ۔ آپ بھی دس منٹ لگا کر پڑھیں ۔ وقت رائیگاں نہیں جائے گا ۔
قیام پاکستان سے پہلے کا زمانہ ، دسمبر کی سرد ٹھٹھرتی رات کا پچھلا پہر، امرتسر شہر کے مکانوں کی چھتوں ، منڈیروں ، آنگنوں ، میدانوں اور باغوں پر کہرے کی لطیف یخ چادر سی بچھی ہے ۔ امرود کے اجڑتے ہوئے باغوں میں بے برگ وبار درختوں سے ٹھنڈی ٹھنڈی اوس ٹپک رہی ہے ۔سحری کا وقت شروع ہو گیا ہے ۔ ہماری گلی بیدار ہو رہی ہے ۔ دور سے ڈھول بجانے والے کی آواز آئی ہے ۔
ڈھول بجانے والا مگرابھی ہمارے محلے میں نہیں پہنچا ۔ وہ بجلی والے چوک یا مسجد خیرالدین کے آس پاس ہے ۔ایک بار بڑے زورشور سے ڈھول بجا کر اس نے آواز لگائی ہے ، ’’جاگو ! اللہ کے پیارو ! جلال دین آگیا ! سوتوں کو جگا گیا ! ‘‘میں پلنگ پر اپنے لحاف میں دبکے ہوئے دور سے یہ آواز سنتا ہوں ۔باہر صحن میں آپوجی( والدہ ) کے چلنے اور برتن اٹھانے رکھنے کی آواز آ رہی ہے۔سامنے والی مسجد میں موذن ٹونٹی کھول کے وضو کر رہا ہے اور زور سے کھانس کر اپنا گلا بھی صاف کر رہا ہے ۔ کہیں کہیں مسلمانوں کے مکانوں سے پانی بہنے کی آوازیں آنے لگی ہیں ۔آپو جی نے باورچی خانے سے میری بڑی بہن سرور کو آواز دی ہے ۔’ آج اٹھنا نہیں بانو ! ‘بانو کلمہ پڑھتے ہوئے اٹھ بیٹھی ہے اوردوپٹہ اوڑھ کر باہر صحن میں آ گئی ہے ۔مییں آنکھوں پر لحاف ذرا سے اٹھائے طاق پرجلتے ہوئے کڑوے تیل کے دیے کو دیکھ رہا ہوں ۔ مجھے اس کی لو میں روشنی اور نور کی ننھی منی پریاں ناچتی نظر آ رہی ہیں ۔
’ وے حمید ، وے اٹھ وے ، دہی لیا ۔‘ آپو جی کی آواز آتی ہے ۔ مجھے نیند بھی آ رہی ہے ، لیکن سحری کے وقت گلی میں نکلنے کا شوق بھی ہے ۔ ان لوگوں کو دیکھنے کا شوق جو ڈھول تاشے بجاتے روزہ داروں کو جگاتے ہیں۔ پکی گلی کی طرف سے گانے والوں کی ٹولی کی آواز آئی ہے ،
جلوہ گر ، جلوہ گر ، جلوہ گر ہو گیا
شاہ ِ جن وبشر جلوہ گر ہو گیا
سامنے والی مسجد کے موذن نے سحری کے شروع ہونے کی نوبت بجا دی ہے ، دھما دھم ، دھما دھم ، دھما دھم۔ میں لحاف سے آنکھیں ملتا ہوا اٹھا ہوں اور باہر صحن میں آ گیا ہوں ۔ باورچی خانے کے دروازے پر نمدا پڑا ہے ۔میں نمدا اٹھا کر اندر جاتا ہوں ۔ باورچی خانے کی فضا گرم ہے ، جیسے کسی نے اسکو گرم شال اوڑھا دی ہے ۔آپو جی نے دونوں چولہے جلا رکھے ہیں ۔ دیواروںپر لکڑی کے شعلوں کی چمک پھیلی ہوئی ہے ۔ایک چولہے پر رات کا پکا پالک کا ساگ گرم ہو رہا ہے ۔دوسرے چولہے پر سبز چائے دم ہو رہی ہے ۔
چائے کی خوشبو اڑ رہی ہے ۔ آپو جی کا سرخ وسفید گول کشمیری چہرہ چائے کی خوشبو اور آگ کی روشنی میں دمک رہا ہے ۔میں دہی کا برتن اٹھا کر باہر جانے لگتا ہوں کہ آپو جی ڈانٹ کر کہتی ہیں ،’’ فرد لے کے جاویں وے ۔ ‘‘( یعنی کشمیری شال اوڑھ کر جانا ) ۔ میں فرد سے بڑا گھبراتا ہوں ۔ میں ابھی چھوٹا ہوں ۔ دس بارہ سال کی عمر ہو گی ۔فرد بڑی ہے ۔ وہ گلی میں مجھ سے سنبھالے نہیں سنبھلتی ہے ۔ ویسے بھی اس عمر میں سردی کم ہی لگا کرتی ہے ۔ پھر ہم غریب محنتی ماں باپ کی اولاد سردیوں میں ننگے پیر ہی گلیوں میں بھاگتے پھرا کرتے ہیں ۔کبھی زکام تک نہیں ہوا ۔
میں ٹھنڈا کٹورا ہاتھ میں لیے گلی میں آ گیا ہوں ۔ آسمان پر چمکیلے ستارے بڑے بڑے موتیوں کی طرح چمک رہے ہیں۔گلی دور تک سنسان ہے ۔مسجد کے کنویں میں برکت ماشکی بوکے نکال نکال کر مشک بھر رہا ہے۔کنویں کی چرخی کی چیوں چیوں گلی کی خاموش فضا میں گونج رہی ہے ۔ برکت ماشکی اپنے بچپن سے لوگوں کے گھروں میں پانی بھر رہا ہے ۔ اب بوڑھا ہو گیا ہے ۔ کمر جھک گئی ہے ۔ ہاتھوں اور پنڈلیوں کی سبز رگیں پھول گئی ہیں ۔ وہ کنویں میں سے پانی نکالتے ہوئے گا بھی رہا ہے ،
’’کدی میں وی مدینے جاواں ‘‘
میں گلی کے موڑ پر ہوں ۔ ڈھول والا بازار میں پہنچ گیا ہے ۔ بڑے زوردار انداز میں ڈھول کو پیٹا ہے ، دھڑ دھڑ دھڑ ، اور آ واز لگائی ہے ،’جاگو ، اللہ کے پیارو ، جلال دین آ گیا ، سوتوں کو جگا گیا ۔‘میں بڑے اشتیاق سے اسے دیکھ رہا ہوں ۔ وہ دکان پر بیٹھے ہوئے میرے والد سے پوچھتا ہے ، خلیفہ جی ، ’کیہ وج گیا اے ۔‘اور پھراس طرح ڈھول بجاتا ہوا تیز تیز قدموں سے آگے نکل گیا ہے ۔ ڈاک خانے کے پاس گونگے کا تیزاور تلخ بگل گونج اٹھا ہے ۔ میں دہی ڈلوا کر واپس گلی میں مڑ رہا ہوں کہ گونگے کے بگل کی آواز بہت ہی قریب سے گونجتی ہے ۔اب وہ ہاتھ میں بگل تھامے بھاگتا ہوا بازار میں نمودار ہوا ہے ۔ گلی کی طرف منہ کرکے زور سے بگل بجایا ہے اور ٹارزن کی آواز میں وحشی چیخ مار کے آگے نکل گیا ہے ۔میں گھر کے پاس پہنچ گیا ہوں ۔ سامنے نعت خوانوں کی ٹولی کے گیس کی روشنیاں گلی میں جھلملا رہی ہیں ۔ انکو دیکھ کر میں مسجد کے تھڑے پرکھڑا ہو گیا ہوں ۔ ٹولی سبز رنگ کے گوٹہ کناری لگے جھلملاتے جھنڈے اٹھائے نعت پڑھتی آ رہی ہے ۔ وہ مسجد کے سامنے آ کے کھڑی ہو گئی ہے ۔
انھوں نے سروں پر سبز صافے باندھ رکھے ہیں ۔ آگے ایک آدمی نے گیس اٹھا رکھا ہے ۔گیس کی روشنی میں نعت خوانوں کے چہرے چمک رہے ہیں اور سردی میں گاتے وقت منہ سے بھاپ نکل رہی ہے۔میں فرد میں لپٹا ، دہی کا کٹورا ہاتھ میں لیے ، مسجد کے تھڑے پر کھڑا ، گردن ایک طرف ڈھلکائے آنکھیں سکیڑے اس ٹولی کو نعت پڑھتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ مجھے ان ٹولیوں کو دیکھنے کا بڑا شوق ہے ۔
اکثر وہ میرے سوتے ہوئے ہی گلی میں سے نعتیں پـڑھتی نکل جایا کرتی ہیں ۔ لیکن جب میری آنکھ کھل جائے تو میں بھاگ کر کھڑکی میں کھڑا ہو جاتا ہوں ، یا گلی میں نکل آتا ہوں ۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے نعت خوانوں کی یہ ٹولیاں خیال کی دنیا سے آتی ہیں اور خوابوں کی سرزمیں کو چلی جاتی ہیں ۔موذن مسجد کے رونث پر بیٹھا ہے ۔ وہ مجھے تھڑے پر اس طرح کھڑے دیکھ کر کہتا ہے ’اوے دہی لے کے گھر جا۔‘ عمدو کاکا نانبائی کے تنور سے نارنجی رنگ کے شعلے نکل کرچھت کو چھو رہے ہیں۔گامی سینڈو دونوں ہاتھوں سے میدے کے پیڑے بنا بنا کر تختے پر ساتھ ساتھ جوڑے جا رہا ہے۔ عمدو کاکا کٹورے میں دودھ اور کھجوریں بھگو رہا ہے۔ بودی چوکیدار منہ سر لپیٹے ڈنڈا ہاتھ میں لیے بنچ پر بیٹھا سگریٹ پی رہا ہے ۔
اس کابادامی رنگ کا کتا اس کے پاؤں میں سکڑا بیٹھا ہے ۔بودی اپنی طرز کا انوکھا پہرے دار ہے ۔ وہ ساری رات بوٹ پیٹی کے منہ سر لپیٹے بنچ پر دراز رہتا ہے ۔ادھر ادھر کہیں کوئی کھٹکا ہو تو کتا ہی جا کے خبر لاتا ہے ۔ بودی اپنی جگہ سے ہر گز نہیں ہلتا ۔ بودی ہر فن مولا بھی ہے ۔محلے میں کسی کا پنکھا ، گراموفون مشین ، بجلی کی استری ، تالہ ، کچھ خراب ہو ، بودی اسے ایک دم سارا کھول کر ٹھیک کر دیتا ہے ۔ گلی کے ہر گھر کے باورچی خانے میں لیمپ روشن ہیں۔ کہیں کہیں پرنالوں سے پانی گرنے کی آوازیں بھی آ رہی ہیں۔ جھکی ہوئی کمر والا بوڑھا گاماں ماشکی کمر پر پانی سے بھری ہوئی مشک لیے میرے قریب سے گزرا ہے ۔ چمڑے کی گیلی مشک سے پانی کے قطرے ٹپک رہے ہیں۔ اتنی سردی میں بھی وہ صبح صبح لوگوں کے یہاں پانی بھرتا ہے ، خدا جانے اسے سردی کیوں نہیں لگتی ۔ میں سوچتا ہوں میں دہی لے کر اپنے گھر آ گیا ہوں ۔ گھر میں سبھی جاگ چکے ہیں ۔ سحری تیار ہو چکی ہے۔مجھے لگا کہ باہرایک اور نعت خواں ٹولی نعت پڑھتی ہوئی گزر رہی ہے ،
تینڈی سواری یا نبی عرش بریں اتے گئی اے
دیکھ کے جلوہ طور تے ، موسیٰ نوں ہوش نہ رہی اے
میں پھر کھڑکی کی طرف بھاگتاہوں ، ٹولی گیس کی روشنی میں سبز جھنڈے لہراتی گلی کا موڑ مڑ رہی ہے ،اور تھوڑی دیر میں وہاں کوئی بھی نہیں تھا ۔
یہاں پہنچ کر اے حمید صاحب کی آواز بھرا گئی۔ ان کی آنکھوں میں تیرتی نمی دیکھی جا سکتی تھی ۔ شاعر نے کہا تھا ،
دھیان کے آتش دان میں ناصرؔ
بجھے دنوں کا ڈھیر پڑا ہے!