میکانزم کیا ہے؟
تحریر۔۔۔۔الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب
(قسط نمبر1)
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ میکانزم کیا ہے؟۔۔۔ تحریر۔۔۔۔الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب )مضمون نویسی میں مہارت اور اچھا مقرر بننا چاہتا ہوں ۔ دلی خواہش ہے کہ تحصیل علم کے بعد ملک وقوم کی خدمت کر وں مضمون نویسی او رمقرر بنے میں دو رکاوٹیں مائل ہیں۔
(۱) بات کرتے وقت اٹکتا ہوں بہت تیز بولتا ہوں جس کی وجہ سے مخاطب پر مافی الضمیر واضح نہیں ہوتا۔
(۲) بہت تیز لکھتا ہوں اتنا تیز کہ قلم ہاتھ سے نکل جاتا ہے تحریر اچھی اور صاف نہیں ہوتی ان دونوں سوالوں کاحل قرآنی آیات کے مطابق عطا فرمائیں۔
جواب : الذی خلق فسوی والذی قد رفھدی (۸۷ :۱۔۲)
اللہ تعالی کی ہرمخلوق معین مقداروں پر قائم ہے۔ نیچر کا طرزعمل آپ کے مشاہدے میں ہے۔ قلم اٹھانے کے لئے ذہن انسانی اتنی ہی قوت استعمال کرتا ہے جتنی ضرورت ہے اس کے بر خلاف ایک من وزن اٹھانے کے لئے قلم اٹھانے کی نسبت کئی گنا توانائی استعمال ہوتی ہے۔ قدرت کا قانون اس مثال سے واضح ہے انسان کے ارادہ میں جو کچھ ہوتا ہے اس کے متوازی میکانزم اور عمل بنتا ہے۔ قدرت کی معین کردہ اقدار اگر کسی وجہ
سے متاثر ہوجائیں تو میکانزم میں ابتلا پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ ابتلا انسانی زندگی کے کسی بھی شعبہ کو اس حد تک متاثر کر دیتا ہے کہ یہ انسان کے لئے ایک انجان بن جاتی ہے ۔ قرآن پاک کا بیان کردہ قانون کہ ہر چیز معین مقداروں سے تخلیق کی گئی ہے میں اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ زندگی کے تمام اعمال و حرکات میں توازن قائم ہیں ۔ قرآن پاک میں یہ بات بھی ارشاد ہو گئی کہ کائنات میں اللہ تعالی کا ارادہ برسر عمل ہے اور ارادہ کی اس صفت سے انسان بھی نوازا گیا ہے۔ ۔ انسان نا قابل تذکرہ شے تھا۔ ہم نے اس کے اندر اپنی روح پھونک دی اور دیکھتا سنتا انسان بن گیا۔ (۷۶ :۱۔۲)
۲- یہ لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ روح کیا ہے؟ آپ کہہ دیجئے کی روح میرے رب کا امر ہے۔ (۷ا :۸۵)
۳۔ امر یہ ہے کہ جب وہ کیا چیز کو تخلیق کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے ہو اور وہ عدم سے وجود میں آجاتی ہے۔ (۳۶۔۸۲)
قرآن پاک کی ان آیات مقدسہ میں آپ کے مسئلے کاپورا حل موجود ہے آپ ارادہ کر لیجئے ۔ آپ جو بات بھی کریں گے سوچ سمجھ کر کریں گے اور جو الفاظ بھی استعمال ہوں گے وہ صاف الگ الگ ہوں گے ۔ لکھتے وقت مستحکم ارادے سے بیٹھے اور کوشش کر کے حروف
کے پورے پورے دائرے بنائیے ۔ چند روز میں آپ کا مکمل ہو جائے گا۔
میں نے دیکھا کہ میں ۴-۵ سال کی بچی ہوں۔ اور اپنے اسکول کی چھت پر کھڑی ہوں آسمان صاف شفاف ہے۔ اس طرح جیسے بارش کے بعد گردوغبار دھل جانے کے بعد آسمان کا رنگ نکھر جاتا ہے کی طرف سے بادل کا ایک دبیز ٹکڑا آمسان سے آ گیا اور اس بادل کے ٹکڑے میں لا الہ الا الله محمد رسول اللہ لکھا ہوا ہے۔ یہ بادل کسی فلمی سین کی طرح گزر گیا۔ اس کے پیچھے بادل کے بڑے بڑے ٹکڑے آئے ۔ ان میں قرآن کریم کی مختلف آیات تحریر ہیں۔ یہ بادل بھی ہوا کے دوش پر بہت دور چلے گئے پھر ایسا ہوا کہ دو بادل کے ٹکڑے نظر کے سامنے آکر ٹھہر گئے۔ ان دونوں کے درمیان ایک بزرگ صورت انسان کا چہرہ نمودار ہوا۔ یہ بزرگ مسکرا کر میری طرف دیکھ رہے ہیں درخواست ہے کہ اس بات کی وضاحت کریں کہ خواب کیوں نظر آتے ہیں اور خواب کی تعبیر کس طرح معلوم کی جاتی ہے؟
خواب کو اختیار میں سمجھنے کے لئے چند باتیں پیش نظر رکھنا ضروری ہیں۔
(۱) انسانی زندگی کے تمام کاموں کا دارومدار حواس پر ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ کرنا کہ حواس کیا ہیں کس طرح مرتب ہوتے ہیں ۔ تفصیل طلب ہے۔ صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ ہمارے تجر بہ میں حواس کا زندگی سے کیاتعلق ہے۔
حواس کو زیادہ تر اسٹف Stuff بصارت سے ملا ہے۔ اسٹف کی مقدار %95یا اس سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ باقی اسٹف جوتقریبا%4ہے ۔ بقیہ چاروں کے ذریعہ ملتا ہے ۔ در اصل اسٹف کو ڈیا استعارہ کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ ہم استعارہ کو اپنی زندگی کی حدود میں اس کی ضروریات اور اس کے متعلقات کے دائرے میں سمجھتے اور بیان کرتے ہیں ان ہی استعاروں کی اجتماعیت سے ہماری زندگی کی میکانیکی تحریکات اور اعمال و وظائف اعضا بنتے ہیں ۔ ان اعمال و وظائف میں ایک ترتیب ہوتی ہے۔ ترتیب کو قائم رکھنے کے لئے ذات انسانی میں ایک تفکر پایا جاتا ہے۔ پتھر جس کو روح کہہ سکتے ہیں شعور سے ماوراء ہے چاہے اس کو لاشعور کہئے ۔ یہی تفکر شعور کو ترتیب دیتا ہے ۔ جتنے استعارے لاشعورکومل چکے ہیں ان میں زیادہ سے زیادہ استعارے محدودضرورتوں اورحد ووعقل محدود اعمال و وظائف کے دائروں سے باہر ہوتے ہیں ، اب جوكم سے کم استعارے باقی رہے ترتیب میں آئے اور شعور کا نام پا گئے ان کو بیداری کہا جا تا ہے اور کثیر التعداد استعارے خواب کے لامحدود ذخیروں میں منتقل ہوجاتے ہیں۔
(۲) کبھی بھی ذات انسانی، انا، روح، لاشعور کو ان لامحدودو خبروں میں سے کسی جزو کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ اس کے دو اہم مندرجات ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو بیداری کے متعلق مستقبل میں کام کرتے ہیں ۔ دوسرے وہ جو شعور کے کسی تجربات کی یاد دلاتے ہیں تا کہ شعور اس کا فائدہ اٹھا سکے جب روح ان ذخیروں سے کی جز وکو استعمال کرتی ہے تو اس جزو کا تمام اسٹف لاشعور حافظہ میں رکھ سکتا ہے نہ سنبھال سکتا ہے بلکہ خال خال حافظہ میں رہ جاتا ہے۔ اسی کوشعور خواب کا نام دیتا ہے۔اور تشریح کی روشنی میں خواب کا تجزیہ پیش کیا جاتا ہے۔
جو استعارے بچپن میں بصورت عقائدفہم میں نہیں سماسکتے اب وہ خواب میں اس لئے دہرائے گئے ہیں کہ شعور کوتشریح او تفصیل کے ساتھ سمجھایا جائے۔ ساتھ وہ اعتماد اور یقین کی پیشگی حاصل کر لے ۔ ایک بزرگ چہرہ اس امر کی نشاندہی ہے کہ ابھی شعور میں یہ چیزیں ناپختہ ہیں ذہن ڈگمگاتا اور یقین کی وہ قوت طبیعت کو حاصل نہیں ہے جو مستقبل کے محرکات او را عمال ووظائف بنتے ہیں ۔ طبیعت نے متنبہ کیا ہے کہ اس قوت کا حاصل کرنا زندگی کے لائحہ عمل میں استحکام پیداکرنے کے لئے اور فائدہ اٹھانے کے لئے ضروری
ہے۔ روح نے یہ بتایا ہے کہ بہتر اور کامیاب زندگی اس طرح حاصل ہوسکتی ہے کہ یقین کی قوت سے کام لیا جائے۔ یقین کی منزل تک پہنچاسکتی ہے۔
حضرت خواب شمس الدین عظیمی نے بہ خط رئیس امروہوی صاحب کے ایک کالم کے جواب میں تحریر کیا تھا مکتوب گرامی جس میں جسم مثالی پر بحث کی گئی ہے۔
محترم بنده ، مشفق ومحب کرم فر ما، بزرگ رئیس امروہوی صاحب السلام علیکم
۱۳ اور ۱۲۰کتوبر ۱۹۲۸ء کومضمون بعنوان سائنس جنات کی روشنی میں اور جنات سائنس کی روشنی میں نظر نواز ہوا۔ چند معروضات پیش ہیں اگر قبول فرمائیں تو عزت افزائی ہوگی۔
بھوت پریت، آسیب ، ڈائن وغیرہ کے الفاظ عام طور سے بولے جاتے ہیں لیکن اس کی تحقیق کی طرف کسی نے دھیان نہیں دیا کہ یہ سب بالآخر ہیں کیا ؟ آپ نے قبرستان میں دیکھا ہوگا جب قبروں سے بند کر دی جاتی ہے تو میت کے ساتھ جانے والے سوگوار ہاتھوں میں مٹی لے کر قبر کے اندر ڈالتے ہیں ۔ مذہب کا کوئی عمل لایعنی اور زائد نہیں ہوسکتا ۔مٹی ڈالتے وقت جو آیت تلاوت کی جاتی ہے وہ بھی اپنے مفہوم کے اعتبار
سے انتہائی تو طلب ہے۔
انسان تین پرت کا مجموعہ ہے۔ ہر پرت متعین صفات۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور اگست2013
تو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی کہ نوع کاہر ذی نفس اس کا معمول بن جائے گا۔ برخلاف اس کے مردہ جم( گوشت پوست کاجسم نہیں) میں یہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے کہ بغیرکسی مشق اورعمل و مشغل کے کسی بھی شخص یا حیوان کو متاثر کرسکتا ہے لیکن معمول وہی حضرات بنتے ہیں جو دماغی اعتبار سے کمزور اور کندذہن ہوتے ہیں۔
ارشادربانی ہے: ہم زندگی کو موت سے نکالتے ہیں، مفہوم بالکل صاف ہے موت اور زندگی ایک الگ شے نہیں ہے ۔ موت اور زندگی نام ہے انسانی صلاحیتوں اور اوصاف کا ایک وصف زندگی ہے۔ اور ایک وصف موت ہے ……. زندگی سے پہلے ہم جہاں بھی تھے اس کا نام موت کے علاوہ کچھ نہیں رکھا جا سکتا۔ اور اس زندگی کو گزار کر دوسری زندگی کو اپنانے کا نام بھی موت ہے۔
انسانی زندگی کا وصف جس کا نام موت ہے سب کا سب غیب ہے ۔ یہ وصف انسان کو مکانی اور زمانی قیدسے آزاد کر کے ایسی زندگی سے روشناس کرتا ہے جہاں انسان کا ارادہ حکم کی حیثیت رکھتا ہے ۔ انسان کی خواہش اگر یہ ہے کہ وہ سیب کھائے تو اس کے لئے صرف سیب کھانے کا ارادہ کر لیناہی سیب کی موجودگی کا سبب بن جاتا ہے۔ موت کی دنیا میں مظاہر وسائل کے پابند نہیں ہوتے عالم قید و بند (دنیا) میں کوئی انسان اس وقت تک سیب نہیں کھا سکتا جب تک سیب کو وجود میں لانے والے پورے وسائل بروئے کارنہ آجائیں۔
یہاں سیب کے لئے تخم ریزی سے پھل بننے تک کے پورے مراحل سے گزرنا ضروری ہے ۔ ان طویل اور تکلیف دہ مراحل کا انتظار اگر محسوس کیا جا ئے کتنا صبر آزما اور کس قدر شدید ہے ۔سیب کے حصول کے لئے ہمیں اتنا وقت گزارنا لازمی ہے جوسیب کی موجودگی کے لئے متعین ہے۔
اگر ہم کسی طریقہ سے مرنے کے بعد کی زندگی کا سراغ لگا لیں تو ہم اس زندگی میں بھی صبر آزما اور ہمت شکن انتظار سے نجات پا سکتے ہیں ۔ حضور سرور کائنات رسول اللهﷺ نے اسی زندگی کو اپنانے کےلئے فرمایا ہے موتو قبل ان تموتو مر جاؤ مرنے سے پہلے یعنی اس ہی زندگی میں موت کے بعد کی زندگی حاصل کر کے اپنے اوپر سے قید و بند کی تہہ در تہہ اور دبیز چادر کو اتار پھینکیں۔
حضور سرور کونین علیہ الصلوۃ والسلام کے اس حکم پر عمل کر نیوالے ہر زمانہ میں موجود رہتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دماغ پس پردہ مل میں آنے والے مناظر کو براہ راست دیکھتے اور سمجھتے ہیں ان کا ذہن خیال اور تصور کے اندر بھی قدرت کے اشارے تلاش کر لیتا ہے ۔ ایسے حضرات کے اندر غیر معمولی صلاحیتیں کام کرتی ہیں ۔ اتنی غیر معمولی کہ جو چیزیں سامنے نہیں ہوتیں ان کو سامنے لے آتی ہیں۔ مرنے سے پہلے مر جانے والے لیکن اس دنیا میں موت کی زندگی سے روشناس اورمتعارف لوگ اتنی زبردست صلاحیت اور قوت کے مالک ہو جاتے ہیں کہ کائنات میں موجود ہرشے ان کے ذہن کے ساتھ حرکت کرتی ہے۔ فی الواقع کی صلاحیتیں حیرت انگیز نہیں ہیں ۔ البتہ ان کا تلاش کرنا بڑا اور بہت بڑا کارنامہ ہے۔
بات جنات سے شروع ہوئی تھی ۔ جنات، آسیب، بھوت پریت کا عقیدہ اس لئے چیستان ہے کہ ہم نے اس زندگی سے راہ فرار اختیار کررکھی ہے جو اس قسم کے تمام معموں کوحل کرتی ہے۔ یہ زندگی ( جو ہماری زندگی کا نصف حصہ ہے) لاشعوری زندگی ہے۔