Daily Roshni News

میں کون ہوں؟۔۔۔تحریر۔۔۔ممتاز مفتی

میں کون ہوں؟

تحریر۔۔۔ممتاز مفتی

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ میں کون ہوں؟۔۔ میں کون ہوں؟)ایک انوکھا خواب…. ایک انوکھا تجربہ … ایک انو کھالحہ …. محیر عقل، عجیب و غریب پر اسرار اور ماورائی علوم سے دلچسپی رکھنے والے قارئین کے لیے …..

مایہ ناز افسانہ نگار ممتاز مفتی کا حیرت میں ڈوبا ہوا افسانہ۔

میر انام کیا ہے…..؟

مظہر ہے یہی تو مشکل ہے. میر انام کیا ہے….؟

مجھے نہیں پتہ کہ میں کون ہوں ….؟

آپ کہیں گے یہ ایکسیڈینٹ کی وجہ سے ہے۔ ہاں ایکسیڈینٹ تو ہوا تھا، لیکن میرا

ممتاز ذہن ماؤف نہیں ہوا تھا۔ میری یادداشت شل نہیں ہوئی تھی، صرف چہرہ مسخ ہوا تھا۔ ساری چوٹیں چہرے اور سر پر آئی تھیں، مگر میرا ذہن کام کر تارہا، بلکہ مجھے تو یہ مشکل ہے کہ میرا ذہن کچھ زیادہ ہی کام کرتا ہے۔ کاش! میرا ذہن ماؤف ہو گیا ہوتا۔ ذہنی کشمکش سے تو جان چھو لتی۔ اب میں پانگ پر پڑے پڑے سوچتا رہتا ہوں، میں کون ہوں ….؟

ایک بات تو یقینی ہے، یا تو میں افضل ہوں اور یا جمیل۔ میں خود اپنے آپ کو افضل سمجھتا ہوں، لیکن اسپتال میں سب مجھے جمیل کہہ کر بلاتے ہیں۔

ڈاکٹر کہتا ہے ، افضل تو حادثے میں مر کیا تھا۔ اس کی لاش کی شناخت ہوئی تھی۔

܀܀܀

اس کے باوجود مجھے اب بھی شک پڑتا ہے۔ میں افضل ہوں، جمیل نہیں۔ مجھے تو پتہ ہی نہیں جمیل کون تھا اور یہ سب کچھ ایک خواب کی وجہ سے ہوا۔

…. ایک بچپن میں، میں سمجھا کرتا تھا، خواب اشارے ہوتے ہیں…. مستور اشارے۔ ماورائی علوم سانپ دیکھو، تو جان لو وہ دشمن ہے۔ شادی فسانہ دیکھو، تو سمجھ لو کوئی تھی دیکھنا پڑے گی۔ کٹا ہوا پھل دیکھو ، تو اولاد کا دکھ ہو گا۔

ان دنوں میں نے کئی ایک تعبیر نامے خریدے تھے جن میں ایک طرف چیزوں کی فہرست دی ہوتی اور دوسری طرف تعبیر ۔ پھر تعلیم حاصل کرنے کے بعد مجھے پتہ چلا، خواب عام طور پر دبی ہوئی یا انجانی خواہشات کا اظہار ہوتے ہیں۔

تحصیل علم کے بعد جب میں نے ای ایس پی Extrasensory Perception)ESP) کا مطالعہ کیا، تو جانا کہ خواب مستقبل کے پیامبر بھی ہو سکتے ہیں، لیکن اب مجھ سے کوئی پوچھے کہ خواب کیا ہوتے ہیں، تو میں کوئی جواب نہیں دے سکتا۔ میر ا سارا علم پھپھوندی کی طرح اڑ گیا ہے۔ میں اپنے آپ کو جاہل مطلق سمجھنے لگا ہوں۔ اب تو کئی بار اسپتال کے اس بیڈ پر لیٹے ہوئے مجھے خیال آتا ہے، شاید یہ بھی ایک خواب ہے جو میں دیکھ رہا ہوں۔ یہ بیڈ، اسپتال، ڈاکٹر ،ترس،سب کچھ اور ابھی میری آنکھ کھل جائے گی اور پھر مجھے پتہ چل جائے گا، میں کون ہوں۔

پھر مجھے خیال آتا ہے شاید کبھی آنکھ نہ کھلے۔ شاید زندگی بذات خود ایک خواب ہو۔

܀܀܀

میری کہانی بہت ہی مختصر ہے۔

میں لوئر مڈل گھرانے میں پیدا ہوا۔ ماں باپ کا اکلوتا بیٹھا تھا، اس لیے سارے گھر کا محبوب۔ انہوں نے بڑے شوق سے مجھے پڑھایا۔

نفسیات میں ایم اے کرنے کے بعد مجھے ایک کالج میں نوکری مل گئی۔ پھر میری شادی اسمارہ سے ہو گئی۔ اسمارہ میری بنت عم نہ تھی۔ بہت ھم کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا …. امی کا کوئی قریبی عزیز تھانہ اہا کا۔ اسمارہ امی کی ایک پرانی سہیلی شمسہ کی اکلوتی بیٹی تھی۔ خاوند مر چکا تھا۔ ماں چاہتی تھی بیٹی کے ہاتھ پہلے کر کے مصلے پر بیٹھے کر اللہ اللہ کرے۔

شمسہ نے امی سے بات کی، امی نے مجھے کہا۔ کہنے لگیں بیٹا! اسمارہ کو دیکھ لے، اگر تجھے پسند ہو، تو تیرا اس سے بیاہ کر دوں۔ شمسہ کی آرزو بھی پوری ہو جائے گی۔ میں بھی سہیلی کے سامنے سر خرو ہو جاؤں گی۔ اگر تو رضا مند ہو جائے، تو تیرے ابا کو میں منالوں گی، آخر شادی تو کرنی ہی ہے۔ کسی نہ کسی لڑکی سے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی مجبوری ہے۔ اسے دیکھ لے، اگر تو اسے پسند کرے تو ٹھیک ہے۔ پسند نہ ہو تو نہ سہی۔

پہلے دن جب میں نے اسمارہ کو دیکھا، تو وہ آنکھیں ہی آنکھیں تھیں۔ آنکھیں ہی آنکھیں…. میں نے زندگی میں رنگ رنگ کی آنکھیں دیکھی ہیں…. لیکن اسمارہ کی آنکھیں کبھی نہ دیکھی تھیں۔

اسمارہ کی آنکھیں دیکھنے والی آنکھیں نہ تھیں۔ وہ صرف دکھانے والی آنکھیں تھیں۔ جوں جوں آپ انہیں دیکھتے، توں توں وہ بڑی ہوتی جاتیں، ہوتی جاتیں، ہوتی جائیں، حتی کہ وہ سارے گردو پیش پر چھا جاتیں۔ ان آنکھوں میں تین تاثر نمایاں تھے۔ معصومیت ، حیرت اور حسرت ….

اسمارہ ایک خاموش لڑکی تھی۔ ایسے لگتا تھا جیسے وہ بن بولے بہت کچھ ہے جارہی ہو۔ کیا ہے جارہی ہو، یہ پتہ نہیں چاہتا تھا۔ میں کئی ایک بار اسمارہ سے ملا۔ گھر میں، اکیلے میں ، کئی بار میں اسے فلم دکھانے بھی لے گیا۔ غالباً اسے علم تھا کہ میرا اسے بار بار مانا کسی مقصد کے تحت تھا اور وہ یہ بھی جانتی تھی کہ وہ مقصد کیا ہے لیکن نہ تو اس نے مجھے لبھانے کی کوشش کی ، نہ اس میں فکر یا پریشانی کی جھلک پیدا ہوتی۔ نہ اس نے میرے قریب آنے کی کوشش کی ، نہ دور جانے کی۔ مختصر یہ کہ اسمارہ دوسری لڑکیوں سے ہٹ کے تھی۔ اس کی انفرادیت ر معصومیت مجھے بہت پسند آئی اور میں نے امی کو کہہ دیا کہ بیشک آپ اسمارہ کو بہو بنالیں، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ نتیجہ یہ کہ ہماری شادی ہو گئی۔ اورشادی کے بعد میں نے محسوس کیا، وہ بڑی پاکیزہ، وفاشعار، خدمت گار اور محبت کرنے والی بیوی ہے۔ بس صرف ایک بات تھی جو میرے لیے بہت پریشان کن تھی۔ اسمارہ کی عادت تھی ، وہ کبھی سر اٹھا کر میری طرف نہ دیکھتی، جب بھی ہم اکٹھے بیٹھ کر آپس میں باتیں کرتے تو وہ سر جھکائے بیٹھی رہتی۔ کبھی کبھی آنکھیں ملائے بغیر سر اٹھا کر میری جانب ایک ساعت کے لیے دیکھتی اور پھر جلد ہی آنکھیں جھکا لیتی۔ اس نے کبھی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر میری طرف نہ دیکھا تھا۔ شروع شروع میں میں سمجھا کہ شاید شرماتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مئی 2019

Loading