میں کون ہوں؟
تحریر۔۔۔ممتاز مفتی
قسط نمبر2
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ میں کون ہوں؟۔۔تحریر۔۔۔ممتاز مفتی)پھر جلد ہی میں نے ایک اور بات نوٹ کی۔ جب بھی میں کام یا مطالعے میں مصروف ہوتا یا میری توجہ کسی اور جانب مرکوز ہوتی تو اسمارہ ٹکٹکی باندھ کر میری طرف دیکھتی رہتی۔ آپ جانتے ہیں ، کوئی ٹکٹکی باندھ کر آپ کی طرف دیکھے تو پتہ نہیں کس اصول کے تحت انجانے میں آپ کو پتہ چل جاتا ہے اور آپ کی نگاہ دیکھنے والے کی طرف اٹھ جاتی ہے۔
جب بھی اسمارہ ٹکٹکی باندھ کر میری طرف دیکھتی تو فور امیری نگاہ اس کی طرف اٹھتی۔ اس پر وہ گھبرا کر آنکھیں جھکا لیتی۔ پہلے تو میں نے کوئی اہمیت نہ دی۔ جب بار بار اس کا اعادہ ہو اتو میں کانٹس ہو گیا۔ پھر میں جان بوجھ کر جھوٹ موٹ اپنی توجہ کتاب پر مرکوز کر لیتا، جیسے مطالعے میں کھو گیا ہوں، لیکن کافی آنکھ سے اسمارہ کی طرف دیکھتا رہتا۔ وہ مسلسل ٹکٹکی باندھے میری طرف دیکھتی رہتی، دیکھتی رہتی۔ یہاں تک کہ ہاتھ کے کام کو بھی بھول جاتی۔ سلائیوں کا کام کر رہی ہوتی، تو سلائیاں رُک جاتیں، مشین کا کام کر رہی ہوتی، تو ہاتھ مشین کی ہتھی پر رُک جاتا۔ حساب لکھ رہی ہوتی، تو پینسل منہ میں ڈال لیتی۔ اس دوران میں گویا اسے کچھ اور سوجھتا ہی نہ تھا۔ بس دیوانہ وار میرے منہ کی طرف تکے جاتی، سکے جاتی۔ اس کی نگاہ میں محبت اور حسرت کا عجیب سا امتزاج ہوتا۔ کبھی حسرت ابھرتی اور محبت دب جاتی، کبھی محبت ابھرتی اور حسرت دب جاتی۔ پھر ایک رات تو بات بالکل سامنے آکر کھڑی ہو گئی۔ رات کو جو میں جاگا ، تو کیا دیکھتا ہوں کہ اسمارہ میرے سرہانے بیٹھی، میرے منہ پر جھکی ہوئی کھنکی باندھے میری طرف دیکھ رہی ہے۔ یہ دیکھ کر میں بند آنکھوں سے اس کی طرف دیکھتا رہا۔
اس روز دیر تک میں اسمارہ کے اس خصوصی برتاؤکا مطالعہ کرتا رہا۔ اس کی آنکھوں کی سفیدی میں حسرت کے انبار لگے ہوئے تھے اور پتلیوں میں محبت کے دیے جل رہے تھے۔ پھر لیٹے لیٹے میں نے سوچا، کیوں نہ اب جاگنے کا ڈھونگ رچاؤں۔ دیکھوں تو سہی میرے جاگنے پر اسمارہ کیا کرتی ہے…؟
میں نے جھوٹ موٹ حرکت کی، کروٹ لی اور پھر انگڑائی لے کر اٹھ بیٹھا۔ اب جو دیکھتا ہوں تو اسمارہ ادھر کروٹ بدلے پڑی ہے ، یوں پڑی ہے جیسے کبھی جاگی ہی نہ ہو۔ اگر خالی ٹکٹکی باندھ کر مجھے دیکھنے ہی کی بات ہوتی، تو کوئی بات نہ تھی، لیکن میرے جاگ اٹھنے پر اس کا یوں منہ سر لپیٹ کر پڑ جانا، جیسے کبھی جاگی ہی نہ ہو، میرے دل میں کا نابن کر اتر گیا۔
میری بد قسمتی ہے، میں نفسیات کا ایم اے ہوں، ور نہ میں اس برتاؤ کی چھوٹی اور عام تفصیلات کو اہمیت نہ دیتا۔ بات کیا ہے …. ؟ میرے دل سے ہلکی سی آواز اٹھی۔ پھر وہ آواز بڑھتی گئی ، بڑھتی گئی۔ ذہن سے میرے دل میں اتر گئی اور دل سے نسوں میں جاکر جلترنگ کی طرح بجنے لگی۔
میری اس پریشانی میں ملک کا عنصر نہ تھا۔ شک کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ چونکہ اسمارہ کی ہر بات، ہر حرکت محبت میں بھیگی ہوئی تھی۔ مجھے یقین تھا وہ مجھے سے بے انداز محبت کرتی ہے۔ یہ بھی علم تھا کہ معصومیت اس کے کردار کا جزو اعظم ہے۔ پھر سمجھ میں نہ آتا تھا، اس کی نگاہ میں اتنی حسرت کیوں ہے اور یہ جذ بہ کنسرت میری ذات سے کیوں وابستہ ہے ؟۔ میں نے اسمارہ سے کبھی اس کا تذکرہ نہ کیا تھا۔ کیسے کرتا، جب وہ خود مجھ سے بات چھپارہی تھی، تو میں کیسے بات کرتا …. ؟ پھر بھی خیال آتا کہ شاید اپنے برتاؤ کی یہ تفصیل وہ اپنے آپ سے بھی چھپا رہی ہو۔ شاید اسےخود بھی علم نہ ہو ، وہ ایسا کیوں کرتی ہے۔
پھر ایک نیا واقعہ عمل میں آیا۔ ایک روز جب میں کالج جانے کی تیاری کر رہا تھا تو اتفاقا میری نگاہ اخبار کے ایک آرٹیکل پر پڑی۔ یہ آرٹیکل اوری گیلر Uri Geller پر تھا۔ اور ی اسرائیل کا رہنے والا ایک یہودی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی توجہ سے کئی ایک شعبدے کر سکتا ہے۔ مثلا لوہے کی کنجی موڑ سکتا ہے ، گھڑی کی سوئیاں ہلا سکتا ہے، چیزیں غائب کر سکتا ہے۔ میں یہ آرٹیکل پڑھنے بیٹھ گیا اور بھول ہی گیا کہ مجھے کالج جاتا ہے۔ اسمارہ کمرے میں داخل ہوئی اور مجھے وہاں بیٹھے دیکھ کر چلا کر بولی: ” فاضل ! آپ کالج نہیں جائیں گے کیا ….؟
فاضل ….! میں نے حیرت سے اسمارہ کی طرف دیکھا۔
“فاضل ” وہ گھر اکر بولی نہیں تو میں نے تو افضل کہا ہے“۔
کیا تو فاضل ہی تھا“ میں نے جواب دیا۔ ”شاید “ وہ بولی ” منہ سے نکل گیا ہو“ وہ سخت گھبرائی ہوئی تھی۔ کچھ روز بعد پھر اس نے انجانے میں مجھے فاضل کہہ کر بلایا۔ اس روز میں نے اسے جتایا نہیں۔ چھ ماہ میں اسمارہ نے چار پانچ مرتبہ مجھے فاضل
کہہ کر بلایا۔
میرے ذہن میں ایک اور سوالیہ نشان ابھر آیا۔ ابھی پہلی پر اہلم حل نہ ہوئی تھی کہ ایک اور پر اہلم پیدا ہو گئی۔ پھر مجھے خیال آیا شاید یہ دونوں باتیں ایک ہی شاخ کی دو کو نپلیں ہوں۔
ایک رات مجھے نیند نہ آرہی تھی۔ دس بجے کے قریب میں سو گیا تھا، لیکن بارہ بجے کے قریب جاگ پڑا تھا۔ اس کے بعد میں نے بڑی کوشش کی کہ سو جاؤں۔
مگر نیند نہ آئی۔ اتفاقا میری نگاہ اسمارہ پر پڑی، وہ سو رہی تھی لیکن اس پر گو یا اضطراب کا عالم چھایا ہوا تھا۔ اس سے پہلے سوتے میں میں نے اسے کئی بار دیکھا تھا، کئی بار اس کی نیند بچے کی نیند جیسی تھی۔ گہری نیند جیسے کہ معصوم لوگوں کی ہوتی ہے لیکن اس روز وہ بات نہ تھی۔ سوتے میں وہ بل کھارہی تھی۔ جیسے سخت اضطراب میں ہو۔ پھر اس نے چیخ ماری۔ فاضل ….!” میں نے اسے سہارا دیا۔ ڈر گئی ہو اسمارہ ….؟”
میں نے کہا۔فضل، افضل امجھے چھوڑ کر نہ جانا“۔
میں نے اسے بیڈ پر لٹایا۔ کوئی بات نہیں، کوئی بات نہیں۔ ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ لیٹ جاؤ اسمارہ، لیٹ جاؤ“۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
میں نے اسے تسلی دی۔ حتی کہ وہ خاموش ہو گئی۔ میرا خیال تھا اس نے رونا بند کر دیا ہے لیکن جلد ہی میرے ہاتھوں پر ایک آنسو آگرا پھر ایک اور ایک اور ، پھر میں نے جانا کہ وہ آنسوؤں والا رو نارور ہی تھی۔ تمہیں کوئی تکلیف ہے سماره…؟
میں نے پوچھا۔
نہیں، نہیں تکلیف تو نہیں، لیکن “. لیکن کیا….؟” میں نے پوچھا۔
میں تمہیں سکھ نہ دے سکی۔ وہ رونی آواز میں بولی ” الٹا میں نے تمہاری پریشانیوں میں اضافہ کر دیا ہے….؟
نہیں نہیں۔ میں تو بہت خوش ہوں“ میں نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔
” مجھے پتہ ہے“۔ وہ بولی ” تم کتنے فکر مند ہو۔ میری وجہ سے فکر مند ہو۔ کاش میں تمہارا ساتھی بن سکتی۔ وہ پھر رونے لگی۔ دیر تک میں اسے پہلا تا رہا۔
حتی کہ وہ روتے روتے سو گئی۔
اس روز میں واقعی گھر آگیا۔ ضرور اسمارہ کے دل میں کوئی کا نا لگا ہو اہے اور پھر جب وہ ڈر کر جاگی تھی، تو اس نے فاضل کو آواز کیوں دی تھی؟ فاضل کون تھا ؟ اس واقعے سے میں اس قدر گھبر اگیا کہ میں ظہیر سے جاکر ملا۔ ظہیر میرا پرانا دوست ہے، وہ سند یافتہ سائیکاٹرسٹ ہے۔ میں نے اسے اسمارہ کے متعلق ساری تفصیلات سنائیں۔
وہ ہنس پڑا بڑا دلچسپ کیس ہے، لیکن پریشانی کی کوئی خاص بات معلوم نہیں پڑتی۔
و پھر بھی تمہارا کیا اندازہ ہے….؟”
میں نے پو چھا۔
اس معاملے میں اندازے نہیں چلتے“۔ ظہیر نے جواب دیا ” ممکن ہے دہا ہوا احساس گناہ ہو۔ کوئی غیر عقلی ڈر ہو ، خوف ہو“۔
احساس گناہ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا“۔ میں نے کہا ” اسمارہ اتنی پاکیزہ اور معصوم لڑکی ہے کہ ….. ظہیر نے قہقہہ لگایا ” انسان ایک معمہ ہے اور انسانی ذہن ایک گورکھ دھندا۔ تم بھابھی کو میرے پاس لے کر آؤ تا کہ میں ان کا مسئلہ سن کر کسی نتیجے پر پہنچ سکوں ، پھر شاید میں کوئی اندازہ لگا سکوں۔
گھر آکر میں نے بڑے محتاط انداز سے اسمارہ سے بات کی۔
نہیں نہیں“۔ وہ سخت گھبراہٹ سے بولی۔ ” میں سائیکاٹرسٹ کے پاس نہیں جاؤں گی“۔
اس روز پہلی مرتبہ اس کے انداز میں شدت تھی۔ اتنی شدت تھی کہ میں حیران رہ گیا۔
چند ہی دنوں کے بعد ایک اور واقعہ رونما ہوا۔ آدھی رات کے وقت میں نیند سے جاگا تو میں نے دیکھا کہ اسمارہ سوتے میں شدید اضطراب محسوس کر رہی تھی۔
میں اسے دیکھتا رہا، دیکھتا رہا۔ میرا خیال تھا کہ وہ ابھی چیخ مار کر جاگ اٹھے گی لیکن میر امیہ خیال غلط ثابت ہوا۔ آہستہ آہستہ اس کا یہ اضطراب ختم ہو گیا اور وہ اکثر گئی جیسے لکڑی کی بنی ہو۔ پھر آہستہ آہستہ وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔ میں نے بیڈ سونچ دبا کر بلب روشن کر دیا لیکن اسمارہ کو کچھ پتہ نہ چلا۔ وہ جوں کی توں بیٹھی رہی۔ پھر وہ اٹھ بیٹھی اور چلنے لگی۔ اس وقت میں نے جانا کہ وہ نیند میں چل رہی ہے۔ میں نے تاریخ اٹھائی اور اس کے
پیچھے پیچھے چل پڑا۔ ہمارا گھر پرانی طرز کا بنا ہوا ہے۔ اس کا ایک حصہ خاصا بوسیدہ ہے۔ ہمارا بیڈ روم دوسری منزل پر ہے۔ دوسری منزل سے روزینے نیچے آتے ہیں۔ ان میں سے ایک سیدھا ڈرائنگ روم میں اترتا ہے۔ اسمارہ غلام گردش سے چلتی ہوئی اس زینے سے اترنے لگی جو ڈرائنگ روم میں جاتا ہے۔ جب چند ایک سیڑھیاں باقی رہ گئیں تو وہ رک گئی۔ میں اس کے پاس سے گزر کر نیچے اتر گیا۔ میں نے ڈرائنگ روم کی بتیاں جلا دیں۔ اس کے باوجود وہ جوں کی توں لکڑی کے جنگلے سے ٹیک لگائے کھڑی رہی۔ پھر مجھے ایسے لگا جیسے وہ کسی کو آوازیں دے رہی ہو ۔ اس کا منہ کھلتا اور بند ہو جاتا ، لیکن حلق سے آواز نہ نکلتی تھی۔ چند ایک ساعت وہ وہاں کھڑی رہی۔ پھر مجھے یوں محسوس ہوا جیسے وہ گرنے لگی ہو۔ میں نے لپک کر اسے بازؤں میں تھام لیا۔ اسمارو، اسمارہ ” میں نے اسے آواز دی۔ وہ جاگ پڑی۔ سخت گھبر آگئی۔
میں کہاں ہوں … افضل ہے ..؟ شکر ہے تم ہو، تم مجھے یہاں کیوں لائے ہو …. ؟” وہ اکھڑی۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مئی 2019