میں کون ہوں؟
تحریر۔۔۔ممتاز مفتی
قسط نمبر3
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ میں کون ہوں؟۔۔تحریر۔۔۔ممتاز مفتی)
اکھٹڑی باتیں کرنے لگی۔اگلے روز بڑی سنجیدگی سے اسمارہ سے بات کی۔ سماره، تم پڑھی لکھی ہو، سمجھدار ہو اگر تم نے فوری طور پر اپنا علاج نہ کرایا تو ممکن ہے یہ ساری علامات کسی تیاری کی شکل اختیار کر لیں۔ اس لیے ضد نہ کرو چلو ظہیر سے اپنے مسئلے کو ڈسکس کر لو کیا حرج ہے ..؟” اس نے سراٹی میں بلا دیا اور رونے لگی۔
میں نے اصرار کیا تو بولی۔
میں ان سے ڈسکس نہیں کروں گی، کبھی نہیں۔ میں آپ کو سب کچھ بتادوں گی، لیکن
تمہیں پو ہے اسمارو، میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں…؟
یہی تو مصیبت ہے “۔ وہ چلائی ۔ پھر ہچکیاں لینے لگی۔ کچھ دیر کے بعد سنبھل کر بولی
میں نے بہت مرتبہ چاہا تمہیں سب کچھ بتا دوں، نگر ، مگر ہمت نہ پڑی۔
تو اب بتادہ” میں نے کہا۔
یہ سب کچھ جو ہو رہا ہے “۔ وہ بولی ” اس کی وجہ ایک خواب ہے۔
خواب:ہاں“ وہ بولی ” ایک منحوس خواب جو مسلسل دیکھ رہی ہوں۔ میں نے کبھی کوئی اور خواب نہیں دیکھا۔ وہ بولی صرف یہی ایک خواب بار بار یہی ایک خواب۔ اس کی کوئی تفصیل نہیں بدلتی۔ پہلے یہ خواب میں تقریباً تین مہینے کے بعد دیکھتی تھی، پھر ہر مہینے دیکھنے لگی اور اب شادی کے بعد چلتے میں ایک یا دو بار دیکھتی ہوں”۔
تو کیا شادی سے پہلے بھی دیکھتی تھیں ؟
میں نے پو چھا۔ہاں“ وہ بولی۔ ” تین سال شادی سے پہلے اور اب دو سال شادی کے بعد بھی ۔ وہ کچھ ساعت کے لیے خاموش ہو گئی، پھر بولی ” جب میں نے پہلی دفعہ یہ گھر دیکھا تھا تو میں حیران رہ گئی تھی۔ وہی بیڈ روم، وہی گیلری، وہی زینہ جو ڈرائنگ روم میں اترتا ہے“۔ کیا مطلب؟” میں نے حیرت سے پو چھا۔ میں اس مکان سے پوری طرح واقف تھی۔ خواب میں اسے بیسیوں مرتبہ دیکھ چکی تھی۔ تو کیا تم خواب میں یہی مکان دیکھتی رہیں؟
میں نے پوچھا۔ہاں“ وہ بولی ” یہی مکان، یہی بیڈ، یہی گیلری اور میگی زینہ ۔
مگر خواب میں تم دیکھتی کیا ہوں ؟
میں نے پوچھا۔
دیکھتی ہوں کہ میں اس پلنگ پر لیٹی ہوئی ہوں۔ پہلے میرے سامنے ایک بڑی سی تختی آجاتی ہے جس پر مونے حروف میں نام لکھا ہوتا ہے “افضل” پھر ایک ڈراونی آواز سنائی دیتی ہے نہیں ” ایک ہاتھ ابھرتا ہے اور اس تختی پر کوچی پھیر دیتا ہے”۔ افضل مٹ جاتا ہے اور اس کی جگہ فاضل لکھا جاتا ہے۔ پھر وہی ڈراؤنی آواز کہتی ہے ” فاضل، فاضل” پھر میں ڈر کر اٹھ بیختی ہوں۔ نہیں نہیں“۔ وہ بولی ” میں جاگتی نہیں، خواب میں اٹھ بیٹختی ہوں۔ دیکھتی ہوں تم پانگ پر موجود نہیں۔ پھر نیچے ڈرائنگ روم سے تمہاری آواز سنائی دیتی ہے اور میں اٹھ کر گیلری سے گزر کر زیدہ اترتی ہوں۔ تم ڈرائنگ روم میں اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھے ہوتے ہو۔ پھر میں پی کر تمہیں آواز دیتی ہوں لیکن میرے منہ سے تمہارے نام کے بجائے فاضل “ نکل جاتا ہے۔ اس پر تمہارے دوستوں میں سے ایک اجنبی اٹھ کر میری طرف بھاگتا ہے“۔ میری چیخ نکل جاتی ہے۔ ساتھ ہی بجلی کڑکتی ہے ، ایک دھما کا ہوتا ہے اور پھر مٹی ہی مٹی ، دھول ہی دھول اور میں جاگ پڑتی ہوں”۔ وہ خاموش ہو گئی۔ دیر تک ہم دونوں خاموش بیٹھے رہے۔
شادی سے پہلے بھی تم میرا نام جانتی تھیں
کیا؟” میں نے پو چھا۔
“ہاں” وہ بولی۔
فاضل کون ہے….؟” میں نے پو چھا۔
مجھے نہیں پھ” وہ بولی۔
شاید تمہارا کوئی عزیز یا بچپن کا ساتھی ہو“۔
میں نے کہا۔
“نہیں” وو بولی یہ نام میں نے خواب کے علاوہ
کبھی نہیں نا“۔
جب میں تمہیں پہلی مرتبہ ملا تھا اور تم نے میرا نام جانا تھا۔ اس وقت
ہاں “۔ وہ میری بات کاٹ کر بولی ” مجھے پتہ تھا۔ ہی چاہتی تھیں کہ ہماری شادی ہو جائے لیکن میں نہ چاہتی تھی۔ اگر چہ دل ہی دل میں میں جانتی تھی کہ یہ شادی ہو کر رہے گی۔ پھر شادی کے بعد تم مجھے اتنے اچھے لگے ، اتنے اچھے کہ میرے دل میں یہ خوف کائنا بن کر لگ گیا کہ کہیں ہم ایک دوسرے سے الگ نہ ہو جائیں ۔ اس نے ایک چکی لی اور رونے لگی۔ اسمارہ کا یہ خواب بے حد حیران کن تھا۔ اتنا حیران کن کہ میں سنانے میں رہ گیا۔ میر ا نفسیات کا سارا علم بھک سے اڑ گیا۔ اس کے ایک جلتے بعد وہ حادثہ ہوا جس کی وجہ سے میں ہسپتال میں پڑا ہوں۔
اگر چہ اسمارہ کی مسلسل منتوں کی وجہ سے میں نے وعدہ کر لیا کہ میں ظہیر سے اس کے اس خواب کی بات بیان نہیں کروں گا پھر بھی میری خواہش تھی کہ اسمارہ کا نام لیے بغیر اس سے پوچھوں کہ کیا کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ کوئی سالہا سال مسلسل ایک ہی خواب دیکھتا رہے۔ غالباً اسی غرض سے میں نے تطہیر کو کھانے پر مدعو کر لیا۔ ظہیر مان گیا، لیکن چند گھنٹوں کے بعد اس نے مجھے فون کیا، ہوا: ” آج کا ڈنر کینسل کر دو افضل “کیوں؟” میں نے پو چھا۔
کہنے لگا ” میرے دو پرانے شاگرد آگئے ہیں۔ وہ میرے پاس ٹھہریں گے ، اس لیے مجبوری ہے”۔ میں نے کہا ” یہ تو کوئی بات نہیں، تم انہیں بھی ڈنر پر ساتھ لے آنا۔ یہ تو اور بھی اچھا ہے رونق ہو جائے گی“۔
رات کے ساڑھے آٹھ بجے کے قریب ظہیر اور اس کے دونوں مہمان ہمارے ہاں آگئے۔ نو بجے کے قریب ہم نے کھانا کھایا۔ پھر کافی کا دور چلا۔ اس روز اسمارہ کی طبیعت اچھی نہ تھی۔ اس لیے وہ شب بخیر کہہ کر رخصت ہو گئی اور ہم باتیں کرنے لگے۔ دیر تک ہم باتیں کرتے رہے۔ مختلف موضوعات پر، آخر میں خواہوں کی بات چل نکلی۔
میں اس وقت گھنٹی بجی۔ میں حیران ہوا کہ اس وقت کون آسکتا ہے۔ میں نے اٹھ کر دروازہ کھولا، کوئی باہر کھڑا بارش میں بھیگ رہا تھا۔ میں نے کہا ” آیئے، آئے، اندر آ جائے“۔
اندر داخل ہو کر اجنبی نے معذرت کی۔ بولا معاف کیجیے گا میں خواہ مخواہ محل ہورہا ہوں۔ دراصل باہر کالی گھٹا چھائی ہوئی ہے۔ بجلی زوروں سے چمک رہی ہے۔ میں ایک صاحب کی تلاش میں جارہا تھا، تو بارش ہونے لگی۔ کمرے میں روشنی دیکھی، تو میں نے سوچا شیلٹر کے لیے آپ سے درخواست کروں“۔ آئے ، آئے، شوق سے آئے، آپ بالکل حارج نہیں ہو رہے، جیسے “۔ ظہیر نے کہا ” تشریف رکھیے۔ میں نے خلافت اجنبی کو ایک پیالی کافی کی پیش کی۔ وہ آرام سے بیٹھ کر کافی پینے لگا اور ہم پھر خوابوں پر خال آرائی کرنے لگے۔ کچھ دیر تک ظہیر خوابوں کے متعلق اپنا فلسفہ جھاڑ تا رہا۔
میں نے پوچھا ایک بات بتاؤ تمہیں کیا کبھی تمہارے پاس کوئی ایسا پیٹینٹ آیا ہے جو سالہا سال سے ایک ہی خواب دیکھا رہا ہو..؟
”ہاں“ ظہیر نے سرسری انداز میں کہا ایسے کیسز ہوتے ہیں۔ ایک ہی خواب دیکھتے رہنا کوئی خاص بات نہیں”۔
مال ہے صاحب ” اجنبی بولا ” آپ کمال کرتے ہیں، آپ کہہ رہے ہیں کہ کوئی خاص بات نہیں، حالانکہ اس بات کی وجہ سے میری زندگی گزشتہ نو سال سے تباہ ہو رہی ہے”۔
اجنبی کی بات سن کر ہم حیران ہوئے۔ آپ کا مطلب ہے “ ظہیر نے کہا ” آپ نو سال
سے ایک ہی خواب دیکھ رہے ہیں”۔
” بالکل ” وو بولا” جناب والا میں نو سال سے ایک میں خواب دیکھ رہا ہوں۔ بالکل وہی ایک خواب ، کوئی تفصیل نہیں بدلتی۔
ذرا ٹھہر ہے“ ظہیر بولا۔ “آپ کا کیا
میں ایک بزنس مین ہوں ” اجنبی نے کہا “میری عمر تیس سال ہے اور میں اسی شہر میں رہتا ہوں”۔ آپ کی شادی ہو چکی ہے کیا ..؟ تظمیر نے پو چھا۔
“نہیں” اجنبی نے کہا ” میری شادی نہیں ہو سکتی ۔
یس میری یہ فیلنگ ہے۔ چار ایک مرتبہ میری شادی کا فیصلہ ہو گیا تھا، سب کچھ طے ہو گیا تھا لیکن ہر بار ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ عین وقت پر بات ٹوٹ گئی۔ اب مجھے یقین ہے میری شادی نہیں ہو سکتی چونکہ وہ پہلے ہی سے طے ہو چکی ہے”۔
ارے کمرے میں بیٹھے ہوئے سبھی لوگ چوکے ۔ ” کیا آپ کے اس خواب کا شادی سے تعلق ہے ؟“ ظہیر نے پوچھا۔
ہاں اجنبی بولا ” میں محسوس کرتا ہوں کہ میری ہونے والی بیوی، کسی شہر میں کسی مکان میں میری منتظر ہے اور جب میں…ور نظیر ہے ظہیر بولا
پہلے ہمیں وہ اپنا خواب تو سنا ہے جو آپ گزشتہ نو سال سے مسلسل دیکھ رہے ہیں”۔
معاف کیجیے گا”۔ میں نے وضاحت کرنے کے خیال سے کہا یہ ظہیر صاحب یہاں کے مشہور سائیکاٹرسٹ ہیں، ممکن ہے یہ آپ کو کوئی اچھا مشورہ دے سکیں۔
“میرا یہ خواب”۔ اجنبی نے کہا ” جو میں گزشتہ نو سال سے مسلسل دیکھتا آرہا ہوں، کبھی مہینے میں ایک بارہ کبھی ہفتہ وار۔ یہ خواب بڑا ہی مختصر اور واضح ہوتا ہے”۔
“می” سب ہمہ تن گوش سننے لگے۔
دیکھتا ہوں کہ کوئی شہر ہے، بہت بڑا شہر ، وہاں میں گھوم پھر رہا ہوں، یوں جیسے مجھے کسی کی تلاش ہو، گلیاں ہی گلیاں، بازار ہی بازار کھلے بازار ، بھیڑی بھیڑ۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مئی 2019