Daily Roshni News

میں بتاؤں کیا مجھے کیا ملے

میں بتاؤں کیا مجھے کیا ملے

مجھے صبر ہی کا صلہ ملے

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )وزیرہ چاچی۔۔۔میرے ذہن میں آج بھی گاوں کے واحد مولوی جبار گل کی باتیں نقش ہیں۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ہمارے ہاں جہیز کو اس لیے بھی خصوصی اہمیت حاصل ہے کہ لڑکے والے شادی کے وقت لڑکی کو نقد رقم ادا کرتے ہیں۔ اس رقم کا مطلب لڑکی کو خریدنا نہیں ہوتا، بلکہ یہ لڑکے والوں کی طرف سے لڑکی کے والد کے لیے ایک تحفہ ہوتا ہے۔ گویا وہ کہتے ہیں کہ “آپ خود کو تکلیف نہ دیں، جہیز میں ہمارے پیسوں کا استعمال کریں تاکہ آپ کی بیٹی کو کسی محرومی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔”

ایک طرح سے یہ سوچ اچھی ہے کہ لڑکی کے والدین پر بوجھ کم ہو، مگر لوگوں نے اس عمل کو جو نت نئے رنگ اور ڈھنگ دیے ہیں، ان کی وجہ سے یہ نیکی بُرائی بن گئی ہے۔ نہ جانے کیوں، مولوی صاحب کی یہ تاویلات مجھے ہمیشہ مصنوعی سی لگتی تھیں۔

بچپن سے سنتے آئے تھے کہ جس عورت کے باپ نے جہیز میں بیٹی کو سلائی مشین، پلنگ و بستر، رنگین دستی پنکھے اور بڑا سا صندوق نہ دیا ہو، اس عورت کی سسرال میں عزت نہیں ہوتی۔ میری والدہ کی سسرال میں عزت دوسری بہوؤں کی نسبت اس لیے زیادہ تھی کہ سن اسی کی دہائی میں نانا نے انہیں دو سٹیل کے جگ بمعہ بارہ گلاس، ایک سلائی مشین (جو اس وقت ایک عجوبہ تصور کی جاتی تھی) اور بستروں سے بھری ایک بڑی پیٹی دی تھی۔ اسی کی بنیاد پر اماں دادی کی منظورِ نظر ٹھہریں، اور باقی سینئر بہوؤں کو شادی کی اگلی صبح ان کی “اوقات” یاد دلا دی گئی کہ وہ بھیک مانگنے والوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔

مشترکہ خاندانی نظام کے تحت چار چچا، ان کی سات بیویاں اور تیس کے قریب بچے، اللہ کی قدرت سے گھر میں خوب پھل پھول رہے تھے۔ اللہ کا خاص کرم ہم پر اتنا زیادہ تھا کہ سنبھالے نہیں سنبھلتا تھا۔

بڑی چچی نے علی الصبح بیٹے کو جنم دیا۔ ابھی گھر میں فائرنگ کی آوازیں مدھم نہیں ہوئیں تھیں کہ دو گھنٹے بعد اسی چچی کی بہو نے بیٹی کو جنم دے کر خاندان کی خوشیوں پر پانی پھیر دیا۔ دونوں ساس بہو چارپائیوں پر لیٹے ایک دوسرے کو کینہ توز نظروں سے گھورتی رہتیں۔ آخر کار ساس تو ساس ہوتی ہے، جیت بھی اُسی کی ہونی تھی۔ رات تک بہو “منحوس” قرار دے دی گئی۔

میری منجھلی چاچی وزیرہ بیگم کا میکہ انتہائی غریب تھا، مگر اللہ نے انہیں دولت کے بجائے اخلاق سے نوازا تھا۔ بچپن سے جوانی تک میں نے وزیرہ چاچی کو کبھی اونچی آواز میں بات کرتے یا روتے نہیں دیکھا۔ دادی نے کبھی اس سے بات نہیں کی، بلکہ اسے اس قابل ہی نہیں سمجھا۔ گھر میں خوشی ہو یا غم، میں نے چاچی کو ہمیشہ اپنے پانچ بچوں سمیت باورچی خانے میں دیکھا۔۔۔۔۔ چولہے میں گیلی سلگتی لکڑیاں پھونکتے ہوئے۔

کہتے ہیں جس ماں کی عزت نہ ہو، اس کے بچے بھی رُل جاتے ہیں۔ سو عید ہو یا شبِ برات، چاچی کے بچوں کے پھٹے گریبان، ننگے پیر، اور آخر میں پلیٹوں میں بچے کھچے سالن کو انگلیوں سے چاٹتے دیکھا۔ وہ کہتی تھیں “یہ سنتِ نبوی ہے۔”

چاچی وزیرہ کے بھائیوں کو کبھی ان سے ملتے نہیں دیکھا۔ اماں سے سنا تھا کہ ایک دفعہ ان کا چھوٹا بھائی ان سے ملنے حجرے آیا تو کسی نے عزت نہیں دی۔ وہ غریب مگر خوددار تھا، سو اس کے بعد کبھی کوئی رشتہ دار وزیرہ چاچی سے ملنے نہیں آیا۔

وزیرہ چاچی کو میں نے اکثر پٹتے دیکھا۔ جس دن کھانے میں نمک کی کمی بیشی پر شوہر کی مار سے بچ جاتیں، اُس دن کسی دیور کے ہتھے چڑھ جاتیں۔ کبھی الزام لگتا کہ استری سے کوئلہ جان بوجھ کر گرا کر بوسکی کی شلوار جلا دی۔

دادا کے سینکڑوں مہمانوں کی خدمت کرنی ہوتی تو وزیرہ کو آواز دے کر باورچی خانے میں قید کر لیا جاتا۔ گاؤں کے کسی بھی غم یا خوشی میں دادی صبح سویرے اعلان کرتیں کہ “وزیرہ ہمارے خاندان کی طرف سے خدمت کے لیے جائے گی”۔

وزیرہ کو میں نے آج تک “اُف” کرتے نہیں دیکھا۔ دوسری طرف میری ماں کو کسی نے کبھی نظر اٹھا کر نہیں دیکھا — مضبوط خاندان سے تھیں، سو عزت دار بھی تھیں اور بلا کی منہ پھٹ بھی۔ مگر کسی کو ناگوار نہ گزرتی۔ اگر لگتی بھی تو اعتراض کی جرات کسی میں نہ تھی۔

بچپن سے جوانی تک میں نے پھٹے انچل، ننگے پیر وزیرہ چاچی کو ہمیشہ بھاگتے دیکھا۔

ایک رات حجرے میں مہمان آئے تھے، میں کسی کام سے گھر داخل ہوا تو جانوروں کے باڑے میں لالٹین کی روشنی نظر آئی۔ تجسس سے مجبور ہو کر اندر جھانکا تو گائے تکلیف میں تھی۔۔۔۔۔ بچہ جن رہی تھی، اور وزیرہ چاچی نے اس کے گلے میں بازو ڈالے ہوئے تھے جیسے اسے جذباتی سہارا دے رہی ہوں۔

وہ کسی سے زیادہ بات نہیں کرتی تھیں، مگر ہر ایک کی سنتی تھیں۔ بچوں اور بڑوں کی ایک آواز پر ہاتھ باندھے کھڑی ہو جاتیں۔ میں نے کبھی ان کی زبان سے شکوہ یا فریاد نہیں سنی۔

ایک دن اسکول سے آیا تو اماں نے کہا “جاو، وزیرہ سے کہو کھانا دے دے۔” حسبِ معمول وہ بستر پر پڑی تھیں۔ میں نے آواز دی تو اچھل کر اٹھ بیٹھیں۔ آنکھیں سرخ تھیں۔ میں نے پوچھا “چچی، کیوں رو رہی ہو؟”

وہ شرمندہ سی ہو کر بولیں “نہیں بیٹا، بخار ہے… آو، کھانا دیتی ہوں۔”

وزیرہ چاچی کو میں نے کبھی روتے نہیں دیکھا۔۔۔۔ سوائے اُس دن کے، جب ان کا چودہ سالہ بیٹا پہاڑ سے لکڑیاں کاٹتے ہوئے سینکڑوں فٹ نیچے کھائی میں جا گرا۔ میں نے آج تک کسی کو اس طرح روتے نہیں دیکھا۔ وہ زمین پر چادر کے بغیر لوٹ پوٹ ہو رہی تھیں، چیخ رہی تھیں، جیسے خدا پر چیخ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اس کی ناانصافیوں پر ماتم کناں ہو۔

وہی دن ان کی زندگی کا آخری دن تھا۔ اس کے بعد نہ وزیرہ چاچی کو کسی نے دیکھا، نہ ان کا ذکر سنا۔ گاؤں کے چرواہے چراغ گل نے بتایا کہ سرِ شام وزیرہ کو اپنے بیٹے کی قبر پر بال بکھرائے دیکھا گیا، پھر وہ غائب ہوگئیں۔

دادی کہتی تھیں، “بدذات خاندان کی عورت تھی، بدذاتی والا کام کر گئی۔”

برسوں بعد گاؤں جانے کا اتفاق ہوا۔ دوستوں کے ساتھ شکار پر ملحقہ پہاڑوں پر گیا۔ وہیں پہنچا جہاں وزیرہ چاچی کے بیٹے کا پیر پھسلا تھا۔ میں نے نیچے جھانکا، اچانک میرا پیر بھی پھسل گیا۔ گرتے گرتے ایک جھاڑی پکڑ لی۔ بڑی مشکل سے خود کو سنبھالا۔ پسینے میں شرابور تھا۔ موت کی ہیبت سے اوسان خطا ہو گئے۔ اللہ کا شکر ادا کیا کہ نئی زندگی دی۔

دل ہی دل میں شکر گزار تھا کہ نیچے سے بین کرتی آوازیں آنے لگیں۔ میں ٹھٹھک کر رک گیا۔

اس آواز کو میں ہزاروں آوازوں میں پہچان سکتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔وزیرہ چاچی آج پھر خدا سے فریاد کر رہی تھیں۔

                 میری ذات ذرہ بے نشان

میں بتاؤں کیا مجھے کیا ملے

مجھے صبر ہی کا صلہ ملے ۔۔۔

‘ کسی یاد ہی کی ردا ملے ۔۔۔۔

کسی درد ہی کا صلہ ملے ۔۔۔

کسی غم کی دل میں جگہ ملے۔۔۔

جو میرا ہے وہ مجھے آملے ۔۔۔

رہے شاد یونہی میرا جہاں،”

 کہ یقین میں بدلے میرا گمان ۔۔۔۔

میری ذات ذرہ بے نشاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Loading