میں کون ہوں؟
تحریر۔۔۔ممتاز مفتی
قسط نمبر4
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ میں کون ہوں؟۔۔ تحریر۔۔۔ممتاز مفتی) پھر مضافات آجاتے ہیں۔ کھلی بستیاں اور خوبصورت مکانات، پھر جھگیاں ہی جھگیاں۔ یوں میں کسی کی تلاش میں چلے جاتا ہوں، چلے جاتا ہوں۔ آخر ایک دروازے پر رک جاتا ہوں۔ رات کا وقت ہے، اندر بتی جل رہی ہے۔ میں نے اندر داخل ہو جاتا ہوں“۔
اجنبی جوش میں اٹھ بیٹھا اور ڈرائنگ روم کے بیرونی دروازے کی طرف جا کر پھر ہماری طرف مڑا، جیسے ابھی ہی دروازے سے اندر داخل ہوا ہو۔
دروازے سے یوں کمرے میں داخل ہوتا ہوں۔ اجنبی نے اپنا سلسلہ کلام جاری کیا کیا دیکھتا ہوں” وہ ہماری طرف دیکھ کر بولا ” کمرے میں کچھ لوگ بیٹھے ہیں، بالکل اسی طرح جس طرح آپ بیٹھے .. وہ مکان پرانی وضع کا ہے“۔ دو ایک ساعت کی خاموشی کے بعد اس نے بات شروع کی ۔ ” اور اس کمرے کے اوپر چاروں طرف گیلری بنی ہوئی ہے“۔ اجنبی نے اوپر چھت کی طرف دیکھا ، وہ جوش میں آکر چلانے لگا۔ ارے! بالکل اسی طرح جس طرح اس کمرے میں گیلری بنی ہوئی ہے۔ بالکل اسی طرح “۔ وہ چیخ کر بولا اور صاحب، اس گیلری سے ایک زمینہ سیدھا نیچے ڈرائنگ روم میں اترتا ہے۔ مائی گاؤ ! وہ زینے کی طرف دیکھ کر بولا….
بالکل وہی زینہ وہی“۔ اجنبی کی آواز جذبے کی شدت سے گھگیا گئی۔ آنکھیں گویا پھٹ گئیں” کہیں خواب تو نہیں دیکھ رہا ؟ اس نے زیر لب کہا۔
نہیں، نہیں، آپ خواب نہیں دیکھ رہے“۔ ظہیر نے کہا۔ ” اور ، اور ” اجنبی نے سلسلہ کلام شروع کیا اور پھر گیلری سے وہ خاتون زینہ اترتی ہے“۔ کھٹ کھٹ کھٹ کسی کے زینے سے اترنے کی آواز آنے لگی۔ ہم سب یوں چپ چاپ بیٹھے اس آواز کو سنے لگے ، یوں جیسے کسی نے ہمیں ہیپناٹائز کر دیا ہو۔ ” اور ۔ اور پھر وہ خاتون…. میری ہونے والی بیوی رک جاتی ہے“۔ ہم سب کی نگاہیں زینے پر مرکوز ہو گئیں۔
آواز بند ہوگئی۔ زینے پر اسمارہ یوں کھڑی تھی، جیسے کوئی بت ہو۔ ایک ساعت کے لیے کمرے میں بھیانک خاموشی طاری رہی، پھر ایک نسوانی چیخ سی سنائی دی۔ فاضل ، فاضل !”
اجنبی نے زینے کی طرف چھلانگ لگائی” میں آگیا ہوں! میں آگیا ہوں!“ وہ بولا اور دیوانہ وار سیڑھیاں چڑھ کر اس نے گرتی ہوئی اسمارہ کو سہارا دیا۔
میں نے اٹھنے کی شدید کوشش کی، لیکن مجھے ایسا لگا جیسے میں پتھر کا بت بن گیا تھا۔ میں نے شدت سے اپنے آپ کو گھسیٹا اور سیڑھیوں کی طرف بھاگا۔ عین اس وقت زور سے بجلی کڑکی اور پھر ، اور پھر ، پھر کچھ پتہ نہیں۔ ایک خوفناک دھماکہ ہوا، کوئی بھاری سی چیز مجھے
پر آگری، پھر مجھے ہوش نہیں۔
ہوش آیا تو میں یہاں پڑا تھا۔ اس بیڈ پر، میرا منہ اور سر پٹیوں میں اپنا ہو ا تھا۔ چھ مہینے میں پیٹیوں میں لینا رہا۔ چھٹے مہینے پٹیاں کھلیں، تو میں نے دیکھا، میں یہاں ہوں۔
ایک روز میں نے نرس سے پوچھا ” بی بی میں یہاں کیسے آیا تھا؟“
ایکسیڈنٹ“ وہ بولی ” جس کمرے میں آپ بیٹھے تھے۔ اس کی چھت گر گئی تھی۔“
میں نے اس سے مزید باتیں پوچھیں، لیکن اسے تفصیلات کا علم نہ تھا۔ پھر میں نے پولیس انسپکٹر سے پو چھا جو اس کیس پر مامور تھا۔ وہ بولا :حادثے کے وقت کمرے میں چھ اشخاص موجودتھے۔ پانچ مرد اور ایک عورت۔ عورت اور ایک مردجو
زینے پر کھڑے تھے، وہ صاف بچ گئے۔ ڈاکٹر ظہیر جو سائیکاٹرسٹ تھے اور صاحب خانہ مسٹر افضل اور ظہیر صاحب کے ایک مہمان، تینوں جو کمرے کے ایک کونے میں بیٹھے تھے موقع پر ہی ہلاک ہو گئے اور آپ جمیل صاحب چونکہ زینے کے قریب تھے، آپ بیچ تو گئے لیکن آپ کا چہرہ چوٹوں کی وجہ سے ڈس مگر ہو گیا۔ آپ کو اٹھا کر ہسپتال لے آئے“۔
نہیں نہیں سن کر صاحب میں نے کہا ” میں افضل ہوں افضل “۔
انسپکٹر نے غور سے میری طرف دیکھا، ڈاکٹر کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔ ڈاکٹر نے اپنی کنپٹی پر انگلیاں گھماتے ہوئے چکر کانشان بنایا۔
نہیں صاحب! انسپکٹر نے جواب دیا ” آپ کاذہنی توازن ابھی بحال نہیں ہوا۔ افضل کی لاش کی شناخت ہو گئی تھی۔ خود ان کی بیگم نے شناخت کی تھی”۔ ” ان کی بیگم کہاں ہیں آج کل“ میں نے پوچھا۔ انہوں نے مسٹر فاضل سے شادی کرلی ہے اور وہ یہ شہر چھوڑ کر چلے گئے ہیں“۔
انسپکٹر کا بیان سن کر میں سوچ میں پڑ گیا۔ کیا واقعی میں افضل نہیں ہوں ؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ اسی روز میں نے ڈاکٹر صاحب سے پو چھا:میں کون ہوں ….؟
وہ سرسری انداز میں بولے ” آپ جمیل ہیں، آپ ظہیر سائیکاٹرسٹ کے گھر مہمان کے طور پر آئے تھے۔ اسی رات جب ایکسیڈنٹ ہوا تو آپ ظہیر کے ساتھ افضل صاحب کے ہاں کھانے پر گئے ہوئے تھے”۔
نہیں ڈاکٹر صاحب“ میں نے چلا کر کہا میں افضل ہوں، افضل !”
آپ سوچے نہیں“ ڈاکٹر اطمینان سے بولا ” ہیڈ انجری کے مریض کی یادداشت عام طور پر گڈ مڈ ہو جاتی ہے۔ آپ اپنی یادداشت کھو بیٹھے ہیں۔ سوچنا یا فکر کرنا آپ کی صحت کے لیے اچھا نہیں”۔
آج مجھے یہاں ہسپتال میں آئے ہوئے چھ مہینے سے زائد ہو چکے ہیں۔ میرے چہرے کو پلاسٹک سرجری سے بحال کیا جارہا ہے لیکن ڈاکٹر کا کہنا ہے ابھی ایک مہینہ اور لگے گا۔ میں اس بیڈ پر پڑا سوچتا رہتا ہوں کہ میں کون ہوں …. ؟ آیا میں جمیل ہوں یا افضل ….؟ بیٹھے ہوئے واقعات فلم کی طرح میری آنکھوں کے سامنے چلتے رہتے ہیں۔ کسی وقت میراجی چاہتا ہے کہ چلا چلا کر کہوں ” میں افضل ہوں افضل۔ میں اسمارہ
کا خاوند ہوں“ …..
پھر سوچنے لگتا ہوں کہ لاحاصل ہے۔ ہونی ہو کر رہتی ہے، اس کے خلاف لڑنا بیکار ہے۔ پھر میں خاموشی سے بستر پر لیٹ جاتا ہوں۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مئی 2019